اپنی بہن ملالہ یوسفزئی کے نام کھلا خط۔۔۔! تحریر :حفصہ نصیر بلوچ

1050

میری پیاری سی بہن ملالہ !

امید کرتی ہوں کہ آپ خیرت سے ہونگی ،

میں یہ خط اس امید کے ساتھ لکھ رہی ہوں کہ شاہد کسی طرح سے آپ تک پہنچ جائے۔

میرا تعلق بلوچستان سے ہے جی ہاں بلوچستان جو بالکل آپ کے اپنے گاوں سوات کی طرح خوبصورت ہے وہ سوات جہاں کی خوبصورت گنگناتی وادیاں معصوم لوگوں کی خون کی لہر سے بہہ رہی تھی جہاں طالبان کی دہشت گردی اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی وہ سوات جہاں درس گاہوں پر پابندی تھی لڑکیوں کی تعلیم پر قدغن تھا ہر طرف طالبان ہی طالبان نظر آتے تھے کچھ وردی والے طالبان اور کچھ بغیر وردی کے ۔۔۔

بقول البرٹ دنیا ان لوگوں کی وجہ سے تباہ نہیں ہوگی جو ظلم کرتے ہیں بلکہ ان لوگوں کی وجہ سے ہوگی جو تماشا دیکھ کر خاموش رہتے ہیں۔

بحیثیت ایک لڑکی ، مجھے بھی تم پر فخر تھا کہ جب بولنے لکھنے پڑھنے پر پابندی تھی تو تم سامنے آئی اور نہتے ہونے کے باوجود ان لوگوں کو ان طاقتور لوگوں کو چیلنج کیا جو صرف بندوق کی زبان بولتے تھے۔

ایک دن یہ درندرے تمہیں تمہاری اسکول گاڑی سے اتار کر شناخت کرکے گولی چلاتے ہیں۔ اس دن میں بہت روئی اور سوچتی رہی کہ ایک چھوٹی سی بچی کو مارنے والے کیسے لوگ ہونگے لاکھوں ہاتھ جب پروردگار کی در پر تمہاری زندگی کی دعائیں مانگ رہیں تھی تب دو ہاتھ میرے بھی بلند تھے اور رب العزت سے تمہاری زندگی کی بھیک مانگتی رہیں۔

نوبل پیس پرائز ملنے کے بعد تو آپ دنیا بھر کی ان طاقتور لوگوں میں ایک بن گئی جن کی منہ سے ادا اور قلم سے لکھے ایک ایک لفظ دنیاکےاہم جریدوں کی سرخی بن جاتے ہیں۔ کل جو لوگ تمہاری آواز کو دبانا چاہتے تھے وہی آواز سوات کی وادیوں سے اڑان بھر کراب اقوام متحدہ تک پہنچ گئی ۔۔۔

میری پیاری سی بہن ملالہ

کچھ دن پہلے آپکا ایک بیان برما میں مسلمانوں پر زیادتی اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانے پر پڑھا اچھا لگا سب کو سب کا درد ہونا چاہیے تب ہی ہم اچھے انسان کہلائیں گے ۔۔۔کیونکہ میرے رب العزت بھی فرماتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے رب نہیں بلکہ انسانوں کے رب ہیں فلسطین پر بھی آپ کی جانب سے مذمتی بیان دیکھنے کو ملتے ہیں۔۔۔

میری بہن
یہ کونسا عینک ہے جو صرف مسلمانوں پر غیر مسلمانوں کے ظلم ہی دیکھتی ہے
بلوچستان میں روزانہ لوگوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جاتا ہے اور مسلمان آرمی والے مسلمان بلوچوں کے گھروں میں گھس کر ماؤں کے لخت جگر اٹھانے کے بعد مسخ کرکے پھینک دیتے ہیں وہ بلوچستان جہاں زیر زمین بے شمار وسائل ہیں لیکن وہاں معدنیات کے بجائے وہ زمین لاشیں اگلتی ہے
پنجگور تربت میں بچیوں کی تعلیم پر غیر اعلانیہ پابندی ہے ہرنائی میں ریاست پاکستان کی فضائی فوج بم برساتے ہیں جن بچیوں کو اسکول میں پڑھنا چاہیے وہ بھوک ہڑتالی کیمپوں میں جوان ہورہی ہیں مہلب بلوچ تم سے چھوٹی ہے مگر گزشتہ آٹھ سال سے اپنے  والد ڈاکٹردین محمد بلوچ کی بازیابی کے لیے کراچی اور کوئٹہ پریس کلب کے سامنے بھوک ہڑتال کرتی آرہی ہے میری بہن شہناز بلوچ 2011 کو سوتے ہوئے پاکستانی فورسز کی راکٹ لانچر کی زد میں آگئی اور تب سے ہمیشہ کے لیے سو گئی اب وہ اسکول نہیں جاتی ہے

ملالہ انسانیت تو قومیت کے مہذب اور روایتی تمام زاویوں سے آزاد ہوتی ہے نہ ؟؟؟
تو یہ آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ بلوچستان میں انسانیت کی روز تذلیل ہوتی ہے اور اس پر کوئی کیونکر نہیں بولتا؟

اگر برما میں مرنے والے مسلمان ہیں تو بلوچ کون ہیں ؟؟
جن طالبان کو تم سے خطرہ تھا آج ان مذہبی درندوں کی بلوچستان میں پشت پناہی پاکستانی فوج خود کررہی ہے ۔

بلوچستان کی سینکڑوں ملالہ جن کو پاکستانی فوج نے اپنی بربریت کا نشانہ بنا کر ہمیشہ کے لیے خاموش کردیا انکا نوحہ کون لکھے گا انکی آواز کون بنے گا ؟؟

ہمارے درد ہمارا کرب کا کون احساس کرے گا ؟ بلوچستان میں موجود ان ہزاروں ملالہ کا کیا جن سے انکے بھائی اور والد کو زبردستی دور کرکے کلی کیمپوں میں اذیتیں دی جارہی ہیں ؟؟ کیا بلوچ ملالہ کو پڑھنے لکھنے اور بولنے کا حق نہیں ؟

کیا انکی زندگیاں احتجاجی ریلی جلسے جلوسوں میں اپنے عزیزوں کی بازیابی کے انتظارمیں گزریں گی ؟ بے آوازوں کا آواز کون بنے گا ؟؟
برما میں مرنے والوں کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے بے زمین اور در بدر لوگ کا درد بھی بیان کریں۔۔
ریاست پاکستان کے مظالم پر آواز بلند کرنے کی کوشش کرو تب ہی اچھی مسلمان اور انسان کہلاو گی
جن جن عظیم ہستیوں کو آپ اپنا آئیڈیل کہہ چکی ہیں وہ واقعی میں عظیم تھے گاندھی جی سے لے کر منڈیلا اور خان عبدالغفار خان اور انکی تمام زندگی انسانیت کی خدمت میں گزری ۔

ایک بلوچ بہن کی ان لفظوں کو میری پختون بہن صرف لفظ ہی سمجھ کر نظر انداز نہ کرے ان میں موجوددرد کو محسوس کرے کیونکہ انسانیت کا رشتہ باقی تمام رشتوں سے بڑھ کر انمول ہے۔

منجانب آپکی ایک بہن حفصہ نصیر بلوچ