استحصال اور یومِ استحصال
طارق عزیز
دی بلوچستان پوسٹ
میں شرمندہ ہوا، جب ہمارے وزیر خارجہ صاحب نے اپنے لبوں سے استحصال کی بات کی پھر سوچنے لگا کہ یہ ٹھیک ہے کیا فرق پڑتا ہے جو خود استحصال کا شکار ہو اور زمانے کے استحصال کی بات کرے۔ موجودہ حکمران ،کروڑوں لوگوں کے استحصالی کے ضامن اب ایک بیانیہ کے پیچھے اپنے کئے دھرے چھپارہی ہے اور عوام کو جذباتی نعروں میں ورغلا کر اصل میں اُنکی سیاسی و شعوری استحصال کرنے لگے ہیں۔ میں دنیا کے تمام مظلوم اقوام پہ ہونے والے بربریت کا مذمت کار ہوں، اور دُعا گو ہوں کہ ایسی قومیں جو استحصالی کا شکار ہیں جلد ظلم و ستم سے نکل جائیں اور اپنا حق خود ارادیت رکھیں۔ البتہ ایک نظر ان اقوام پر جو اپنا حق خود ارادیت تو رکھتے ہیں مگر پھر بھی استحصال کے مرحلے سے گزر رہے ہیں، جن میں ہم پیش پیش ہیں۔
پورے ملک میں یومِ استحصال کی ریلیاں نکل رہی ہیں۔ کوئی یہاں کے اپنے مزدوروں کی استحصالی کی بھی بات تو کرے کہ وہ اس وبائی صورتحال میں سب سے زیادہ متاثرہ طبقہ ہے، دو تین مہینوں سے مزدوری نہیں ملی اب اتنے قرضے لئے ہیں کہ اگلے دو تین مہینوں کی مزدوری بھی ان قرضوں میں چکانی ہوگی۔ اور جب لاک ڈاؤن ختم ہوگا تو اسکولوں، کالجز، یونیورسٹیاں کھلیں گی اور وہاں بھی مزدور کے بچوں کی ہی استحصال ہوگی۔ سرمایہ دار طبقے نے تو اپنے اکاؤنٹس بھرے ہیں جو انھیں برسوں چلاسکتے ہیں اور انکے بچوں کی لاکھوں کی فیس بھی ادا ہوسکتی ہے، چلیں یہ استحصال بھی قابل برداشت ہے۔۔ اس وبائی صورتحال میں جہاں دنیا اپنے لوگوں کے خدمت کرنے میں مصروف ہے اور ایک یہاں کہ اپنے بولنے اور لکھنے والوں پہ ظلم کے پہاڑ گرائے جارہے ہیں، صحافی محفوظ نہیں ہیں، شعبئہ صحافت کی استحصال کی کہانیاں عام ہوچکی ہیں۔ پچھلے دنوں ایک صحافی انور جان کا ضلع بارکھان میں قتل ہوا، قاتل موقعے سے فرار ہوئے دو ہفتے گزرنے کے باوجود ملزمان کی تلاش نہ ہوسکی۔۔ ظاہر ہے ملزمان طاقتور ہونگے یا پھر استحصال کرنے والوں کی خاندان سے ہونگے جو کبھی نظر آتے ہیں اور نہ پکڑے جاتے ہیں۔
استحصالی کا حربہ صحافیوں تک ختم نہیں ہوتا یہاں ہر فرد اس ازیت کا شکار ہے اقلیت بھی ظلم کے شکنجے میں، عبادت کرنا محال ہوگیا ہے، عبادت گاہ بنانا جرم بن گیا ہے۔ اس نقشے کے اوپر بسنے والے تمام اقوام جو سینکڑوں و ہزاروں سالوں سے چل کر آرہے ہیں، جو اپنا سیاسی، سماجی، معاشی، و ثقافتی پہچان رکھتے ہیں آج اس نقشے کے اندر انکو اپنی پہچان کا خطرہ لاحق ہے۔ صوبائی خودمختاری کے باجود اختیار اوپر سے ملنے لگے ہیں، عدلیہ انصاف دلانے میں دیری کرتی ہے تب تک مذکورہ کی موت واقع ہوچکی ہوتی ہے۔
سیاسی کارکنان کو حق کے لئے بولنے پر جان کی بازی دینی پڑ رہی ہے، جیلیں سیاسی کارکنان سے بھرے پڑے ہیں۔ کچھ نہیں بہت کچھ تو غائب ہیں۔ اب اس استحصال کے لئے کہاں مظاہرے کی جائیں؟ سیاہ دن کے لئے کونسا تاریخ مقرر کی جائے جبکہ یہاں ہر گھر میں ہر دن سیاہ گزرتی ہے، ہر عید اپنے پیاروں کی آمد کو تکتے سوگ میں گذر جاتی ہے۔ کس شاہراہ کو مزدور کے پسینوں کے نام کریں؟
اقوام عالم کے سامنے اپنے استحصال کردہ لوگوں کے دکھڑے کب سنائیں گے؟ انکے غائب بچوں کی بھی تصویر دکھائیں گے؟ کوئی ایسا طبقہ ہی نہیں رہا جو یہاں استحصال کا شکار نہ ہو سوائے طاقت کے۔ اور طاقت باہر استعمال ہونے کے بجائے اندر استعمال ہوتی رہی۔۔ کاش ہم یوم استحصال کے دن بھی استحصالی کا شکار نہ ہوتے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔