کراچی کے بلوچوں کا مختصر تاریخی پس منظر
نعمان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ قومی تاریخ کا جب بھی تذکرہ ہو تو کراچی اور کراچی میں بسے بلوچوں کا تذکرہ ضرور زیر بحث آئیگا۔ اسکا سب سے اہم جواز یہی ہے کراچی خود تاریخی حوالے سے بلوچوں کی جاگیر گزر چکی ہے جوکہ آج صوبہ سندھ کا حصہ مانا جاتا ہے۔ جہاں پر بلوچ قدیم زمانہ سے آباد ہیں۔ 1725 میں کراچی ایک قصبہ کھرک کے نام سے معروف ہوا کرتا تھا۔ 1729ء کراچی ڈربو کہلانے لگی ۔ پرانے زمانے میں کراچی کا نام کلانچی بھی ہوا کرتا تھا ایران افغانسان، خلیج، اور کئی عرب ممالک سے سامان کراچی لایا جاتا تھا، جسکی وجہ سے کراچی کی اقتصادی اہمیت بڑھتی گئی۔
جب سندھ میں نور کلہوڑہ کی حاکمیت ہوئی تو ان دنوں کراچی کی سرزمین پر مچھیروں کی جھونپڑیاں ہی تھیں، جوکہ مچھلی کی شکار پر زندگی بسر کرتے تھے۔ اسی دوران اکثریت بلوچوں کی ایران (سیستان) سے ہجرت(کوچ) کرکے خراسان (بلوچستان جو موجودہ دور میں پاکستان کا حصہ مانا جاتا ہے) ہجرت کرکے کراچی میں بس گۓ ۔ اس زمانے میں گڈاپ، منگو پیر، اور مختلف گھوٹوں میں بس گئے۔۔۔۔سیستانی بلوچ جوکہ آج کثیر تعداد میں نیول اور کچھ مختلف گھوٹ میں موجود ہیں جیسے گبول گھوٹ۔
1972ء تک کراچی خان قلات کے ماتحت رہا۔ اس زمانہ میں سندھ کی اقتدار کلہوڈ کے ہاتھوں سے نکل کر بلوچوں کے پاس آئی۔(۔بلوچ قبیلہ تالپور)کو ملی۔
کہتے ہیں اٹھارویں صدی میں کراچی پر انگریزوں نے قبضہ جما لیا، اسی طرح بلوچوں نے کراچی کو کھو دیا اور انگریز حکومت کی ہاتھ لگی۔ اسی وقت برطانوی حکومت نے کراچی کو چارلس کے ہاتھوں سونپ دیا اور چارلس ہی پہلے گونر نامزد ہوۓ۔ مورخوں کے تحقیقات کے مطابق اس وقت سندھ کے کل آبادی 14 ہزار نفوس (جانیں ) پر مشتمل تھی، تب انگریز حکومت نے کراچی کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کیا جوکہ اس سے پہلے نہ سندھی اور نہ بلوچ کرپاۓ تعلیم اور تجربہ کی فقدان کی وجہ سے کراچی کی ترقی کو دیکھ کر مکران سے بڑی تعداد بلوچ کراچی میں بسے جوکہ آجتک موجود ہیں، اسکی بڑی وجہ مکران میں قحط سالی تھی۔ مکرانی بلوچ ساحلی راستوں سے کراچی میں آ بسے جنہوں نے یہاں اکر ماہی گیری اور مزدوری کے پیشے اپناۓ۔ شروع زمانے سے بلوچ اکثر او بیشتر لیاری میں بس رہے تھے لیکن قدیم زمانے میں لیاری ایک جنگل اور ویران حصہ تھا۔ جیسا کہ 10 سال پہلے سہراب گوٹھ اور اج احسان آباد اور اللہ بخش گوٹھ ویران ہے۔ جہاں تک میرا معائنہ ہے۔
1928ء میں جب رضا شاہ پہلوئی نے ایرانی بلوچستان پر قبضہ کیا تو دشتیار سے دشتیاری قبائل کی بڑی تعداد کراچی میں بس گۓ ۔ اسی دوران کراچی کے تمام تر تعمیراتی کام بلوچوں کو سونپا گیا۔ محمود آباد سے گزرنے والی ریل کی پڑی بھی بلوچوں کی تعمیر کی ہوئی ہے۔ کراچی میں بلوچ کمیونٹی نے آباد ہونے کے ساتھ پہلے زمینداری اور ماہی گیری، مال مویشی کو تجارت کا پیشہ بنایا۔ اس سے بلوچوں نے منافع کما کر کراچی میں کئی زمینوں کو خرید لیا۔ ساٹھ فیصد بلوچوں کے ہی زمینیں تھیں۔ کراچی میں سب سے پہلے خان قلات نے اپنی حاکمیت قائم کردی۔ سندھ اور بلوچستان پر قبضے کے بعد انگریزوں کے خلاف ہونے والی جنگ میں بلوچ ہر اول دستہ کی شکل میں موجود تھے۔
1888 میںء قادر مکرانی کی انگریزوں کے خلاف تحریک میں بلوچوں کا ساتھ دیا۔ تاریخی حوالے سے میرے خیال میں پہلی جنگ عظیم کے دوران بلوچستان کے سردار نورالدین مینگل کی انگریزوں کے خلاف اعلان بغاوت کی۔
(نوٹ:- یہیاں بات کراچی کی ہورہی ہے تو کراچی کے تاریخ کو مدنظر رکھ کر لکھ رہا ہوں وگرنہ بلوچ قوم کی سامراج کے خلاف پہلی مزاحمت میر مہراب خان نے 1839ء میں کی تھی۔)
1935ء کے ایکٹ کے بعد جب کراچی کے بلوچوں کو ووٹ دینے کا حق حصول ہوا تو اس وقت بلوچوں نے محراب عیسی خان کو کونسلر منتخب کیا۔(اس سے پہلے انگریز خود کونسلر نامزد کرتے تھے)
1925ء کو میزان صرف کے نام پر بلوچی گرائمر کتاب شائع ہوئی۔ اسی دوران انجمن سیاسی پلیٹ فارم وجود میں آگیا جوکہ بعد میں بلوچ لیگ میں ضم ہوا۔
1930ء میں جب بلوچوں کے سیاسی تحریکوں پر پابندی عائد ہوئی تواسوقت بلوچستان کے معروف رہنما یوسف عزیز مگسی کو انگریز حکومت نے بغاوت کی پاداش میں مستونگ خراساں میں قید کیا۔ تب کراچی کے تمام بلوچ مستونگ کی طرف مارچ کرنے لگے تو یوسف عزیز کو رہا کردیا گیا۔
1932ء میں اسماعیل خلیفہ نامی بلوچ نے اخبار البلوچ کے نام سے شائع کیا، جن میں بلوچوں کی سیاسی ،سماجی اور تعلیمی مسائل پر زور دیا جاتا تھا کیونکہ بلوچوں کو اس وقت سے آجتک پسماندہ کیا جارہا ہے، چاہے کراچی میں ہو یا کہ ایران میں ۔۔۔صنعتی شہر اور پاکستان کا سب سے گنجان آباد شہرکراچی میں آج بھی بلوچ ہزاروں مسائل سےدو چار ہیں۔
لیاری کی اگر بات کی جاۓ تو لیاری میں تعلیم سیاست کاروبار سے نوجوانوں کو دور کرکے منشیاست گینگ وار کا شکار بنا کر انکی تخلیقی خیالات کو دبایا گیا جو کہ آج پوری بلوچستان میں ایک عام سی بات اور نمائش بن چکی ہے ۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔