سیاست اور دانائی تحریر:شہزاد بلوچ

460

سیاست کا لفظ ہمارے بلوچ معاشرے میں سب سے زیادہ استمعال ہونے والے الفاظ میں سے ایک ہے یا یوں کہیں کہ سرِفہرست بھی رہنے کا مقام حاصل کر چکا ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اب ہمارے رگوں کے خون میں بھی پایا جاتا ہے۔ تو اس سیاسی سوچ کی موجودگی کی وجہ بھلا اور کیا ہو سکتی ہے کہ ہماری اچھی بھلی ریاست بلوچستان پر ایک ایسی ریاست نے اپنا قبضہ جمائے رکھا ہے جسکی اپنی حیثیت دنیا کی نظر میں ایک سازشی اور مہلک ریاست سے زیادہ اور کچھ بھی نہیں،جو اپنے ہی لوگوں کا خون بہا کر ڈالرز کمانے میں کافی نام کما چکا ہے مگر اس سے ہمارا کیا جاتا ہے؟

جی سوال یہیں جنم لیتے ہیں کہ ایک ناکارہ درخت جو نہ تو پھل دینے کی قُدرت رکھتا ہے اور نہ تو کسی کو سایہ فراہم کرسکتا ہے بلکہ اپنی بدنما لمبی جڑوں سے پورے گُلستان کو اجاڑ نے میں مصروف ہے، وہ الگ بات ہے کہ کچھ لوگ اس مُردار درخت کو دن رات پانی دیکر مصنوعی سانسیں دینے میں سر توڑ محنت کر رہے ہیں لیکن سورج کی روشنی کو شھادت کی اُنگلی سے روکا جاتا تو کوئی اور بات ہوتی۔ یہ وہ مکار دشمن ہے جو سیاست کو ایک فوجی پتلون کا بیلٹ سمجھ کر اپنے کمر میں باندھے رکھا ہوا ہے۔

سوچو تو اسکے دماغ سے،بولو تو اسکے الفاظ سے،دیکھو تو اسکی آنکھوں سے یہ حال ہے موجودہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا۔ ظاہر ہے ہر عروج کا ایک زوال ہوتا ہے اور ظلم جب اپنی آخری حدوں کو پار کر جائے تو شاید مردے بھی اُٹھ کھڑے ہونے لگتے ہیں۔ جسکی واضع مثال ہمیں رواں سال میں دیکھنے کو مل رہی ہی، کسی نے مالی امداد روک رکھی ہے تو کوئی حملے کرنے کے در پے ہے، اور یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں کہ ان آوازوں کے اٹھنے میں اہم کردار اُس مظلوم قوم کا ہے جو ستر سال سے بے دریغ جانوں کا نظرانہ پیش کررہی ہے اور دنیا کو بیدار کر رہی ہے کہ مجھے میری ہی سرزمین پر غلام بنایا گیا ہے جو مجھے ہرگز قبول نہیں،میں لاکھ کمزور سہی پر اپنا دفاع کرتا رہونگا اور اس عالمی دہشتگرد ریاست سے لڑتا رہونگا جو آپ لوگوں کہ لیے بھی ایک ناسور بن کر رہ گیا ہے۔

ہم بلوچوں کی بہادری اور وطن دوستی کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں مگر ہم میں ایک عیب ضرور موجود ہے اب یہ مت کہنا اسکو بیان کرنے کی جگہ یہ نہیں کیونکہ ہم بلوچوں کو تنہائی میں کی گئی نصیحت سے زیادہ مجمعے میں کہا گیا طنز جلدی اثر کرتا ہے اور جسکی وجہ سے سمجھدار اور باشعور لوگوں میں سدھار بھی جلد رونما ہوتا ہے،بات کچھ یوں ہے کہ ہم سیاسی جماعتوں کو اپنی جاگیر سمجھنا چھوڑ دیں اور سیاسی کارکنوں کو بس ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرنے تک محدود نہ کریں جسکے باعث انکی نیچرل قابلیت روندی جارہی ہے اور پھر یہ کہنا بھی غلط نہیں انکی مثال اُس فوجی سپاہی کی مانند ہوتی ہے کہ افسر کے حکم پر سیاہ ؤ سفید میں فرق جانے بغیر غلط قدم اُٹھانے سے گریز نہ کرے جو ایک قابلِ تشویش عمل سمجھا جاتا ہے۔

خاص طور پر جو بلوچ نوجوان بیرونی مُلک مقیم ہیں انکو اپنی زندگی جینے کا بھرپور حق موجود ہے مگر جو انکی حقیقی،قومی اور سیاسی ذمہ داریاں ہیں انکو بلا کسی خوف یا تفریق کے پایہ تکمیل تک پہنچائے۔ کالج کے ان بگڑے طالبعلموں جیسا رویہ اختیار نا کریں کہ جو ہر دو قدم پر چار افراد کا ٹولہ جمع کرکے ہر آنے جانے والوں پر فکرے کستے رہتے ہیں۔ بلکہ پوری سیاسی دانائی کو بروئے کار لاتے ہوئے ان بٹے ہوئے لوگوں کو ایک میز پر بِٹھا کر اُس دشمن کے خلاف ذہن سازی کریں،جنکی مہربانیوں سے آج آپ لوگ اپنی سرزمین چھوڑنے پر مجبور کیے جا چکے ہیں اور آپ لوگوں کو آپکے حسین سرزمین سے جسمانی طور پر تو دور کر ہی چکے ہیں مگر خدارا اپنے آپ کو ذہنی دوریوں کا شکار نہ ہونے دیں۔
آج بلوچ خود کو سیکولر ثابت کرنے کی دوڑ میں ہر اس انسان سے گلے ملنے کو تیار ہے جس سے نہ اسکے ذہن ملتے ہیں نہ کہ سرحدیں مگر پڑوس میں رہنے والا انکا اپنا بلوچ بھائی انھیں ایک کانٹے کی طرح چُبتا ہے جو ایک ناقابلِ برداشت عمل ہے۔