جرمن چانسلر میرکل کی جماعت سی ڈی یو اور اتحادی جماعت سی ایس یو نے ملک میں انسانی بنیادوں پر پناہ دیے جانے کی سالانہ حد مقرر کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
میڈیارپورٹس کے مطابق آئندہ جرمنی میں انسانی بنیادوں پر سالانہ زیادہ سے زیادہ دو لاکھ غیر ملکیوں کو پناہ دی جائے گی۔ زیادہ سے زیادہ دو لاکھ افراد کی اس حد میں مہاجرین، پناہ کے متلاشی افراد، ثانوی سطح پر تحفظ پانے والے، مہاجرین کے اہل خانہ اور نقل مکانی کے پروگرام کے تحت جرمنی آنے والے افراد کو شمار کیا جائے گا۔
سالانہ شمار میں جرمنی سے ملک بدر کر دیے جانے والے افراد کی تعداد اس سے منفی بھی کی جائے گی۔کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے سیاست دان تھوماس کروئیزر نے اپنے ایک ریڈیو انٹرویو میں بتایا کہ ہنگامی صورت حال میں مہاجرین کی زیادہ سے زیادہ حد کا قانون لاگو نہیں ہو گا۔
اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر جرمنی کے کسی ہمسایہ ملک میں جنگ چھڑ جاتی ہے تو ایسی صورت میں سالانہ دو لاکھ مہاجرین کی حد مقرر نہیں کی جائے گی۔جرمنی میں سیاسی پناہ کے حصول کے حق کے قانون میں کوئی رد و بدل نہیں کیا گیا۔ بنیادی جرمن قانون کے آرٹیکل سولہ میں سیاسی پناہ کے حصول کے حق کو یقینی بنایا گیا ہے اور چانسلر میرکل کا کہنا تھا کہ یہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور ایسے افراد سے، جن کی جانوں کو اپنے وطن میں خطرات لاحق ہوں، یہ بنیادی حق نہیں چھینا جا سکتا۔
جرمنی میں مزید ایسے مراکز کا قیام عمل میں لایا جائے گا جہاں پناہ کی درخواستوں پر فیصلہ ہونے تک پناہ کے متلاشی افراد کو رہائش فراہم کی جائے گی۔ درخواست کی منظوری کی صورت میں انہیں جرمنی میں کہیں بھی جانے کی اجازت ہو گی۔ تاہم پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کو خصوصی حراستی مراکز منتقل کر دیا جائے گا، ایسے افراد ان حراستی مراکز سے یا تو رضاکارانہ طور پر وطن واپس جا سکیں گے، یا پھر انہیں جبری طور پر ملک بدر کر دیا جائے گا۔پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کے آبائی وطنوں اور ٹرانزٹ ممالک کے ساتھ باہمی تعاون میں اضافہ کیا جائے گا۔
ٹرانزٹ ممالک کے اشتراک کے ساتھ پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی آبائی وطنوں کی جانب واپسی یقینی بنائی جائے گی۔ اس ضمن میں مہاجرین سے متعلق یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے شدہ معاہدے کو بطور ماڈل اپنایا جائے گا۔جرمنی میں ایسے ہنرمند تارکین وطن کو، جن کے روزگار کی منڈی تک رسائی کے امکانات زیادہ ہوں، ترجیحی بنیادوں پر پناہ دی جائے گی۔
اس ضمن میں تاہم یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ تارکین وطن کے ہنرمند ہونے کو کس معیار پر پرکھا جائے گا۔ان نکات کے علاوہ ’محفوظ ممالک‘ کی فہرست میں مزید ممالک کی شمولیت، مہاجرت کی وجوہات کا خاتمہ اور یورپی سطح پر پناہ کے مشترکہ قوانین کے لیے مزید اقدامات کیے جانے پر بھی اتفاق کر لیا گیا ہے۔