شہید فدا احمد کا صدائے اتحاد – ظریف رند

601

شہید فدا احمد کا صدائے اتحاد

تحریر: ظریف رند

دی بلوچستان پوسٹ : کالم

نوآبادیاتی دنیا میں سامراجی تسلط و جارحیت کے خلاف انقلابی جدوجہد اور مزاحمت زندہ معاشروں کی عکاس ہے، جو بغاوت کی شکل میں علم و ادب سے سیاست و معیشت تک سماج کے ہر حصے میں اپنا اظہار کر رہی ہوتی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جدید نوآبادیاتی اور سامراجی دور کے اندر دنیا کے تقریباً تمام براعظموں میں اٹھتی قومی و طبقاتی مزاحمتی تحریکوں کے ابھار کے ساتھ بلوچ معاشرہ بھی اس سربلندی سے بہرہ آور ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور اپنی دھرتی پہ جبراً وارد ہوئے سامراج اور اس کے استبدادی عزائم کے خلاف انقلابی جہد کے حرکیات میں شامل ہو گیا۔ قبائلی و نیم جاگیرداری ڈھانچوں کی وجہ سے مجموعی طور پر بلوچ سماج سیاسی طور پر ترقی یافتہ اقوام کے نسبت کافی پیچھے رہ گیا تھا، مگر اس میں ترقی کی پر پیچ راہوں کو عبور کرنے کے عظیم مناظر بھی تاریخ کا حصہ ہیں اور آج تک کی نسل کیلئے اس عہد کے عظیم رہبروں کی قربانیاں و اسباق قابل فخر و مشعل راہ ہیں۔ لیکن اس میں سماجی پسماندگی کے سبب ایک ملک گیر قومی یکجہتی کا فقدان بہرحال موجود رہا، جسے آگے چل کر نئ نسل نے 1960 کی دہائی میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی بنیاد رکھ کر ایک انقلابی جست کے طور پر عبور کیا۔

بی ایس او، اپنی تشکیل کے آغاز سے ہی بغاوت و مزاحمت کا طرہ امتیاز اپنے سر سجا گیا اور بلوچ سماج کے ہر پرت کو متاثر کیئے اپنے ساتھ جوڑا اور اس خطے کے عظیم انقلابی تنظیموں میں شمار ہونے لگا جوکہ اس ادارے کی سامراج مخالف سوشلسٹ نظریات اور انقلابی آدرشوں کے پیروکار بلوچ سپوتوں کی لازوال قربانیوں کا ثمر ہے۔ بی ایس او کے سنہری ماضی پر آج بھی سینہ چوڑا کرنے والے حضرات کے اس غرور کے پیچھے اس دور کے بے شمار ورناوں کی قابل فخر قربانیاں شامل ہیں، جس میں وہ بلوچ سماج کو تاریکیوں سے نکال کر جدید عہد کے برابر لاکھڑا کرنے اور دنیا بھر سے اونچ نیچ کے ریتی رواجوں کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کے عزم کے ساتھ دیدہ دلیری سے قربان ہو کر تاریخ کے سنہرے باب کا حصہ بنے اور امر ہو گئے۔

شہید وطن کامریڈ فدا احمد بلوچ کا شمار بلوچ دھرتی کے ان سورمائوں میں ہوتا ہے، جو اپنے ذات پر اجتماع کو ترجیح دیتے ہوئے نجی ملکیت کی زنجیروں کو توڑ کر اشتراکی سماج کی تخلیق کے سپاہی بنے۔ فدا احمد بلوچستان کے تپتی دھوپ کے شہر تربت کوشک میں غلام محمد رند کے گھر پیدا ہوئے۔ ابتدائ تعلیم تربت سے ہی حاصل کی اور گریجوئیشن عطاء شاد ڈگری کالج سے کی۔ معاشرے کی مزاحمتی حرکیات سے متاثر ہوکر انہوں نے میٹرک کے دنوں میں ہی بی ایس او (عوامی) کے پلیٹ فارم سے سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور کالج تک پہنچتے انہوں نے تربت زون کے سیکریٹری کے طور پر اہم ذمہ داریوں کے فرائض بھی سرانجام دیئے۔

گریجوئیشن کے بعد کوئٹہ چلے گئے اور ایم اے معاشیات اور بلوچی کی ڈگری حاصل کی اور ساتھ ہی کوئٹہ زون کے جنرل سیکریٹری کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے۔ 1978 میں اردو کالج کراچی میں بی ایس او کا مرکزی کنوینشن منعقد ہوا، جس میں وہ اپنی پختہ سیاسی بصیرت سے اس مختصر عرصے میں مرکزی سیکٹری جنرل منتخب ہو گئے اور عظیم مارکسی مزاحمتی لیڈر شیر محمد مری سے حلف لینے کا اعزاز حاصل کیا۔

فدا احمد بلوچ اپنی انتھک کوششوں سے بی ایس او کو مارکسی نظریات کے خطوط پر استوار کرنے اور بی ایس او کی بکھری قوت کو متحد کرنے پر جدوجہد کرتے رہے۔ بلوچ سماج کی کیفیت کو دیکھتے ہوئے ان کا ماننا درست تھا کہ یہاں کے سردار و زردار بلوچ قوم کے درد مند نہیں ہیں بلکہ یہ نواب و سردار اپنی ذاتی دولت و منصب کی خاطر عام عوام کا خون چوسنے والے درندے ہیں۔ یہ بلوچ دھرتی سے زیادہ سامراج کے وفادار ہیں لہٰذا سامراج کے خلاف لڑتے ہوئے بلوچی نقاب میں ان سامراج کے مقام دلالوں کے خلاف بی ایس او کا طبقاتی بنیادوں پر منظم ہونا ناگزیر ہے اور اس کے لیئے دھڑے بندی سے نکل کر اتحاد کو وہ اولین شرط مانتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ:
بٹے رہو گے تو یونہی بہتا رہیگا لہو
ہوئے نہ ایک تو منزل نہ بن سکے گا لہو

یکجہتی اور طبقاتی جہد کے انہی افکار کی بنیاد پر ان کی انتھک کوششوں سے بالآخر 1983 میں بی ایس او (عوامی) اور بی ایس او کا مشترکہ کونسل سیشن فدا احمد کے ہی زیر صدارت بولان میں منعقد ہوا اور بی ایس او کا باقائدہ انضمام ہو گیا۔ یہ تاریخی فریضہ بیش بہا قربانیوں کے عوض ممکن ہو سکا اور سامراج سمیت مقامی سامراجی گماشتوں کے تن و من میں آگ بھڑک اٹھی کیونکہ بی ایس او اب مقداری لحاظ سے بہت بڑا ادارہ بن چکا تھا، اس لیئے مقتدر قوتوں کی ایوانوں میں لرزا طاری ہوگیا اور اس ادارے کو بکھیرنے کیلئے پہلے سے زیادہ سرگرم عمل ہوئے اور مقامی پیداگیروں کے ذریعے بی ایس او پر داخلی حملوں کا آغاز کیا گیا۔ بدقسمتی سے یہ بی ایس او کی داخلی نظریاتی کمزوری ہی تھی جو حملہ آوروں کو شکست سے دوچار کرنے کے بجائے شومئی قسمت سے خود ہی ایک بار پھر دو لخت ہو گئی۔ اس داخلی انتشار نے بی ایس او کا رجحان عالمی سامراج و مقامی گماشتوں سے ہٹا کر ایک دوسرے کے خلاف دست و گریباں ہونے پر آن پہنچا دیا، جو بالآخر 2 مئ 1988 کو شہید فدا احمد کی موت پر منتج ہوا۔

متحد ہو کر جدوجہد کرنے اور فتح کی منزل تک پہنچنے کی ترغیب دینے والا عظیم استاد کا لہو اپنے ہی قوم دشمن ہاتھوں پر آ لگا اور بد بخت قوم ایک عظیم رہبر سے محروم ہو کر رہ گیا اور ان کا اتحاد کا خواب آج تک شرمندہ تعبیر ہونے کا متقاضی ہے جبکہ بلوچ قوم ماضی سے کئی زیادہ ٹکڑوں میں تقسیم و منتشر ہے۔ شہید وطن فدا احمد بلوچ کی میت پر سیاست کرنے والے پیداگیروں اور ان کے قاتل ایک ہی صف میں کھڑے درماندہ بلوچ عوام کو اپنے خونی ہاتھوں سے نوچ رہے ہیں اور ان کے منہ سے آخری نوالہ بھی چین کر انہیں نان شبینہ کا محتاج کیئے ہوئے ہیں۔ عالمی سطح پر بدلتے حالات و واقعات کا درست ادراک رکھنے والا کوئی بھی نظریاتی تنظیم یا پارٹی سے بلوچ قوم بے بہرہ ہو چکی ہے اور سب کے سب سامراج کی گماشتگی میں اپنا اپنا حصہ بٹور رہیں جبکہ مجموعی طور پر بلوچ عوام استحصال و جبر کی چکی میں پس کر تاریکی میں بٹھک رہا ہے۔

موجودہ عہد میں شہید فدا احمد کی پکار ماضی سے بڑھ کر اپنی ضرورت پیش کر رہی ہے کہ اس کے کارواں کے حقیقی سپاہی نوجوان ان کے راستے کا انتخاب کرتے ہوئے خود کو جدید سائنسی نظریات سے آراستہ کریں اور متحد ہو کر فتح کی جانب کوچ کریں۔ شہید فدا احمد کی شہادت کے بعد ان کا سفر ایک قدم بھی بہ مشکل آگے بڑھا ہے بلکہ وہ سفر وہیں کا وہیں منتظر ہے کہ بلوچ معاشرے کا زندہ انسان اٹھ کر انہی نظریات کا دامن تھامیں جو فتح کی ضامن نظریات ہیں اور جو دھرتی باسیوں کو اس تاریکی سے نکال کر آزادی و خوشحالی کے روشن مینار تک پہنچا دیں گی۔

بی ایس او، عظیم استاد شہید وطن کامریڈ فدا احمد بلوچ کو انکی تیسویں برسی پر سرخ سلام پیش کرتی ہے اور ہم بلوچ سپوتوں کو یہ صدا لگاتے ہیں کہ آو، شہید فدا کی انقلابی آدرشوں کا پالن کرتے ہوئے اتحاد کے ساتھ سائنسی جہد کا حصہ بنیں اور مل کر فتح کی منزل کی طرف آگے بڑھیں۔

اتحاد، جدوجہد آخری فتح تک