بلوچستان، قلم اور پہاڑ ۔ سمیرا بلوچ

959

بلوچستان، قلم اور پہاڑ

تحریر۔ سمیرا بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کہتے ہیں کہ دنیا میں دو ہی قوتیں ہیں۔ ایک تلوار اور دوسری قلم، لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ علم ، تلوار سے بھی زیادہ طاقتور ہے۔ بالکل سچ ہی تو کہا ہے کیونکہ علم شعور دیتا ہے، علم وہ طاقت اور وجود دیتا ہے، جسے آپ سے کوئی اور چرا بھی نہیں سکتا، دشمن آپکے شعور کی طاقت کو لاکھ جتن کے باوجود ختم نہیں کر پاتا ہے۔ بلوچستان ایک ایسی سرزمین ہے، جس کے جوان اور شعور یافتہ لوگوں کے مسکن پہاڑ بن جاتے ہیں، کیونکہ انکا شعور ہی انہیں پہاڑوں میں لے جاتی ہے۔ بلوچستان وہ سر زمین ہے جہاں پر دشمن ملک کا قبضہ ہے۔ اور دشمن کا بلوچ عوام پر سب سے بڑا ظلم بلوچوں کو تعلیم سے دور رکھنا ہے۔ انھیں تعلیم سے محروم رکھنے کا مقصد تو صاف عیاں ہیں۔ کیونکہ دشمن علم اور شعور کی طاقت سے بخوبی واقف ہے۔ وہ شعور سے گھبراتا ہے، اسی لیے وہ بلوچوں کو قلم کی طاقت سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔ علم شعور دیتا ہے۔ اور جب شعور آتا ہےتو انکا قلم انہیں پہاڑوں میں لے جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے بیشتر تعلیم یافتہ نوجوانوں کا مسکن بولان، چلتن، زعمران کے پہاڑ بن چکے ہیں۔

شہید نواب بالاچ مری نے روس سے اپنی تعلیم مکمل کی اور ان کا مسکن بلوچستان کے سرلٹھ کے پہاڑ بنے، شہید فدا بلوچ نے بلوچستان یونیورسٹی سے ڈبل ایم ۔ اے کیا، انکا مسکن بھی بلوچستان کے پہاڑ بنے، ڈاکٹر اللہ نذر صاحب میڈیکل میں گولڈ میڈلسٹ ہیں، ان کا بھی مسکن بلوچستان کے پہاڑ ہیں، قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم اے کی ڈگری لینے والے شہید شہداد بلوچ اور شہید احسان بلوچ کا بھی مسکن بلوچستان کے پہاڑ ہی بنے۔

کیونکہ قلم ہی کی طاقت ہے جو انسان کو حق کے لیے آواز بلند کرنا سکھاتی ہے، ظلم اور باطل کی پہچان کرواتی ہے۔ اسی قلم نے ڈاکٹر چی گویرا کو گوریلا کمانڈر بننے پر مجبور کیا، یہی قلم کی طاقت تھی جس نے نیلسن منڈیلا کو اپنے قوم کی آواز بنائی اسی قلم نے اسے اپنی زندگی کے 25 سال سلاخوں کے پیچھے گذارنے اور اپنی قوم کی تقدیر بدلنے کی طاقت دی۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ، ” قلم ، بندوق سےزیادہ طاقتور ہے۔”

بات صاف ہے کہ بندوق کو تو شکست دی جا سکتی ہے، لیکن شعور کو شکست دینا ناممکن ہے۔ اور وہ نادان جو بلوچوں کی آزادی کی تحریک کو بندوق اور دہشتگردوں کی تحریک ثابت کرنے کی جتن میں لگے ہیں۔ وہ خود بھی اندر سے مایوسی میں مبتلا ہیں، کیونکہ انہیں اچھے سے اس بات کا علم ہے کہ یہ قومی شعور رکھنے والوں کی تحریک ہے، اپنے حق اور مادر وطن کی آزادی پر مشتمل، اس سوچ و فکر کو شکست دینا مشکل نہیں ناممکن ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔