طالبان و امریکہ کے درمیان مذاکرات ناکامی سے دوچار ہونگے – ایران

256

ایران نے طالبان اور امریکا کے درمیان امن مذاکرات کی مخالفت کردی ہے اور اس کے اعلیٰ سکیورٹی عہدہ دار کا کہنا ہے کہ اس بات چیت میں افغان عوام اور حکومت شامل نہیں ،اسی لیے ایران اس کی مخالفت کررہاہے۔

ایران کی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکریٹری رئیر ایڈمرل علی شمخانی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ افغان عوام کی شرکت کے بغیر کوئی بھی حکمت عملی ، کوئی بھی فیصلہ یا منصوبہ غلط ہے اور یہ ناکامی سے دوچار ہوگا۔

طالبان، افغان عوام کی حقیقت ہیں،اس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لیکن کیا تمام افغان، طالبان ہیں؟ نہیں۔ ان کا کہنا تھا۔

علی شمخانی تہران میں افغانستان ، چین ،بھارت ، تاجکستان ،ازبکستان اور روس کے قومی سلامتی کے اعلیٰ عہدے داروں کے اجلاس کے بعد نیوز کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔

انھوں نے امریکا پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ افغانستان میں صورت حال کا فائدہ اٹھا کر چین ، روس اور ایران کے سرحدی علاقوں میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ علاقائی سلامتی پر مکالمہ امریکا کی اسلامی جمہوریہ ایران کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی ناکامی کا ایک اور ثبوت ہے۔

علی شمخانی نے واضح کیا کہ ایران نے امریکا کی قیادت میں امن مذاکرات میں حصہ نہیں لیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے ماضی میں ایک مرتبہ افغانستان کے معاملے پر واشنگٹن کے ساتھ تعاون کیا تھا۔اس کے بدلے میں اس کا نام برائی کے محور میں شامل کر لیا گیا تھا۔

یادرہے کہ یہ اصطلاح پہلی مرتبہ سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے 2002ء میں استعمال کی تھی اور انھوں نے شمالی کوریا، ایران اور عراق کو برائی کے محور قرار دیا تھا اور انھیں دہشت گردی کو اسپانسر کرنے والا ملک قراردیا تھا۔

واضح رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان ستمبر میں امن سمجھوتا طے پانے والا تھا اور اس پر کیمپ ڈیوڈ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی موجودگی میں دست خط ہونا تھے لیکن انھوں اس سے چندے قبل طالبان کے نمایندوں سے اپنی طے شدہ ملاقات کی منسوخ کردی تھی۔انھوں نے یہ فیصلہ افغان دارالحکومت کابل میں بم دھماکے میں ایک امریکی فوجی کی ہلاکت کے بعد کیا تھا۔

سات دسمبر کو امریکا اور طالبان کے درمیان کابل میں تشدد کے واقعات میں کمی کے بعد ایک مرتبہ پھر مذاکرات بحال ہوئے تھے لیکن افغان دارالحکومت کے شمال میں واقع بگرام ائیربیس پر طالبان کے حملے کے بعد یہ مذاکرات میں پھر تعطل کا شکار ہوگئے تھے۔

ستمبر میں طے پانے والے سمجھوتے کے مسودے کے مطابق طالبان نے بعض سکیورٹی اقدامات ، افغان حکومت سے مذاکرات اور تشدد میں کمی سے اتفاق کیا تھا۔اس کے بدلے میں ان سے افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کا وعدہ کیا گیا تھا۔امریکا نے اگلے روز ہی افغانستان میں تعینات اپنے چار ہزار فوجی واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔