میں گنہگار ہوں کیونکہ میں بلوچ ہوں – گل بانو بلوچ

381

میں گنہگار ہوں کیونکہ میں بلوچ ہوں

تحریر: گل بانو بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

میں واحد، کیلکور آواران کا رہنے والا، دینار کا فرزند، گناہ یہ ہے کہ میں بلوچ ہوں، میرا باپ چرواہا ہے جو ہر روز محلے کی بکریوں کو دُور کہیں چَراکر شام کو کمر ہاتھ سے پکڑے آتا ہے، حالت نڈھال بال, پلکیں داڑھی مٹی سے سفید, ہونٹ خشک اور بھوک سے نڈھال گھر آتا ہے، ہر مہینے چار پیسے نو گھر وں سے ملتے تھے کیونکہ بابا اِن کی بکریاں چرایا کرتا تھا۔

میری عاجز ماں جو مرگِ بستر پرہے ہر لمحہ ہونٹوں پے ہمارے سلامتی کی دعا اپنے رب سے مانگتی تھی، میری ایک بہن شادی شدہ ہے باقی ہم دو بھائی ہیں، میں واحد اور میرا بڑا بھائی محمد علی، محمد علی کے سات کمسن بچے ہیں، چار بیٹیاں، تین بیٹے ہیں، میں اور میرا بڑا بھائی معمول کی طرح آسمان تلے شام کی چائے اور سُوکھی روٹی کھا رہے تھے ،بچے ہمارے ارد گرد کھیل رہے تھے، میری ماں بکریاں باندھ رہی تھی، میری بیوی اور محمد علی کی بیوی چھوٹے سے جھونپڑی جسے ہم نے کچن بنایا ہوا تھا وہیں روٹیاں بنا رہے تھے کہ اچانک آسمان ہمارے سر پر کالی چادر کی طرح لپٹ گئی ، ہر طرف اندھیرا چھا گیا زمین سے ایسی ہولناک آواز آئی جیسے قیامت آگئی ہو نظر اُٹھا کر دیکھا کہ وحشی درندوں نے ہمیں گھیرا ہوا تھا، دو گاڑیاں ہمارے جھونپڑی کے قریب آکر کھڑی ہوئیں، اُن میں سے دو چار اُتر کر میرے بھائی محمد علی کی طرف تیزی سے بڑھنے لگے، ہمیں جانوروں کی طرح گھسیٹتے ہوئے، گاڑی کے قریب لے گئے میرے بزرگ ماں اور باپ چیختے رہے تھے چلاتے رہے تھے مگر شاید ان ظالموں کے کانوں کے پردے خشک ہوئے تھے کہ ان تک آواز نہیں پہنچ سکا میری ماں بھاگتی ہوئی آرہی تھی تو کئی بار گِرتی سنبھلتی رو رو کے فریاد کر رہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ میرے بچوں کو مت لے کر جاؤ، میرے اور میرے بھائی کے بچے زور زور سے رو رہے تھے۔ ان ظالموں کے پاؤں پڑتے ہوئے چلا رہے تھے، میرے بابا کو چھوڑ دو میرے بابا کو چھوڑ دو میرے بابا کو کیوں لے کر جا رہے ہو؟

مگر ان ظالموں کا زرہ برابر بھی احساس نہیں ہوا، کوئی ترس نہیں آیا، گھر کی عزت کو پامال کیا، عورتوں پے تشدد کیا، کِسی کا سر توڑا گیا تو کِسی کا کمر ،عورتوں اور مردوں کے موبائل سب چھین لئے گئے، میری ماں کا دوپٹہ چھین کر پھینک دیا، میں چیخا تو مجھے زور سے ایک لاٹھی لگی جس کی وجہ سے میں اپنا ہوش کھو بیٹھا۔ میں اور میرا بھائی خاموش کھڑا دیکھ رہا تھا اِس کے علاوہ ہمارے پاس کچھ نہیں تھا کرنے کو, اور اِسی سوچ میں ڈُوبے ہوئے تھے کہ آخر ہمارا قصُور کیا ہے؟ ہمیں کہاں لے کر جا رہے ہیں؟ ہمارے ساتھ کیا کرینگے؟ کئی سوالات نے ہمیں گھیرا ہوا تھا مگر جواب کا دُور دُور تک کوئی اتا پتا نہیں تھا، ہمیں گاڑی میں بٹھایا گیا، بڑے بڑے بُوٹ، لال لال آنکھیں, غُصّے سے لال پیلا چہرا ہمارے سوالات میں اضافہ لا رہے تھے، ہماری آنکھیں کالے کپڑے سے باندھ دیے گئے اور آہستہ آہستہ گاڑی کی رفتار تیز ہوتی گئی۔

راستہ لمبا ہوتا گیا مگر منزل کا پتہ نہ چلا آنکھیں بند, ہونٹ خُشک, دل ایسے دھڑک رہا تھا جیسے باہر آنے کی جلدی ہو وہ لوگ ایک دوسرے کے کانوں میں پُھس پُھس کر رہے تھے، میں نے سُننے کی بہت کوشش کی مگر کچھ نہ سُن سکا طویل وقت گزرنے کے بعد گاڑی رُکی اور ہمیں پھر سے جانوروں کی طرح گھسیٹتے ہوئے گاڑی سے باہر نکالا ہماری آنکھیں ابھی تک بندھی ہوئی تھیں، ہمیں لاتوں اور گھونسوں سے آگے آگے لیکر جارہے تھے۔ رات بہت سرد تھی، ہوا زور زور سے جُھوم رہی تھی, جسم کے بال کھڑے کھڑے محسوس ہو رہے تھے خدا جانے یہ بال ٹھنڈ کی وجہ سے ایسے محسوس ہو رہے تھے کہ یا ڈر کی وجہ سے۔ جسم کا ہر حصہ اپنی آغوش سے باہر تھا اچانک مجھے ہلکی سی گرمی محسوس ہونے لگی شاید ہمیں کسی کمرے میں لے کر آئے تھے ہمیں وہاں بٹھایا گیا اور آنکھیں کھول دیں، آنکھ کُھلتے ہی میں نے فورًا اپنے بھائی کو ڈھونڈا تو دیکھا وہ مجھ سے تھوڑا دُور اسی کمرے میں بیٹھا مجھے دیکھ رہا تھا, اُسکی آنکھیں میری آنکھوں سے پہلے کھول دیئے تھے، ہمارے ہاتھ پیچھے باندھے ہوۓ تھے۔

اِسی دوران دو لوگ آئے اور میرے بھائی کو کہا اُٹھو کمینے ابھی تمہاری مردانگی نکال لیتا ہوں میں نے چلایا میرے بھائی کو کہاں لے کر جا رہے ہو؟ اُن میں سے ایک نے جواب دیا ” تمہارا بھائی تمہارے سامنے ہی ہوگا تم بس تماشا دیکھو میرے پاس بولنے کو الفاظ نہیں تھے، میرے بھائی کو میرے سامنے لٹایا رسی گلے میں ڈالا اور ایک بندہ نیچے بھائی کے پاؤں کھینچتا جا رہا تھا اور میرا بھائی چیختا چلاتا رہا اور یہی کہتا رہا واحد مجھے بچاو, مجھے بچاو میرے ہاتھ بندھے ہوئے تھے، میں جُوں ہی بھائی کے قریب جاتا تو ایک لاٹھی مجھے مارا جاتا تو ایک لاٹھی میرے بھائی کو میں چلا کر یہی بول رہا تھا میرے بھائی کو چھوڑ دو اُسکی جگہ مجھے سزا دو پھر مجھے بٹھایا اور مارنے لگے۔

میرے پاؤں کی اُنگلیوں میں کیل رکھ کر ہتھوڑے سے مارتے گئے کیل میرے اُنگلیوں میں جاتا گیا اور خُون بہتا گیا لیکن مجھے درد محسوس نہیں ہوا کیونکہ میرا پورا دھیان بھائی پر تھا، میں بس خُون دیکھ رہا تھا کہ مجھ پر تشدد ہو رہا ہے، میرا بھائی چیخ رہا تھا اور زور زور سے بول رہا تھا کہ ” میرے بھائی کو چھوڑ دو اُسکی جگہ مجھے مارو ہمیں مارتے مارتے تھک گئے تو چلے گئے۔ میرا بھائی ابھی تک اُسی طرح لٹکا ہوا تھا اور اُسکی گردن آہستہ آہستہ ٹیڑھا ہوتا جا رہا تھا دیوار پر ایک گھڑی لگی ہوئی تھی اِس وقت رات کے دو بج رہے تھے مجھے نہیں معلوم کہ ہمیں کب لایا گیا تھا میرے ہاتھ ابھی تک بندھے ہوئے تھے میں کبھی بھائی کے پاس جاتا تو کبھی دروازے کے قریب جاکر کہتا ہمارا قصُور کیا ہے آخر؟ ہمیں چھوڑ دو ﷲ کے واسطے لیکن کوئی نہیں تھا مجھے سُننے والا میں بھائی کے پاس گیا، وہ یہی کہہ رہا تھا کہ واحد مجھے بچاو میں بے بس تھا مجبور تھا کچھ کر نہ سکا تھوڑی دیر بعد دیکھا تو بھائی کے پاؤں نیچے آتے جارہے تھے اور گردن ٹیڑھا ہوتا جارہا تھا، میں دیکھتا رہا کچھ نہ کر سکا کہ اچانک بھائی نے اپنے پاس بلایا میں قریب گیا تو مجھے تھوڑی دیر دیکھتا رہا وہ اپنی آخری سانس لے رہا تھا۔ اُنھوں نے دم توڑتے توڑتے صرف ایک نام لیا.. ” واحد ” بس پھر وہ خاموش ہوا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے.

پر وہ لوگ آئے بھائی کو دیکھتے ہوئے کہا ” اچھا مر گیا کُتا؟ میں صدمے میں تھا میری زبان سے کچھ نہ نکلا الفاظ نے ساتھ چھوڑ دیا تھا لب خاموش تھے میرے بھائی کے لاش کو ڈبے میں ڈال کر دفنا دیا نہ جانے کہاں، مجھے واپس گھر کے قریب پھینک دیا، میں گھر پہنچا تو گھر والے رو رو کر گلے ملنے لگے، امّی نے پوچھا محمد علی کہاں ہے؟ امّی کو گلے لگا کر میں زور زور سے رونے لگا ” میں کچھ نہ کر سکا ظالموں نے ہمیں توڑ دیا، یہ سُن کر امّی خاموش ہوگئی ایسے خاموش جیسے شرط لگ گئی ہو، پھر دوسرے دن سارے محلے والے اپنے اپنے گھر سے نکلے اور سڑک پر بیٹھے رہے کہ ہمارا لاش ہمیں دے دو۔ اب یہ لاش رکھ کر انھیں کیا ملتا، لاش تو اُٹھ کر کچھ نہیں کرتا، ظالموں نے جہاں دفن کیا تھا وہیں لے کرکئے، سب کو وہاں ہم نے بھائی کو نکال کر آخری دیدار کیا اور کفن کرکے دفن سپرد خاک کردیا، میرا آخری سوال اُن سے یہ تھا کہ ہمارا قصُور کیا تھا میرے بھائی کا کیا قصُور تھا؟ اُن میں سے ایک نے میرے قریب آتے ہوئے میرے کان میں کہا کیونکہ تم بلوچ ہو۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں