مفاد – بختیار رحیم بلوچ

700

مفاد

بختیار رحیم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اس دنیا میں ہر انسان ایک نہ ایک مفاد رکھتا ہے، وہ ذاتی، گروہی یا قومی مفاد میں سےایک ہوتا ہے۔ ان میں سے ہر ایک مفاد میں سوچنے والے شخص کا کردا، کام، جذبات الگ الگ ہوتے ہیں۔

ذاتی مفاد کے بارے میں کہتے ہیں دنیا کی انسانی آبادی کی اکثریت ایسی زہن کے مالک ہیں جو ذاتی مفاد رکھتے ہیں اور اپنی ہاتھ، جیب اور اپنے پیٹ تک محدود ہوتے ہیں۔

ایسا فرد صرف اپنے لیے جیتا ہے۔ کوئی بھی کام کرے کچھ کمائے اس سے اپنی ذاتی پیٹ کا بھوک بجھا کر سوتا ہے۔ ایسے شخص کو کسی سے کوئی واستہ ہی نہیں ہوتا ھے۔ ایسے ذہن کے لوگ اپنی زندگی کے دن پورے کرکے جب موت کے آغوش میں چلے جاتے ہیں ۔ گھر میں کچھ دن ماتم ہوگا کچھ دن بعد ماتمی رسم ختم کرکے ہر ایک اپنے اپنے گھر چلے جاتے ہیں ۔ ایسا سمجھ لو اسکے بچے باپ کے سائے سے محروم اور یتیم ہونگے، اسکی بیوی بیوہ ہو جائے گی۔ کچھ دن اسکے معاشرے کے ارد گرد کے لوگ اسکے اچانک موت کا افسوس تو کرینگے لیکن کچھ عرصے بعد اسے کوئی یاد نہیں کرتا، کون مرا ایسا سمجھو کچھ مہینے کے بعد معاشرے میں اسکا نام ہی نہیں ہوگا۔

دوسرا گروہی مفاد کے ذہنی شخصیت کے مالک ہوتے ہیں۔ کچھ ہم خیال لوگ اپنے ایک گروہ منصوبہ مشورہ کرکے تشکیل دیتے ہیں، اپنا پیٹ اپنی جیب کے لیے ایک ایسا طریقہ اپناتے ہیں جس سے چاہے دوسروں کی نقصان، پریشانی یا موت کا سامنا کیوں نہ ہو، جو بھی ہو جائے، انہیں اپنے گروہ کے مفاد پورا کرنے ہیں۔ ایسے گروہ اپنے مفاد پورے کرنے کے لئے مختلف حربے طریقے استعمال کرتے ہیں اسکا منصوبہ چاہے انتخابی نمائندہ کی صورت میں ہو جو الیکشن کے وقت عوام کو انکے مسئلے حل کرنے کی دعویٰ کرکے کامیابی کے بعد فرار ہوتے ہیں یا اغواء برائے تاوان چوری چکاری لوٹ کھسوٹ دکانوں سے بغیر پیسہ سامان اٹھانے کا عمل ہو، یہ عمل سے سرگرم تلاش گروہی مفاد کے زمرے میں آتے ہیں۔ انہیں اپنے گروہ کے علاوہ کسی ایک انسان سے واسطہ نہیں، ایسے لوگوں کے ذہن بس اپنے گھر، جیب، بیوی اور بچے تک محدود ہوتے ہیں۔ ایسے گروہ سے ایک فرد مر جائے گروہ کے دوسرے افراد کے شخص ایک اور ہم خیال شخص لاکر اپنے کمی کو پورا کرتے ہیں۔ اپنا وہی کام جاری رکھتے ہیں۔

تیسرا قومی مفاد کےچاہنے والے ذہن کے لوگ ہوتے ہیں، ایسے لوگوں کی ہر سوچ محنت، کوشش، جذبات جان و مال، خوف دعا دل سے نکلنی والے ہر سسکتی ہوئی آہ ہر جہد قومی مفاد کیلئے ہوتا ہے، اس طرح ذہن کے مالک شخص انسانیت کے سمجھنے والے ہوتے ہیں، ایسے لوگ اپنے روٹی کا نوالہ کاٹ کر کھانے کے وقت منہ میں داخل ہونے سے پہلے قوم کی پریشانی ذہن پر سوار ہوجاتی ہے، ایسی زہنیت کے مالک انسان دنیا میں مرنے کے بعد بھی زندہ ہوتا ھے، مرکر بھی قوم کے ہر فرد کے دل کے شریانوں میں زندہ ہوکر ہمیشہ زندہ رہتا ھے ۔ جسمانی طور پر جدا ہو جائے قوم اپنے آپ کو یتیم سمجھتے ہیں۔ ایسی ذہنیت کے فرد اپنے زندگی جان مال عزت آبرو قوم کی بقا کی خاطر وقف کرنے تک نہیں جھجکتے ہیں۔

 


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔