بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں پاکستانی فوج کی بربریت بدستور جاری ہے۔ کئی علاقے دس دنوں سے محاصرے میں ہیں اور علاقہ مکین مسلسل فضائی بمباری اور شیلنگ کے ساتھ مختلف مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ علاقے سیل اور آمد و رفت و معلومات کے ذرائع منطقع ہی، جس سے غذائی قلت اور بیماریوں کے پھوٹ پڑنے کا خدشہ بڑھ گیاہے۔ خاص کر شدید سردی میں بچوں کی ہلاکت کا خدشہ ہے ۔ ضلع واشک کے راگئے، ضلع پنجگور کے گچک اور ضلع آواران کے مشکے میں خواتین اور بچوں سمیت کئی افراد کو شہید اور کئی اُٹھا کر لاپتہ کر دئیے گئے ہیں۔ ان میں بلوچ رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی دو بہنیں نورخاتون اور شرخاتون بھی شامل ہیں۔ شرخاتون کی بیٹی اور دوسالہ پوتا بیبگر اور شش ماہی پوتی ماہین بھی پاکستانی فوج کی خفیہ زندانوں میں ہیں۔ سرکردہ بلوچ رہنماکی بہنوں کو اغوا اور لاپتہ رکھنا اقوام متحدہ کے اصولوں کی منافی ہے۔ مگر اقوام متحدہ ، انسانی حقوق کے اداروں اور میڈیا کی خاموشی نے بلوچستان کی سنگین صورتحال کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ بلوچستان میں میڈیااور اظہار رائے اور ہماری سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی گئی۔ کوئی بلوچ سیاسی سرگرم کارکن کسی قسم کا احتجاج نہیں کرسکتا۔ اسی پاداش میں ہزاروں سیاسی کارکن شہید یا لاپتہ کئے گئے ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ انہی مظالم کے خلاف بی این ایم نے آج بیرون ملک جرمنی کے دارالحکومت برلن، آسٹریلیا کے شہر میلبورن اور جیورجیا میں ’’انسانی حقوق کا عالمی دن‘‘ کے موقع پر احتجاج کیا۔ اس میں بی این ایم کے کارکناں نے کثیر تعداد میں شرکت کی اور مقامی لوگوں کو پاکستانی مظالم کے بارے میں آگاہی دی۔ مظاہرین نے پلے کارڈ اور بینرز اُٹھائے ہوئے تھے جن پر پاکستانی مظالم کے بارے میں نعرے درج تھے۔ اس حوالے سے برلن میں پمفلٹ تقسیم کی گئی۔ مقامی لوگوں کو آگاہی دی گئی کہ پاکستان میں سیکولر بلوچ قوم پر ہر قسم کی پابندی عائد ہے جبکہ مذہبی انتہا پسند جماعتوں کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔ برلن احتجاج میں بلوچ ریپبلکن پارٹی کے کارکنوں نے بھی شرکت کی۔
ترجمان نے کہا کہ آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں بی این ایم اور بی ایس او آزاد نے مشترکہ احتجاج کیا۔ مظاہرین و مقامی لوگوں سے بی این ایم کے میر بلوچ اور بی ایس او آزاد کے فیصل بلوچ نے خطاب کیا۔ جیورجیا میں بی این ایم کے ارکان نے لاپتہ خواتین اور بچوں کی تصاویر دکھاکر لوگوں کو پاکستانی مظالم سے آگاہ کیا۔
اکتوبر کے مہینے میں کراچی سے نو سالہ آفتاب، بارہ سالہ االفت سمیت نو طلبا کو پاکستانی فورسز نے اُٹھا کر لاپتہ کیا۔ ان میں بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کے انفارمیشن سیکریٹری نواز عطا بھی شامل ہیں۔ اسی طرح کراچی ہی سے پندرہ اور سولہ نومبر کی درمیانی شب بی ایس او آزاد کے سیکریٹری جنرل ثنا عزت بلوچ کو تین ساتھیوں، حسام بلوچ، نصیر بلوچ اور بی این ایم کے ممبر رفیق بلوچ سمیت اغوا کرکے لاپتہ کیا۔
دس دسمبر ’’انسانی حقوق کا عالمی دن‘‘ کے موقع پر احتجاجوں کا مقصد دنیا کی متوجہ کرنامقصود تھا، کہ دنیا میں انسان کی حیثیت سے بلوچ قوم بھی اسی سرزمین پر بستا ہے اور انسانی حقوق کا طلب گار ہے۔ پاکستان کا بلوچستان پر قبضہ کے بعد 69 سالوں سے بلوچ قوم پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اور عالمی طاقتوں سمیت انسانی حقوق کے ادارے بھی خاموشی اختیار کرکے پاکستان کو بلوچستان میں بنگلہ دیش کی تاریخ دُہرانے کی اجازت دے رہے ہیں۔ اگر بنگالیوں کی نسل کشی پر پاکستان کو جوابدہ اور سزا یافتہ ٹھہرایا جاتا تو پاکستان فوج کو ایک اور نسل کشی شروع کرنے سے پہلے کئی بار سوچنا پڑتا۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
ہم اب بھی مہذب دنیا اور اقوام متحدہ سے اپیل کرتے ہیں کہ اب بھی وقت ہے کہ پاکستان کو لگام دیکر بلوچستان میں جاری مظالم کو روک کر اس انسانی بحران کو ختم کرانے میں کردار ادا کریں۔