ابراہیم رئیسی بھاری اکثریت سے ایرانی صدر منتخب ہوگئے، انہوں نے ایک کروڑ 78 لاکھ ووٹ حاصل کیے۔
ایرانی میڈیا کے مطابق ایران میں صدارتی انتخابات کے نتائج کا اعلان کر دیا گیا۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی کے حمایت یافتہ امیدوار ابراہیم رئیسی کامیاب قرار پائے۔
صدارتی انتخاب میں چار امیدوار مدمقابل تھے، باقی تینوں امیدواروں نے اپنی شکست تسلیم کر کے ابراہیم رئیسی کو کامیابی کی مبارکباد دی۔
واضح رہے کہ ابراہیم رئیسی ایران کے منصف اعلیٰ کے منصب پر بھی فائز رہے ہیں اور ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ قدامت پسند خیالات رکھتے ہیں۔
ابراہیم رئیسی پر امریکہ نے متعدد پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور ان پر ماضی میں سیاسی قیدیوں کی پھانسی جیسے الزامات بھی عائد کیے جاتے ہیں۔
ابراہیم رئیسی 60 برس کے ہیں اور وہ اپنے کرئیر میں زیادہ وقت پراسیکوٹر کے طور پر فرائض سر انجام دیتے رہے ہیں۔ انھیں 2019 میں عدلیہ کا سربراہ منتخب کیا گیا۔ سنہ 2017 میں وہ صدر حسن روحانی سے بڑے مارجن سے ہار گئے تھے۔
بی بی سی فارسی کے مطابق ابراہیم رئیسی نے مارچ 2016 میں ایران کے سب سے امیر اور اہم ترین مذہبی ادارے امام رضا فاؤنڈیشن۔۔۔آستان قدس رضوی۔۔۔ کا انتظام سنبھال لیا۔ یہ ادارہ مشہد میں امام رضا کے مزار کی نگرانی کرتا ہے۔
یہ عہدہ بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس ادارے کا بجٹ اربوں ڈالر کے برابر ہے اور یہ فاؤنڈیشن ایران کے دوسرے بڑے شہر مشہد اور تیل و گیس کمپنیوں اور کارخانوں میں آدھی اراضی کی مالک ہے۔
ایران میں متعدد لوگوں کے خیال میں اس منصب پر ان کی تقرری کا مطلب یہ ہے کہ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای انھیں آئندہ انتخابات میں کامیاب کرانے خواہشمند تھے۔
ابراہیم رئیسی اپنے آپ کو بدعنوانی کے خاتمے اور معاشی مسائل کے حل کے لیے بہترین انتخاب کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ تاہم متعدد ایرانی اور انسانی حقوق کے علمبردار ان کے 1980 کی دہائی میں سیاسی قیدیوں کے بڑے پیمانے پر قتل میں کردار پر تحفظات کا اظہار کرتے ہیں۔
ایران نے کبھی بڑے پیمانے پر قتل کو تسلیم نہیں کیا ہے اور ابراہیم رئیسی نے بھی کبھی
اپنے اوپر لگائے گئے الزامات پر کچھ نہیں کہا۔