کیا خدا بھی مقید ہے؟
عمران بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
چلو آج خود سے گفتگو کر کے دیکھ لیتے ہیں ۔۔۔ شاید ترقی یافتہ معاشروں میں تنہائی پسند افراد کو جو خود سے بات کرتے ہوں ، سوچتے ہوں، خود کو کمرے میں اکیلے بند کرتے ہوں تو دیکھنے والا یہ سوچ کر چپ رہتا ہوگا کہ شاید وہ کوئی تخلیق کار ہے کچھ لکھ رہا ہوگا پڑھ رہا ہوگا یا پھر یہ کے فرد کی آزادی اور حق ہے کہ جو چاہے کرے، مگر جس قبیل سے میرا تعلق ہے وہاں اول تو فرد کیا؟ خاندان کیا؟ قافلوں کے قافلے لٹ چکے ہیں۔
دوسری بات ہمارے ہاں مشہور ہے کہ خالی ذہن شیطان کا گھر ہے لہذا کچھ فضول کرلو بے شک، لیکن سوچنا اور سوال کرنا منع ہے، البتہ سوال تو بنتا ہے ضرور بنتا ہے کہ، کیا خدا ہے؟ عقل کہتا ہے ہاں ہے، کیا بلوچ اور باقی دنیا کا خدا ایک ہے؟ عقل پھر ہاں میں جواب دیتا ہے، کیا باقی دنیا کا سب بلوچوں کا اور سمی کا خدا ایک ہے؟ جی بالکل ایک ہے۔ تو پھر سوچنے سمجھنے اور جاننے کا یہ حق سمی کو اور ہر بلوچ کو حاصل ہے کہ ” کیسے کہہ دوں کہ تھک گیا ہوں میں، نجانے کتنوں کا حوصلہ ہوں میں” وہ حوصلہ بکا نہیں ہے، وہ حوصلہ جھکا نہیں ہے، وہ حوصلہ ٹوٹا نہیں ہے، اسی لئے ڈر کے مارے دین محمد کی شکل میں فیاض کی شکل میں اور بیبگر سمیت ہر گمشدہ بلوچ کی شکل میں وہ حوصلہ مقید ہے۔
یقیناً اس لئے مقید ہے کہ کوئی اس سے ڈرتا ضرور ہے۔ اب نہ صرف حوصلہ مقید ہے بلکہ عید کا چاند، عید اور سمی کی خوشیاں بھی مقید ہیں۔ یہ مطالبہ کرتے ہیں اجتمائی سزا مت دو ، تعلیم کے دروازے بند مت کرو، بلوچوں کا اٹھانا غائب کرنا لاشیں یا مسخ شدہ لاشیں ، لاوارث لاشیں ، اجتماعی قبریں یہ سب بند کرو، بلوچوں کو انصاف دو ان کے پیاروں کو جو کسی کا باپ کسی کا بیٹا کسی کا شوہر اور کسی کا بھائی ہے، اس کے گم ہونے کی صورت میں پورا خاندان مقیدہے۔
ہاں یہ سچ ہے تمھیں تو خوش ہونا چاہیۓ جشن منانا چاہیے أج سمی کے گھر، نرگس کے گھر کوئی مرد نہیں ہے صرف خواتین بچے ہیں، پر آج میں بھی خوش ہوں، بہت خوش ہوں، سمی کا گم شدہ خدا بھی جانتا ہے کہ میں خوش ہوں، کیونکہ یہ تم اور تمھارے فیمینسٹ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ یہ قبائلی ہیں، جاہل ہیں ان پڑھ ہیں اپنے عورتوں پر ظلم کرتے ہیں عورتوں کو اپنے پیروں کی جوتی سمجھتے ہیں مگر آج بلوچ عورت ہی لیڈر ہے، وہی تو سماج کی پوری قوم کی رہنمائی کر رہی ہے تم نے دیکھا نہیں مرد اب اس کو فالو کر رہے ہیں، اب اس معاملے میں تمھیں اور تمھارے فیمینسٹ کو سانپ سونگ گیا ہے، یقیننا تم نے سمی کا مہلب کا آمنہ کا اور ماہرنگ کا سنا ہوگا۔
ہاں ایک اور بات یہود و نصار یعنی تمام کفار نے سب مسلمانوں کے لئے عید گاہ بمعہ سیکیوریٹی کے مہیا کر رکھے تھے ، سب نے امن سے ، خوشی سے، روایات کے مطابق اپنی عید اپنے پیاروں کے ساتھ منایا، یہاں پر بھی عید نماز کا وقت مقرر تھا پر بلوچ کا چاند اور عید مقید تھے اس لئے بلوچ نے عید پریس کلب کے سامنے گزاری اور بلوچ اتنا مہذب ہے کہ اس نے أئین اور قانون کی امن کی انسانیت کی بات کی۔ سمی کہتی ہے اب وہ تھک چکی ہے ڈرو اس دن سے جب وہ واقعی میں اس گلے سڑے نظام سے مایوس ہوکر تھک جاۓ، اس کے اپارٹمنٹ کے غریب چوکیدار کو تو یہ احساس ہے کہ سمی نے عید نہیں منایا، نئے کپڑے نہیں پہنے پر منصف کو احساس نہیں ، اب نجانے منصف ہے بھی کے نہیں؟ ننھے علی اور ماہ زیب کی تو میں یہاں بات ہی نہیں کر رہا، بیبگر کی بوڑھی والدہ اور بزرگ دادی کی پریس کلب کے سامنے آنے اور بیبگر کے عید کے کپڑے ساتھ لانے کی میں تو یہاں زکر ہی نہیں کرتا، راشد کے ماں کی بے ہوش ہونے کی کہانی بس دلوں پر نقش ہے میں تو بس اتنا کہتا ہوں تمہیں اپنے بناۓ ہوۓ أئین پر، قانون پر، عدلیہ پر، کمیشنز پر تو بھروسہ نہیں رہا، البتہ یہ قدرتی وسائل جو میری خوش بختی اور بد بختی دونوں ہیں ، ہأں تمھیں اور تمھاری حرص و حسد کو دیکھ کر میں اکثر خدا سے سوال کرتا ہوں کہ میرے پیارے کہاں ہیں؟ کب أئینگے، مجھے یہ بخت ، یہ سرزمین ، یہ وسائل أپ نے دیئے ہیں، اس میں میرا تو کوئی قصور نہیں ، میں نے تو نہیں سنا البتہ کسی نے کہاں آپ نے ایک دفعہ جواب دیا تھا کہ” پڑھ لے اے غدار نو سوال کردا ہے” میں جانتا ہوں میرا مخالف مکار ہے سودا باز ہے پر مجھے یقین ہے آپ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں پر یہ جواب سن کر کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہیں آپ بھی سمی کے والد، عید کی چاند اور عید کی طرح مقید تو نہیں؟
دل تو نہیں مانتا اور تسلی دیتے ہوۓ کہتا ہے کہ ایک دن جواب ضرور ملے گا اور أپ کہو گے” بگش منئ بچ من گوش دارہ گایہ”۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں