بی ایس او اور روشن خیالی – واحد رحیم

251

بی ایس او اور روشن خیالی

(تحریر: واحد رحیم (سابق چیئرمین بی ایس او

دی بلوچستان پوسٹ

اس وقت تک میرے علم میں نہیں تھا کہ ہمارے سینئر ساتھی ثنا بلوچ نے کال کرکے میری توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ حب میں لگنے والے میلے کی مخالفت سکول گراونڈ کے احاطے میں اہتمام کی وجہ سے کیا جارہا ہے، جس میں بی ایس او فریق بن کر مخالفت کرنے والوں میں پیش پیش ہے- بی ایس او کی گذشتہ پانچ دہائیوں پر محیط تاریخی مسافت میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی ہے، جس میں عوام کو انٹرٹین کرنے والے سرگرمیوں کے سامنے روڑے اٹکائے جائیں- محض اس لیئے کہ کسی تعلیمی ادارے کے بند احاطے میں منعقد ہونے جارہی ہے- اول تو بی ایس او ایک ترقی پسند، سیکولر جمہوری تنظیم ہونے کے ناطے پسماندہ سماجی بندھنوں، قبائلی و کٹر فرقہ پرستی اور فرسودہ روایات کے بھینٹ چڑھنے کا متحمل ہو نہیں سکتا- دوئم پورے بلوچستان خاص طور پر حب میں جہاں نسبتآ شہری زندگی آزاد ماحول ہوتے ہوئے کسی قسم کی تفریحی مقامات اور مواقع نہ ہونے کے برابر ہے، جس سے معاشرے میں حبس و گهٹن جیسے ماحول کی وجہ سے نوجوان بے راہ روی، انتہا پسندی اور مجرمانہ افعال کے مرتکب ہونے کی طرف جارہے ہیں-

غربت کے شکار اور محنت کشوں کے بچے اور فیملیز کراچی یا دیگر شہروں کی طرف تفریحی مقامات پر جانے سے قاصر رہتے ہیں- ایسے میں جبکہ حب میں اور ایسے مقام پر جہاں سیکورٹی کا مناسب انتظام بھی کیا جاسکتا ہے کی مخالفت کرنا سمجھ سے بالاتر ہے- ماضی میں اگر مختلف گروہوں کی جانب سے یا کٹر مذہبی تنظیموں کی جانب سے میلے و تفریحی سرگرمیوں کی مخالفت کے وجوہات سے بھی کوئی ذی شعور انسان بے خبر نہیں رہا- اب کے بی ایس او کو ساتھ ملاکر اسکے کندهوں پر بندوق رکھ کر گولی چلانے کا فارمولا استعمال میں لایا گیا ہے- جس سے بی ایس او کے انسان دوست،عوام سے ہمدری اور مدد و حمایت کرتے رہنے کی تاریخ کو مسخ کرکے تنظیم کا مزاق اڑانے کے مترادف قرار پانے والے افعال کے شریک کار ہونے کا موجب بن رہے ہیں-

اگر آج کے دور میں بی ایس او بذات خود انتشار و خلفشار کا شکار ہوکر اس طرح کی سرگرمی دکھانے یا امن فیسٹیول، اسپورٹس، ثقافتی، میوزیکل شوز کا انعقاد کرنے کی سکت نہیں رکھتی ہے، مگر جب دوسرے زرائع سے عوام کو انہی کے شہر میں سستی تفریحی پروگرام کا اہتمام کرکے فیمیلز اور بچوں کو خوش ہونے کا موقع فراہم کررہے ہیں- جس میں رضا کارانہ طور حصہ لیکر اپنے علاقے کی مہمان نوازی، امن اور محبت کے ثقافت کو جلا بخشنے والا کردار ادا کرنے کی ضرورت تھی بجائے اس کے کہ چند نابلد اور ذاتی و گروہی مفادات و مراعات حاصل کرنے کی غرض سے عوام دشمن ہهتکنڈوں پر اتر آتے-جن کے لئے بی ایس او کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہو سراسر زیادتی ہوگی-

اس طرح کے سرگرمیوں میں حصہ لینے پر شہریوں کو اعتراض نہ ہو اور جن کے بچے اور فیمیلز تفریحی ضرورت کے تحت اس میں شریک ہونا چاہتے ہوں تو پھر کسی کو حق نہیں حاصل کہ وہ حائل بنے- آج کھلے پن اور سوشل میڈیا کے دور میں لوگ کسی بھی نا پسندیدہ عمل کے سامنے کھل کر اظہار کرنے اور احتجاج کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے- کسی ناخوشگوار واقعے کے پیش آنے کے نتیجے میں عوام کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے والے اقدام کو سراہا جائے گا نہ کہ عوام کو تفریحی سہولیات فراہم کرنے کی صورت میں بلاجواز مخالفت کر کے رکاوٹیں پیدا کرنے کے مرتکب ہونے کو-

کسی بھی طرح ہمدردی حاصل کرنے کے بجائے بیزاری اور ناپسندیدگی کا شکار ہونا موزوں عمل نہیں، لہٰذا تنظیم کی ترقی پسندانہ، روشن خیال، جدت پسند سیکولر جمہوری آدرش کی تاریخ کو مسخ کرنے یا مزاق اڑانے جیسے افعال کا ارتکاب نہ کریں – جس سے تنظیمی ساکھ متاثر ہوکر بقا خطرات سے دوچار ہوجائے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔