تابش! اب امر ہو گیا
تحریر : میر احمد زھری
دی بلوچستان پوسٹ
پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والا شخص جو شاعر بَننے کے بعد اب تا ابد امر ہوگیا- بلوچستان، خصوصاً زھری کے اندر بڑھتی بد امنی، آئے روز نوجوانوں کا لاپتہ کرنا اور انکی مسخ شدہ لاشیں ریاست کی طرف سے تحائف کی صورت میں ہمیں پیش کرنا، ریاست کی طرف سے مارو پھینکو کا سلسلہ تیز کرنا، ہمیں 2010 کی اُس کھائی میں دھکیلا جا رہا ہے، جس کھائی سے شہرِ خضدار اب تک نکل نہیں سکا- جو تباہی ریاست نے شہر خضدار میں بلوچ کی نسل کشی کی صورت میں ہمیں سو سال پیچھے دھکیل دیا، وہی عمل اب اِس پسماندہ علاقے میں دہرا کر، نوجوانوں کو خوفزدہ کرکے قومی جہد سے غافل کرنا چاہتا ہے۔
لیکن سوال پیدا یہ ہوتا ہے کہ اس نسل کُشی کا جواب کیا اور کیسے ہونا چاہیئے؟ میں سمجھتا ہوں کہ سرداری و سرکاری نظام سے پَرے ہمیں دشمن کے لیے دردِ سر پیدا کرنا ہوگا، جو دشمن پر وار کرکے ایسے کاری ضرب لگائیں جس سے پنجابی کی سات پُشت پناہ مانگیں۔ ایسے موقع پر انسان کو سخت فیصلے ایک اعلیٰ کردار کا مالک ثابت کر سکتا ہے، جو دشمن کو ایک بھیانک انجام تک پہنچا سکتا ہے-
ایسے حالات کا پورا بلوچستان 75 سالوں سے سامنا کر رہا ہے
لیکن بات یہ ہے دنیا میں جہاں کہیں بھی ریاستوں کے طرف سے عام آبادیوں پر ظلم کے برسات ہوئے، وہیں سے مزاحمت نے جنم لیا ہے۔ اور یہ ریاست کی سب سے بڑی شکست اور سب سے بڑی کمزوری ہے۔ خوفزدہ اور شکست خوردہ دُشمن کی یہی نشانی ہوتی ہے کہ وہ عام لوگوں پر اپنا ظلم ڈھا کر اپنی شکست چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔
آج تابش تھا ہو سکتا ہے کل یحیٰ زاہد ہو جو حال ہی میں لاپتہ ہوا ہمارے بیچ سے اُسے بھی اسی طرح شہید کردیں، اور پھر میری اور آپ کی باری ہے—جہاں ظلم ہوتا ہے وہیں سے مزاحمت جنم لیتی ہے۔
پھر وہاں خاموشیاں دم توڑ دیتی ہیں
پھر وہاں کے ہواؤں میں آزادی کی خوشبو مہکتی ہے
آج زھری میں نوجوان طالب علم شاعر تابش وسیم کی مسخ شدہ لاش ہمارے لئے ایک جیتا جاگتا پیغام ہے۔ آج یہ لاش ہم و ہماری ضمیروں کے لئے ایک سوال ہے
ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
کیا ہمیں اگلی لاش کا منتظر رہنا ہے ؟
کیا ہمیں اپنے باری کا انتظار کرنا چاہئے ؟
کیا ہمیں چُپ چاپ جبر کا شکار بننا چاہئے؟
کیا ہمیں اپنے والد بھائی کے لاش یا اپنی والدہ کے چادر کے تار تار ہونے کا انتظار ہے ؟
جواب ہے، نہیں ہرگز نہیں اب ہمیں اور انتظار نہیں کرنا ہر روز ہم اپنے نوجوانوں کے لاشوں کو کندھا نہیں دے سکتے اگر یہ سلسلہ چلتا رہا پھر ہمارے لاشوں کو بوڑھے اور عورتیں کندھا دینے لگینگی۔
ہمیں اب کی بار کسی سردار میر معتبر وڈیرہ ٹکری نائب کے ہاتھوں دھوکہ نہیں کھانا ہے، ہر بار کی طرح وہ آئینگے ہمیں بھڑکانے گُمراہ کرنے وہ ہمارے گھروں تک آئینگے وہ ہمارے والدین کو جھوٹی تسلیاں دینگے- وہ تابش کے گھر والوں کو بھی تسلیاں دیتے رہے لیکن تابش لؤٹ آیا تو ایک میت بن کر بعض نے تو پیسے بھی وصول کئے وہ تابش کی رہائی میں کردار ادا کرینگےاور انہوں نے کیا لیکن تابش کے زندہ سلامت آنے پر نہیں تابش کو ایک لاش کی شکل میں لانے پر-
ان دو ٹکے کے سردار، میروں، وڈیراؤں کے بارے میں ہمیں اچھی طرح یہ بات سمجھ لینی چاہیئے جو ہمارے اوپر ہمارے نوجوانوں کے اوپر ظلم ہورہا ہے یہ انہی سب کا کیا دھرا ہے-
اس سے پہلے جتنے لوگ بے گناہ مارے گئے ہے ان کے انصاف کے لئے کیا اقدام اُٹھا ئے گئے جو اب ہمارے لئے ہونگے۔
ظہور ہِرند مارا گیا کب تک اسکی میت روڈ پر پڑی رہی کیا کسی نے انصاف دلائی، پچھلی بار ظہور کا لاش تابش نے کندھا دیا تھا، اب کے بار تابش کی لاش ہم نے کندھا دیا، شاید اگلی باری میری و تیری ہو، لیکن اُس سے پہلے اِس کڑوے زہر کو پی کر دشمن کے لیے ایک بھیانک چہرہ خود کو ثابت کرنا ہوگا، تاکہ ہر بار تابش و ظہور یوں روڈوں پر لاوارث پھینکے نہیں جائیں، اگر پنجابی اس عمل کو دہرانے کی کوشش کرے تو ہزار بار سوچے، کہ اس کا انجام وہی ہوگا ہر عام پنجابی پاکستان کے روڈوں پر لاوارث پھینکے جائنگے، اور پنجابی کے اس خواب کی تعبیر مجھے اور آپ کو کرنا ہوگا-
یا پھر ہمیں خود سے یہ سوال کرنا ہے۔
وہ راستہ جو سارنگ اور وشین نے چُنا وہ درست ہے جو راستہ سہراب امتیاز اور باقی شہیدوں نے چُنا وہ درست ہے؟
جواب ہے، جی ہاں بالکل یہی راستہ ہے جو ہمیں فلاح اور نجات کی طرف گامزن کرتا ہے۔
شہیدوں کا انتخاب کیا ہوا یہ راستہ اب ہمارے مستقبل کا فیصلہ کر سکتی ہے یہی وہ رسی ہے جسے اب ہمیں مظبوطی سے پکڑنا ہوگا-
اب ہمیں لڑنا ہوگا اب ہمیں مزاحمت کرنی ہوگی ۔ اپنے لئے اپنے قوم کے لئے اپنے آنے والے نسلوں کے لئے ۔
ہمیں لڑنا ہوگا!
ہمیں لڑنا ہوگا ماں بہنوں کے لخت جگروں کے لیئے ہمیں لڑنا ہوگا بے گناؤں کے لیئے ہمیں لڑنا ہوگا بے گواہوں کے لئے-
ہمیں لڑنا ہوگا انسانیت کے لیئے
اور ہمیں انسانیت کے لیئے ہار نہیں ماننا ہوگا۔
ہمیں لڑنا ہوگا پنجابی کے خلاف، کیوں کہ اب لڑائی فرض بن چُکا ہے-
ہم لڑینگے ہم ہار نہیں ماننگے
ہم آزادی کے لیئے لڑینگے
اور پھر ہمارے قربانیوں شہادتوں ثابت قدمیوں کے عوض ایک مختلف دنیا قائم کی جائیگی ، ہم اُسے نہ دیکھیں گے لیکن ہمارے بچے ضرور دیکھیں گے ، اگر وہ نہیں تو ہمارے پوتے ضرور دیکھیں گے۔
ایک انصاف پسند روشن خیال دنیا، جہاں لوگ ایک دوسرے کو جبر کا شکار نہیں بنائیں گے ،ایک دوسرے پر ظلم نہیں کریں گے ، جہاں ہر کوئی دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر آزادی سے اور اپنی مرضی ، اپنے انتخاب کے مطابق زندگی بسر کرے گا۔ فطرت ، جانور اور لوگ ہم آہنگی میں زندگیاں بسر کریں گے۔ نسل انسانی ہزاروں برسوں سے ایسی دنیا کے خواب دیکھتی آرہی ہے۔ اگر ایسی دنیا کی تخلیق کی کوئی امید نہ رہی ہوتی تو لوگ ہزاروں برسوں سے جدو جہد نہ کر رہے ہوتے اور نہ ہی اتنے خون اُن کے بہہ جاتے، وہ جانتے تھے کہ ہمارا خون رائیگاں نہیں جائے گا، ہم امر ہوجائینگے، جیسے وسیم تابش اب امر ہوگیا—
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں