بلوچ لبریشن آرمی کے سربراہ بشیر زیب بلوچ نے برطانوی نشریاتی ادارے بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات برابر کی طاقتوں کے مابین ہوتے ہیں اب تک پاکستان ہمیں برابر کے طاقت کے طور پر نہیں دیکھتا، اس لیے جب ان کے زبان سے لفظ مذاکرات نکلتا ہے تو ان کے ذہن میں قیمت پوچھ کر نوجوانوں سے ہتھیار رکھنے کا خیال ہوتا ہے، وہ بیوپاری کی طرح قیمت پر بات کرنا چاہتے ہیں جبکہ ہمارے لیے یہ بقاء و فنا کا مسئلہ ہے، ایسی صورت میں مذاکرات کیسے؟
بی ایل اے سربراہ نے کہا کہ جب بھی ہمیں اور ہماری قوت کو برابری کے بنیاد پر تسلیم کیا گیا تو ہم انسانی جانوں کو بچانے کے لیے فوج کو بلوچستان سے نکلنے کا محفوظ راستہ دینے کے لیے کسی بین الاقوامی ضامن کی موجودگی میں مذاکرات کر سکتے ہیں۔
بی ایل اے کے سربراہ بشیر زیب کہتے ہیں کہ گذشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصے کی جدوجہد کے دوران نہ انہوں نے کبھی پاکستان سے مذاکرات کی بات کی اور نا ان سے کبھی کوئی رابطہ ہواہوں کہ طالبان یہ رسک نہیں لے سکتے۔
بی ایل اے سربراہ بشیر زیب کا کہنا ہے کہ آج کے حالات 1990 کی دہائی سے یکسر مختلف ہیں کیونکہ آج بلوچ تحریک کسی ہمسایہ ملک پر انحصار نہیں کرتی۔ یقیناً جنگ سے متاثرہ بلوچ مہاجرین افغانستان و ایران کے ان بلوچ علاقوں میں پناہ گزین کی زندگی گزار رہے ہیں جنہیں وہ اپنا وطن تصور کرتے ہیں لیکن بلوچ مزاحمت کار و مزاحمتی قیادت رواں تحریک کو بلوچستان سے ہی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان میں چاہے جس کی بھی حکومت ہو، رواں تحریک تسلسل توڑے بغیر جاری رہے گی، بلوچ تحریک و طالبان کے مابین موضوعی و نظریاتی اختلافات لازم موجود ہیں لیکن کبھی بھی ان کی نوعیت معروضی نہیں رہی۔ ہاں البتہ بلوچ سرزمین پر آ کر بلوچ قومی مفادات کے خلاف اگر دنیا کی کوئی بھی قوت متحرک ہوتی ہے تو بلوچ بخوبی مزاحمت کرنا جانتے ہیں۔