رواں ماہ  کے شروع میں سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں ہر طرف ‘فری بلوچستان’ کے اشتہاری پوسٹرز نظر آنے لگے۔ یہ پوسٹر سڑکوں اور بسوں سے لیکر ریل گاڑیوں تک پر چسپاں تھے۔

ان پوسٹرز کو ‘بلوچستان ہاوس’ نامی تھنک ٹینک نے اسپانسر کیا تھا اور انکی ویب سائٹ پر مہران مری سمیت براہمدغ بگٹی کے دو انٹرویوز موجود ہیں جنھیں ‘جنیوا ٹائمرز’ اخبار نے بھی ٹویٹ کیا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ‘بلوچستان ہاؤس’ مرحوم نواب خیر بخش مری کے صاحبزادے مہران مری چلا رہے ہیں۔

یاد رہے اس سے قبل کسی بھی یورپی ملک میں اشتہاروں کی مدد لیکر مہم نہیں چلائی گئی ہے، اس مہم کے اثرات کو پاکستان تک میں محسوس کیا گیا۔ پاکستانی حکام کے مطابق کل آٹھ پوسٹرز شہر بھر میں لگائے گئے ہیں، جن میں ایک ڈجیٹل بورڈ بھی شامل ہے۔

ان اشتہاروں کا اتنا اثر ہوا کے جنیوا میں مقیم پاکستانی وطن لوٹ کر صحافیوں کو بتارہے تھے کہ انھیں ہر طرف ‘فری بلوچستان’ نظر آرہا تھا، حتہ کہ بسوں پر بھی۔

اس مہم سے نا صرف مطلوبہ مقصد پورا ہوا (دنیا کو بلوچستان بابت آگاہی) بلکہ بلوچ آزادی پسند حلقوں میں بھی اسے خوب پزیرائی حاصل ہوئی۔

ٹویٹر پر موجود آزادی پسند ایکٹوسٹ فیض بلوچ نے رواں سال کوئٹہ میں مبینہ طور پر فوجی اہلکاروں کی جانب سے راحیل شریف کے حق میں لگے پوسٹرز سے موازنہ کرتے ہوئے لکھا کہ، “پاکستانی اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ سوئزرلینڈ کے پوسٹرز پر بھی کچھ ایسا لکھا ہو” شکریہ راحیل شریف، خدارا جانے کی باتیں چھوڑ دو”۔

گو کہ ان اشتہاروں نے بہت اثر دکھایا مگر جنیوا میں موثر ترین احتجاج قرار دینے کے لیئے اس سے بڑھ کرکرنا تھا، جو کہ بلوچ ریپلکن پارٹی نے اپنے پانچ روز سے جاری احتجاجی مہم کے زریعے کیا۔

بلوچ ریپلکن پارٹی نے اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کونسل کے چھتیسویں اجلاس کے بابت پہلےسے ہی اپنے احتجاجی شیڈول کا اعلان کردیا تھا۔ انکی جماعت کے جانب سے اجلاس سے قبل ‘بروکن چئیر’ کے سامنے ایک مظاہرے کا اہتمام کیا گیا تھا، جبکہ اجلاس کے دن ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی جو کے جنیوا کے بازاروں سے گزرتے ہوئے آخر کار اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے آکر رکی۔

اس احتجاج کے حوالے سے بی آر پی کے میڈیا سیل نے تصاویر اور وڈیو کلپس شائع کی ہیں۔

بی آر پی کی جانب سے حکیم واڈیلہ نے اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کاونسل سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ،”پاکستانی حکام چین کو بلوچستان میں دعوت دیکر باقائدگی سے بلوچ کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی تیاری کر رہا ہے”۔

اس سے قبل بی آر پی کے نمائندوں نے مختلف انسانی حقوق کے اداروں سے تعلق رکھنے والے کارکنوں سے ملاقاتیں کی اور بلوچ قومی سوال و بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تبادلہ خیال کی۔

پر بی آر پی کے قائد براہمدغ بگٹی نے اپنے ٹویٹر پر کارکنوں کی تصاویر شائع کرتے ہوئے کہا کہ،” بی آر پی کارکن آگاہی مہم دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں بابت احتجاج  کر رہے ہیں”۔

جنیوا میں اشتہار و احتجاجی مظاہروں کے ردِ عمل میں پاکستانی حکام نے بھی سخت احتجاج کیا ہے۔

پاکستان کے مستقل مندوب فرخ عامل نے چھ ستمبر کو اپنے سوئس ہم منصب کو بھیجے گئے ایک مراسلے میں اس اشتہاری مہم کو پاکستان کی سالمیت و خودمختاری پر حملہ قرار دیتے ہوئے اپنے خدشات سے آگاہ کیا تھا۔

جبکہ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں سوئٹرز لینڈ کے سفیر کو بلا کر سفارتی سطح پر بھی احتجاج کیا گیا۔ اُن سے مطالبہ کیا گیا کہ ان پوسٹرز کو فوری طور پر اتارا جائے۔