سورج کا شہر (سفر نامہ) | قسط 10 – ڈاکٹر شاہ محمد مری

178

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
بلوچ ساحل و سمندر (حصہ سوئم)

کشتیوں کی اقسام
بوجیگ
یہ تقریباً سو فٹ لمبا، 50 فٹ چوڑا اور 12 فٹ گہرا ہوتا تھا۔ بوجیگ سمندری تجارت کا تاریخی وسیلہ رہا ہے۔ بوجیگ بلوچ ساحلوں سے انڈیا، عرب ممالک اور افریقی ساحلوں کے درمیان درآمد و برآمد کا بہت ہی اہم ذریعہ رہا ہے۔ یہ 100 ٹن تک وزن لے جانے کے قابل تھا یعنی 100 کلو گرام والی 1500 سے 2000 بوری گندم۔ خالص لکڑی کی بنی ہوئی اس پہلوان کشتی میں انجن نہیں ہوتا تھا۔

یہ بوجیگ بہت طویل سفر طے کیا کرتے تھے جو تین سے چھ ماہ تک کے عرصے کے ہوتے تھے۔ اور کبھی کبھی تو اپنے گھر لوٹے بغیر ایک بندرگاہ سے دوسری بندرگاہ تک مال لانے لے جانے میں پورا سال لگا لیتے تھے۔

ساحلِ بلوچ، تاریخی طور پر تجارت کی شاہراہ رہا ہے۔ ماضی بعید میں بھی یہاں سے بڑے پیمانے پر درآمد برآمد ہوتی تھی۔ خشکی کی طرف بھی اور سمندر میں بھی۔ ساحل سے بلوچستان کے اندرونی علاقوں (نیز دیگر پڑوسی علاقوں) میں بارٹر والی تجارت ہوا کرتی تھی، یعنی مال کے بدلے مال کی تجارت۔ جس میں ساحل انہیں مچھلی (خصوصاً مربہ اور کول گیر) مہیا کرتا تھا۔ اور خشکی والے بلوچ علاقوں سے خشک کھجور(لد، اُش کیچ اور ہارگ) اور تازہ کھجور (موزاتی، سورمچ اور آمبی) آتا تھا۔ کھجور اور آٹے سے بنی ہوئی مٹھائی (پنڈی) آتی تھی۔ گندم اور اصلی گھی آتے تھے۔

بوجیگ ہندوستان کے مالا بار، بمبے، کوچن، کالی کٹ، پور بندر، صورت اور جام نگر تک نمک لگی مچھلی (خصوصاً پلاّ، سولی، کیر، گور) پہنچاتا تھا اور وہاں سے درآمد کے بطور کھوپرا، بیڑی کے پتے، ریڈی میڈ گارمنٹس، کھوپرے کا تیل، گندم، گھی، چاول، اور مٹی کا بنا ہوا توا (دانگی) لائے جاتے تھے۔

بوجیگ زنجیبار (تنزانیہ) تک بلوچستان کی چٹائی، رسے رسیاں، کھجوریں، اور دیگر اشیا لے جاتے تھے۔ جب کہ وہاں سے ہر قسم کا بانس اور کشتیاں بنانے والی عمارتی لکڑی ڈھو کر لاتے تھے۔

عراق میں بصرہ کو بلوچستان سے چٹائیاں، رسے رسیاں اور خوردنی اشیا برآمد ہوتی تھیں اور بوجیگ کے ذریعے وہاں سے زاہدی اور کوسار نامی تازہ کھجوریں درآمد ہوتی تھیں۔

سب سے بڑی تجارت سری لنکا (سیلون) سے ہوتی تھی۔ بوجیگ کے ذریعے یہاں سے تو اچھی اور خیر والی چیزیں (نمک لگی مچھلی) جاتی تھیں۔ مگر اُدھر سے بہت فضول چیزیں آتی تھیں جو اب تو بلوچ کی قومی دشمن بن چکی ہیں۔ سپاری اور پان کا پتا وہیں سے ہمارے گلے پڑ گئے ہیں۔ تاملوں اور سنہالیوں کی موجودہ لڑائی میں جو فریق بھی پان سپاری پر پابندی لگانے کا اعلان کرے گا، ہماری مدد اُسی کے ساتھ ہوگی۔ (لیکن ہماری تو اللہ سے دعا ہے کہ انسانوں کے درمیان جنگ و نفرت ختم ہو اور سب کو عقلِ سلیم اور دلیل و استد لال سے باہمی مذاکرات سے مسائل کو حل کرنے کی توفیق ہو کہ، ”لعنت بہ جنگا“۔ مگر ہم کیا کر سکتے ہیں؛ جنگوں میں ہی بہت سے لوگوں کا سیث (فائدہ) ہوتا ہے۔ ان کی دال روٹی، اور چاہ و چلم چلتا ہے۔ چھوٹے پیمانے پر بھی اور بڑے پیمانے پہ بھی۔ اس لیے اگر امن کمیٹیاں مختلف ذرائع سے امن کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہیں تو جنگ باز بھی بہت سے اصلی یا مصنوعی حالات پیدا کر کے جنگیں کرواتے رہتے ہیں)۔

یکدار
یہ پانچ سے لے کر گیارہ میٹر طویل ہوتا ہے۔ یہ کشتی جہاز کے پیندے کی بیچ کی ایک لمبی لکڑی سے بنتی ہے۔ یکدار اب کم ہوتے جا رہے ہیں۔ ہولیگ (چپو) والے یکدار تو بالکل ختم ہوچکے ہیں۔ دوسرے یکدار پر بھی اب موٹر (انجن) فٹ کیے جا رہے ہیں۔ یہاں زیادہ تر یاماہا موٹریں کشتیوں پر لگائی جاتی ہیں۔

رنچن
یہ لمبائی میں یکدار جتنی ہوتی ہے۔ فرق صرف لکڑی کا ہوتا ہے۔ یہ چھوٹی لمبائی والی لکڑی کے تختوں سے بنتی ہے جنہیں لوہے کی میخوں سے جوڑا جاتا ہے۔

Gill-knetter
میڈیم سائز کی کشتی ہوتی ہے جس کے پیندے کی لکڑی کی لمبائی نو سے چودہ میٹر تک ہوتی ہے۔

لانچ
اس کے پیندے کی لکڑی چودہ سے بیس میٹر لمبی ہوتی ہے۔Gill-Knetter اور لانچ میں بڑی انجنیں لگائی جاتی ہیں۔

بُچ
پلاسٹک پیکنگ والے ڈبوں کو جوڑ کر کشتی نما چیز بنا لیتے ہیں۔ جس پر سوار ہوکر ماہی گیر اپنی کشتی سے خشکی تک آ جاسکتے ہیں۔ کشتی تو ساحل سے پندرہ بیس گز اندر سمندر میں لنگر انداز ہوتی ہے۔

ترشت، یا، کائیک
یہ تیز رفتار موٹرائزڈ کشتی ہوتی ہے جو کہ فائبر گلاس سے بنتی ہے۔ یہ ماہی گیری میں کام نہیں آتی۔ سپورٹس کار کی طرح شوقیہ اورمستی میں امیر لوگ یا ادارے استعمال کرتے ہیں۔ سمندری سپورٹس کار۔

ایک پیرا گراف شپ بریکنگ کے بارے میں:
بلوچ ساحل پہ اور کوئی صنعت موجود نہیں۔ ایک دانہ شپ بریکنگ ہوا کرتی تھی گڈانی میں، جس کا رقبہ 1400 ہیکٹر تھا۔ اپنے جو بن کے وقت (1982-86) اس صنعت میں 35 ہزار آدمی کام کرتے تھے اور دیگر پانچ لاکھ کی آبادی بالواسطہ طور پر اس شپ بریکنگ انڈسٹری پہ انحصار کرتی تھی۔ اس سے 612 ملین روپے کسٹم ڈیوٹی کے ملتے تھے، 35 ملین روپے انکم ٹیکس کے اور 22 ملین امپورٹ لائسنس فیس کے بطور حاصل ہوتے ہیں۔ مزید برآں یہ صنعت بلوچستان ڈولپمنٹ اتھارٹی اور لوکل ڈسٹرکٹ کونسل کو 20 ملین روپیہ دیتی تھی۔ مگر پھر یہ انڈسٹری بھی غیر بلوچستانیوں کو خوب موٹا بناکر گلا گھٹنے کی موت سے مرگئی۔ بدبختو! سونے کے انڈے دینے والی صنعت کو اکھاڑ پچھاڑ کر تم کیا چین سے بیٹھ سکو گے۔ ایک ہنستا بستا شہر اجاڑ کر اس پورے علاقے کو ”سرکن وپر کن وہُپ کن و ہچ“…… میں بدل دیا گیا۔

کشتی سازی کی صنعت کے بارے میں عرض ہے کہ:
یہاں کے دست کار اپنے کام میں بہت ماہر ہوتے ہیں۔ انہیں مقامی لوگوں کے علاوہ ایران سے بھی کشتی بنانے کے آرڈر ملتے ہیں۔ یہ لوگ ہر طرح کی چھوٹی بڑی کشتی اور لانچ بنا سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ 35 میٹر تک کی لمبائی والی دیو ہیکل کشتی تک بھی۔ چوں کہ یہاں بجلی نہیں تھی، اس لیے سارا کام ہاتھ سے ہوتا تھا۔ جس میں محنت اور وقت دونوں بہت زیادہ لگتے تھے۔
پندرہ میٹر لمبائی کی لانچ تقریباً آٹھ ماہ میں بنتی ہے۔ بڑا استاد روزانہ چار سو روپے لیتا ہے۔ باقی دست کار ڈھائی تین سو روپے لیتے ہیں۔ لانچ پر کل لاگت تقریباً 25 سے 35 لاکھ روپے آتی ہے۔ صرف لکڑی پر دس لاکھ روپے لگتے ہیں۔ پانچ سلنڈر کا انجن آٹھ لاکھ کا پڑتا ہے۔ ایسی بڑی کشتی بنانے کے لیے با وقار اور قیمتی لکڑی ساگوان ہوتی ہے، جسے بلوچی میں (ساگ) کہتے ہیں۔ اسی طرح Biauنامی لکڑی بھی درآمد ہوتی ہے۔ یہ قیمتی لکڑی کالی کٹ، برما اور انڈونیشیا سے منگوائی جاتی ہے۔ ساگوان کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ بہت پائیدار ہوتی ہے اور ایک بار تیار ہو جائے تو بہت عرصہ تک نہ یہ ٹیڑھی ہوتی ہے، نہ اس میں دراڑیں پڑتی ہیں اور نہ یہ گل سڑ جاتی ہے۔ بہت نرم لکڑی ہے اس لیے اسے تراشنے میں بہت مشقت نہیں کرنی پڑتی۔ بہت لچک دار اور طاقت ور لکڑی ہوتی ہے۔ (آرا مشین لگنے کے بعد اب کشتی سازی میں یہاں کی لکڑی بھی استعمال ہوتی ہے)۔

ایسی بڑی کشتی بنانے کے لیے ایک بڑے استاد (دستک کار) کی ضرورت پڑتی ہے۔ آٹھ سے دس دوسرے دست کار اور پانچ سے سات شاگردوں کی ضرورت ہوتی ہے، یعنی ایک کشتی بنانے کے لیے ایک پورا لشکر چاہیے ہوتا ہے۔ اور یہاں اس اوپن ائیر فیکٹری میں تو بہ یک وقت دس پندرہ لانچوں پر کام ہو رہا ہوتا ہے۔ لہٰذا ایک میلہ لگا رہتا ہے۔ صرف پسنی میں 70 سے 80 ”استاد“ کشتی سازی میں مصروف ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پسنی میں ہر سال 50 فٹ لمبائی کی بارہ لانچیں اور 30-20 فٹ لمبائی کی اسّی لانچیں بنتی ہیں۔

لکڑی کے کام کے بعد اس کی بیرونی سطح پر Cod Liverآئل (کاڈ مچھلی کا تیل) لگائی جاتی ہے تا کہ یہ واٹر پروف بن جائے۔ پہلے یہ لوگ شارک مچھلی کے جگر سے نکالے گئے تیل کو کشتی پر لگاتے تھے۔

ایک تعمیر شدہ کشتی کی اوسط عمر بیس برس ہوتی ہے۔
ان کی اندرونی آرائش بلوچ ذوق کی مکمل نمائندہ ہوتی ہے۔ یہاں مغربی بلوچستان کے آخری سرے پر اگر کشتیوں کی رنگین گل کاری اور آرائش قابلِ دید ہوتی ہے تو بلوچستان کا مشرقی سرا یعنی ڈیرہ غازی خان ٹرکوں کی آرائش کا مشہور اڈہ ہے…………بلوچ، ایک آرٹسٹ قوم ہے۔

فشریز ڈیپارٹمنٹ میں اس وقت کل 7938 ماہی گیری کی کشتیاں رجسٹرڈ ہیں۔ یہاں چار مختلف قسم کی کشتیاں رجسٹر ہوتی ہیں: یکدار چھوٹی کشتی ہوتی ہے، جس کی لمبائی 5 سے 11 میٹر تک ہوتی ہے۔ رنچن(Ranchan) بھی یکدار جتنے سائز کی ہوتی ہے۔Gill-Knitters درمیانہ سائز کی کشتیاں ہوتی ہیں اُن کے تلے (Keel) کی لمبائی نو سے چودہ میٹر ہوتی ہے۔ لانچ12سے 20 میٹر تلے لمبائی کی کشتیاں ہوتی ہیں۔ آج کل یکدار اور رنچن کم ہوتی جارہی ہیں او ر ماہی گیری بڑی کشتیوں اور لانچوں سے ہوتی ہے جن میں انجن لگا ہوتا ہے اور جنہیں ”مشینی کشتیاں“ کہا جاتا ہے۔ inboardانجن لگی ہوئی کشتیوں کی تعداد اٹھارہ سو اکتیس ہے، جب کہ outboard انجنوں کی تعداد پانچ ہزار ایک سو چوالیس ہے۔ محض چند ہی کشتیوں پر قطب نما اور وائر لیس ٹرانسمیشن سسٹم لگا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے ہر سال کئی کشتیاں کھلے سمندر میں گم ہوجاتی ہیں۔

بڑی لانچ بنانے کا خرچہ تیس لاکھ روپے کے قریب ہے۔ کشتی بنانے کی لکڑی برما اور انڈونیشیا سے درآمد کی جاتی ہے۔ لکڑی کے کام کے بعد کشتی کو واٹر پروف بنانے کے لیے کاڈ لور آئل پینٹ کیا جاتا ہے۔ ایک کشتی کی زندگی تقریباً بیس برس ہوتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔