قبائلی نظام، درد کی دوا یا دردِ لادوا – شہیک بلوچ

291

قبائلی نظام، درد کی دوا یا دردِ لادوا

تحریر: شہیک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

قبائلی نظام کے حوالے سے جو دو رائے سامنے آرہی ہیں، اس میں ایک رائے اس کے مکمل خاتمے کا تقاضا کرتے ہوئے اسے قومی تشکیل کی راہ میں رکاوٹ قرار دے رہی ہے جبکہ دوسری جانب وہ دوست ہیں جو اس کا دفاع کرتے ہوئے اس سے توجہ ہٹانے کے لیے دیگر باتوں میں الجھ جاتے ہیں۔

ہم قبائلی نظام کے کیوں خلاف ہیں، اس حوالے سے گذشتہ کئی تحریروں میں اس کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ اس تحریر میں بھی اس موقف کی وضاحت کی جائیگی کہ کس طرح قبائلی نظام نوآبادیاتی نظام کا ایک مضبوط شاخ بن چکا ہے۔

سب سے پہلے ہمیں اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ انسانی تاریخ کے مختلف ادوار میں کوئی بھی نظام مستقل نہیں ہوتا بلکہ انسانی تاریخ کا تعین کشمکش کی صورت میں ہوتا ہے۔ جدید کی کہنہ کیساتھ کشمکش آج کی نہیں بلکہ یہ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کی انسانی تاریخ۔

جو کبھی جدید تھا وقت کیساتھ کہنہ ہوگیا۔ جدلی تضاد کے پہلو سے دیکھا جائے تو ایک مقام پر آکر جدید کہنہ کا شکار ہوجاتا ہے۔ یونہی انسانی تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف نظاموں کیساتھ ہوتا آیا ہے۔ کبھی قبائلی نظام بھی جدید ہوگا لیکن یہ ہمیشہ جدید نہیں رہ سکتا کیونکہ یہ انسانی تاریخ کے فطرت کے برخلاف ہوگا۔

انسانی تاریخ میں اگر کچھ مستقل ہے تو وہ تغیر ہے اور وہی قومیں کامیاب ہوتی ہیں جو تغیر کو تسلیم کرتی ہیں۔

Sapiensمیں یول نواہ ہراری اس حوالے سے نہایت خوبصورت وضاحت کرتا ہے کہ کرہ ارض پر ہماری نوع کے علاوہ اور بھی انسانی اسپیشیز تھے، نیان ڈرتلز جو دیوقامت تھے اور جسمانی حوالے سے بھی مضبوط تھے لیکن وہ بقاء کی جنگ ہار گئے لیکن ہماری نوع جو جسمانی طور پر بھلے کمزور تھی لیکن شعوری طور پر مضبوط تھی جس نے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے ترکیبیں ڈھونڈ نکالی اور بقاء کی جنگ میں دیگر انواع سے کامیاب ہوئی۔ تبدیلی کو جب آپ قبول نہیں کرتے تب آپ آگے نہیں بڑھ سکتے، قبائلی نظام کو لےکر اسی بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ ہمیں ذہنی طور پر جدت سے دور رکھ رہا ہے۔

بلوچ سماج نیم قبائلی و نیم جاگیردارانہ اثرات کو اپنائے ہوئے نوآبادیاتی نظام کی چکی میں پس رہا ہے۔ انگریز سامراج نے قبائلی ساخت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سرداروں کو اپنا کاسہ لیس بنالیا۔ خان محراب خان کا ساتھ دینے کی بجائے سردار انگریز سامراج کیساتھ کھڑے ہوئے کیونکہ مادر وطن کی آزادی سے بڑھ کر انہیں اپنے ٹائٹل و اسٹیٹس کو برقرار رکھنا زیادہ عزیز تھا یوں سردار نے انگریز سامراج کے توسیع پسند عزائم کی تکمیل میں ساتھ دیا اور انگریز نے سرداری کے ادارے کو مزید مضبوط بناتے ہوئے موروثی صورت عطا کی۔

اپنے مفادات کے مطابق تبدیلیاں کی گئی۔ قبیلے کو سردار کے ذریعے قابو میں رکھا گیا۔ بلوچ گلزمین کو عملاً تین حصوں میں تقسیم کیا گیا لیکن قبائلی نظام اسے روکنے میں ناکام رہا۔

میر یوسف عزیز مگسی نے جب نیشنلزم کی بنیاد پر جدوجہد کی، تو سردار اس کے خلاف ہوگئے، انگریز سرکار کو شکایت کی کہ یہ تو نوجوانوں کو ورغلا رہا ہے غرض ہر طرح سے نیشنلزم کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔

پاکستان کے قیام کے بعد جبری الحاق کے خلاف بھی اسے تسلیم کرنے اور غلامی کو دوام دینے میں قبائلی نظام نے اہم کردار ادا کیا اور آج تک کردار ادا کرتا آرہا ہے۔

بلوچستان کے علاقوں میں لوگوں کا معیار زندگی قابل افسوس حد تک پستگی کا شکار ہے جبکہ انہی علاقوں سے مسلسل اقتدار حاصل کرنے اور دولت جمع کرنے والے سرداروں کی شاہی زندگی کی شان و شوکت میں کوئی کمی نہیں آئی۔

قبائلی جنگوں میں ایک نسل کو اجاڑا گیا۔ بلوچ قومی تحریک کا راستہ روکنے کے لیے ریاست کے لیے ہر جائز و ناجائز کام کیا گیا اور ابھی بھی کیا جارہا ہے۔ قبائلی زیر اثر علاقوں میں بلوچ قومی تحریک کو زیادہ نقصان پہنچا ہے اور اکثر سماجی جرائم میں مبتلا شخصیات قبائلی ہی ہیں۔

قبائلی نظام نا ہی خود آگے بڑھ سکتا ہے اور نا ہی یہ بلوچ جدوجہد آزادی کو آگے بڑھا سکتا ہے بلکہ بلوچ جدوجہد کے لیے اندرونی و بیرونی نقصان کا تعین کیا جائے تو اس کی جڑیں قبائلی نظام میں پیوست ملیں گی۔

وہ قبائلی سردار جو ریاست کے ہمراہ کار بن گئے، انہوں نے جہدکاروں کی نشاندہی اور ریاست کی “کل اینڈ ڈمپ” پالیسی میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا اور قومی تحریک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ دوسری جانب تحریک میں شامل قبائلی شخصیات بھی اسی ڈگر پر چل پڑے جہاں تحریک اتحاد و یکجہتی کے بجائے مزید تقسیم در تقسیم و انتشار کی جانب بڑھتا گیا۔ قبائلی مزاج و انا کی جتنی بھی وضاحتیں کی گئی لیکن سب کھوکھلی ثابت ہوتے ہوئے آخر کار نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اندرونی خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہوگئی۔ کسی بھی مرحلہ میں سیاسی بلوغت کا مظاہرہ نہیں کیا گیا اور حتیٰ کہ بابا مری جیسے نظریاتی کردار کے سنجیدہ تجاویز پر عمل کرنے کی بجائے ان کی کردار کشی کی گئی، بعد میں یہ سلسلہ مزید بحرانی صورت اختیار کرتے ہوئے قبائلی شخصیات کی مکمل تنہائی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ اگر قبائلی نظام کے فرسودگی کارآمد ہوتی تو یہ صورتحال پیدا نہ ہوتا۔ نا ہی قومیں تنظیمیں قبائلی ضد کی بنیاد پر ٹوٹتی۔۔ بلوچ جہدکاروں کے کردار کو یوں فراموش کرکے ان پر یوں الزام نہ لگاتے۔۔۔

اس تمام صورتحال سے یہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ اس تمام تر بحران کی وجہ قبائلی رویے تھے۔ تحریک جو بڑھتی اور پھیلتی جارہی تھی، جس کے لیے سیاسی دانشمندانہ رویوں کی ضرورت تھی جبکہ قبائلی رویوں کیساتھ معاملات کو حل کرنے کی کوشش بری طرح ناکام ثابت ہوئی۔

اب بلوچ جدوجہد آگے بڑھ رہی ہے کیونکہ قومی تنظیمیں قبائلی رجحانات سے بالاتر ہوکر متحد ہوچکی ہیں۔ ایسے میں وہ لوگ جو اپنے قبائلی روش کی بنیاد پر تنہائی کا شکار ہوچکے ہیں، ان کو چاہیے کہ وہ اس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے اپنی غلطیوں کو تسلیم کریں اور تبھی وہ اصلاح کرسکتے ہیں اور تحریک میں ایک مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں۔

قبائلی نظام ایک زہر قاتل ہے، باشعور بلوچ اس کو ہرسطح پر مکمل مسترد کرتے ہوئے نیشنلزم کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کریں۔

بلوچ قوم کا مستقبل نیشنلزم میں ہے اور اب بلوچ قوم کو من حیث القوم سوچنا اور عمل کرنا ہوگا یہ تب ہی ممکن ہے جب وہ قبائلی فرسودہ نظام سے بالاتر ہونگے ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔