ثناء بلوچ کی بیان کی باز گشت – سمیرا بلوچ

399

ثناء بلوچ کی بیان کی باز گشت

تحریر: سمیرا بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ثناء بلوچ کا شمار بلوچستان کے نامور اور قوم پرست سیاست دانوں میں ہوتا ہے۔ صوبائی اسمبلی میں ان کی تقاریر ہمیشہ بڑی جاندار اور قابلِ غور ہوتی ہیں۔ وہ اپنی تقاریر میں بلوچستان کی پسماندگی،غربت، دیگر مسائل کے ساتھ شرح ناخواندگی کو زیر بحث رکھتے ہیں۔ ثناء بلوچ اپنی بات ٹھوس دلائل کے ساتھ پیشں کرتے ہیں، جسکی وجہ سے ان کے مخالفین چاہ کر بھی ان سے اختلاف نہیں رکھ سکتے۔

ثناء بلوچ (بی این پی مینگل) جو کے ایک قوم پرست جماعت ہے،بلوچستان صوبائی اسمبلی میں اسکی نمائندگی کر رہا ہے۔ جہاں انکی ہر بات اور بلوچستان سے متعلق بیان کی ستائش کیا جاتا ہے، وہیں گذشتہ دنوں ان کے ایک بیان پر انکو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

اگر بلوچستان کے تاریخ کو دیکھا جائے تو ان پر تنقید بلاجواز بھی نہیں ہے۔ گذشتہ دنوں بلوچستان میں پاکستان کے چودہ فوجیوں کو بلوچ علیحدگی پسندوں نے ہلاک کیا تھا۔ جس پر انھوں نے سوشل میڈیا کے ویب سائٹ ٹویٹر پر پاکستانی فوجیوں کے ہلاکتوں پر افسوس کرتے ہوۓ بلوچ علیحدگی پسندوں کے اس جوابی کارروائی کو دہشتگردی قرار دے کر اسکی مذمت کی تھی۔

ثناء اللہ بلوچ کے اس بیان کی بلوچوں کے مختلف طبقہ فکر کے لوگوں نے مذمت کی۔ بلوچ حریت پسندوں کو دہشتگرد قرار دینا بلوچ قوم کی اپنی سرزمین کے لیے دی جانے والی قربانیوں کے ساتھ ناانصافی ہے۔

بلوچستان کی تاریخ کو دیکھا جائے تو سر زمین بلوچستان ہمیشہ قابضین کے قبضے میں رہا ہے۔ بلوچ قوم ایک بہادر قوم کے طور پر جانا جاتا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے۔ بلوچ قوم اپنی سر زمین پر قابض اقوام کے خلاف ہمیشہ سے ہی بر سر پیکر رہا ہے۔ اپنے سے ہمیشہ طاقتور اقوام کے خلاف اپنی سر زمین کے لیئے ہتھیار اٹھا کر اسکی تحفظ کرتا رہا ہےاور کر رہا ہے۔ پرتگالیوں کے خلاف حمل کلمتی اور اسکے ساتھیوں نے تاریخ رقم کی۔ برٹش کے خلاف یوسف عزیز مگسی نے اپنے قلم کے ذریعے اور باقی ساتھیوں نے مسلح جدوجہد کیا تھا۔ اب سامراج پاکستان اور اسکے دوست ملک چین کے ساتھ بھی بلوچ قوم اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہا ہے۔ وطن کے لیئے اپنی قمیتی جانوں کا نذرانہ دینے والوں میں بلوچ قوم کے مزدور سے لے کر اسکے سرداروں اور نوابوں نے اپنی جان قربان کی ہیں۔ سردار نوروز خان اور اسکے بیٹوں کی مادر وطن کے لیے قربانی، نواب خیر بخش مری کی آزاد بلوچستان کے فلسفے کے نقطہء نظر کے تحت ان کے بیٹے شہید بالاچ مری کی مادر وطن کے لیے قربانی بھی بلوچستان کے تاریخ کو سنہرا بناتا ہے۔ شہید نواب اکبر خان بگٹی کی عظیم شہادت پر اسکے مخالفین بھی اسکی بہادری اور شجاعت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ 80 سال کی عمر میں اپنی آرام دہ زندگی کو چھوڑ کر پہاڑوں کو اپنا مسکن بنایا اور بلوچ قوم کو اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کی تلقین کی، ان کی ایک آواز پر پورے بلوچستان سے بلوچوں نے لبیک کہا اور ان کے ہم قدم بن گئے۔ استاد اسلم بلوچ اور ان کی عظیم اہلیہ نے خوشی کے ساتھ اپنے جوان سال بیٹے ریحان کی جان کو بلوچستان کے لیے قربان کر دیا ایسی مثال تاریخ میں بہت کم ملتی ہے۔

بلوچستان کے سپوتوں کی اپنے وطن کے لیے جانوں کا نذرانہ دینے والوں کی فہرست بڑی لمبی ہے۔ اس میں صبا دشتیاری صاحب جیسے استاد سے لے کر ڈاکٹر داد شاہ جیسے ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کا لہو شامل ہے، غلام محمد اور حبیب جالب جیسے سیاسی لیڈروں نے بلوچستان کی خودمختاری اور آزادی کے نعرے بلند کرکے اپنی جانوں کےنذرانے دینے سے دریغ نہیں کیا۔ ایسے بہت سے گمنام بلوچ نوجوانوں نے اپنی جانیں دی ہیں، جنکے گواہ بلوچستان کے پہاڑ ہیں۔ انہی بلوچ شہیدوں کے راہ پر گامزن ان بلوچ سر مچاروں کو جو ظالم اور جبر پاکستان کے ساتھ اپنے قوم کے حقوق کے لیے جدو جہد کررہے ہیں، ان کو دہشتگرد کہنا ان شہیدوں کی قربانیوں کے ساتھ ناانصافی نہیں تو اور کیا ہے؟

مشہور اور نامور فلسفہ دان سقراط کا قول ہے۔ “کہ جو سچ کی پہچان رکھتا ہے، وہ صحیح راستے پر چلے گا۔ کوئی غیر مطمئن زندگی گذارنا آخر کیوں پسند کرے گا؟ اسی فلسفے کے تحت سچ کی پہچان رکھتے ہوئے بلوچ قوم شروع دن سے قابض ریاست پاکستان کے خلاف، اپنی حقوق کی جنگ لڑرہا ہے۔

پاکستان نے بلوچ قوم کے وسائل پر قبضہ کر کے بلوچوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھتے ہوئے غلام بنا کر رکھا ہے۔ اپنے دوست ملک چین کے ساتھ ملکر بلوچ قوم کے وسائل کو بےدردی سے لوٹ رہاہے۔ اپنے حق کے لیئے جنگ لڑنا ہر قوم کا بنیادی حق ہوتا ہے۔ اگر پاکستان اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو رہا ہے، اگر بلوچ قوم بلوچستان کو اب تک ظلم پاکستان کے چنگل سے آزاد نہیں کر سکا ہے تو اسکی وجہ ایسے کٹھ پتلی لوگ جہنوں نے اپنی ضمیر کو دشمن کے ہاتھوں بیچ کر اپنی مفاد پرستی میں مگن اپنے عبرتناک انجام سے بےخبر ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایسے قوم دشمن عناصر کا انجام بہت ہی برا رہا ہے۔ انکی مثال اس محارے میں ملتی ہے ” کہ دھوبی کا کتا نہ گھر کا رہتا ہے نہ گھاٹ کا۔”


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔