بلوچستان یونیورسٹی میں طلباء سیاست اور سرکل پر پابندی کے مضمرات- گزین گورگیج

457

بلوچستان یونیورسٹی میں طلباء سیاست اور سرکل پر پابندی کے مضمرات

تحریر: گزین گورگیج

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان یونیورسٹی میں طلبا سیاست اور سرکل پر پابندی لگانا حکومتِ بلوچستان کا انتہائی حاکمانہ اور آمرانہ طرزِ پالیسی ہےـ بلوچستان کے طلبا کو سیاست سے دور رکھنے کی کوشش کرنا بلوچستان حکومت کی بوکھلاہٹ کو ظاہر کرتا ہےـ۔

سیاست بلوچ طلبا کی فکری میراث ہے، بلوچ طلباء ـ سیاست سےکسی صورت میں الگ نہیں ہو سکتے۔ ـ ـ بلوچستان گورنمنٹ کا اس طرح کے احکامات جاری کرنا احمقانہ ہےـ بلوچ طلبا کے تیزرو سیاسی شعور و سیاسی جذبے کو دیکھ کر بلوچستان کی غیر جمہوری حکومت اور اس کے حواری ادارے کانپ رہے ہیں۔ ـ

نہ صرف آج بلکہ ہر دور میں بلوچ طلبا تنظیمیں اس طرح کی مشکلات کا سامنا کرتی رہی ہیں،ـ کبھی بلوچ طلبا تنظیم کو کالعدم قرار دے کر ان کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا جاتا ہے تو کبھی اس طرح کے غیر جمہوری رویہ سے بلوچ طلبا تنظیموں کو سیاست سے دور رکھنے کے لیے پابندی عائد کی جاتی ہےـ۔

وہ اسی لیے بلوچ طلبا تنظیموں پر سیاسی پابندی عائد کرتے ہیں کیونکہ بلوچ طلبا تنظیموں نے بلوچستان کے حقوق کے حوالے سے ہر دور میں کلیدی کردار ادا کیا اور ہمیں ہر دور میں مخلص قیادت فراہم کی ـ اسٹیبلشمنٹ بلوچ طلبا سے اسی لیے خوف زدہ ہے کیوںکہ سیاست نئے رجحانات کا نام ہےـ سیاست معاشرے میں نئے لیڈر پیدا کرتی ہےـ سیاست ہمیں برابری کا درس دیتی ہےـ سیاست ایک نئی تبدیلی لاتی ہےـ سیاست ہمیں اپنے ساحل و سائل، اپنی شناخت کو برقرار رکھنے کا درس دیتی ہےـ سیاست کے بغیر ہمارا معاشرہ گم راہ ہو جاتا ہےـ۔

سیاست سے کنارہ کشی سے ظالم حکمران مسلط ہوں گے۔سیاست سے کنارہ کش ہونا قوموں میں لاشعوری بڑھ کر زوال کا شکار ہوتے ہیں۔

ہم بلوچستان کی تمام قوم پرست جماعتوں سے التجا کرتے ہیں کہ بلوچ طلبا کے لیے آواز اٹھائیں، یہ بلوچستان کا مُستقبل ہیں ـ نیز بلوچ طلبا کو بھی ان غیرسیاسی عزائم اور غیرجمہوری رویوں کے خلاف ڈٹ کے رہنا چاہیے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔