سماجی جرائم اور ڈیتھ اسکواڈز کا کردار – شہیک بلوچ

315

سماجی جرائم اور ڈیتھ اسکواڈز کا کردار

تحریر: شہیک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

گذشتہ دنوں قلات کے علاقے پارود میں ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کیساتھ جھڑپ میں تین بلوچ جہدکاروں کی شہادت ایک واضح پیغام ہے کہ ریاستی سرپرستی میں قائم ڈیتھ اسکواڈز کا مقصد بلوچ جدوجہد کے خلاف ان کو فرنٹ لائن میں استعمال کرنا ہے۔ بلوچ تحریک کے خلاف ریاست نے اس پالیسی کو دوہزار سات میں وسیع پیمانے پر عملی جامہ پہنایا، جہاں شفیق مینگل اور سراج رئیسانی جیسے خونی درندوں کو ٹاسک دیا گیا جبکہ پس منظر میں، کوہی خان، قمبر خان مینگل اور مذہبی جھتوں کو منظم کیا جاتا رہا۔ نوآبادیاتی نظام کے مضبوطی کے لیئے ایسے نمائندے تخلیق کیے جاتے ہیں جو نوآبادکار کے لیے کم خرچ ثابت ہوتے ہیں، جنہیں ریاست ایک ایسے انتہا پر لاتا ہے جہاں وہ ہر جرم بخوشی کرتے ہیں۔

بلوچ تحریک کے حوالے سے جاسوسی کا نیٹ ورک، بلوچ جہدکاروں کی نشاندہی، اغوا و گمشدگی سے لے کر مسخ شدہ لاشوں تک ان سب میں ان سماجی مجرموں نے بہت اہم کردار ادا کیا لیکن اس کے برخلاف بلوچ قومی تنظیمیں کوئی موثر کردار ادا کرنے میں ناکام رہیں، جس کے باعث یہ شیطانی کردار مزید طاقتور ہوتے گئے حالانکہ ابتدائی مرحلے میں ہی ان کیخلاف کاروائی کی جاتی تو یہ راستہ رک جاتا اور دوسروں کے لیئے بھی یہ نشان عبرت بن جاتے لیکن بلوچ تنظیمیں ابتدائی مراحل میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے میں ناکامی کا شکار رہے۔

بی ایس او کے کلچر ڈے کے مناسبت سے پروگرام پر حملے کے نتیجے میں اگر اسی وقت شفیق مینگل کیخلاف موثر کاروائی کی جاتی تو نہ صرف اس سے ان ریاستی نمائندوں کا مورال بھی کمزور پڑ جاتا بلکہ تحریک ان پر ابتدائی مرحلہ میں ہی حاوی ہوجاتی۔ ان کو جتنا زیادہ اسپیس ملا انہوں نے اتنی زیادہ طاقت جمع کرتے ہوئے تحریک کو نقصان پہنچایا۔

اسی طرح شفیق مینگل پر فدائی حملہ ہو یا سراج رئیسانی پر دونوں ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہے اور اس کے بعد تنظیموں کی طرف سے کوئی کوشش نہیں کی گئی اور قومی تنظیموں کی انہی غفلت نے ان سماجی مجرموں کے کردار کو مزید جلا بخشا اور آج دیکھا دیکھی باقی کردار بھی واضح ہورہے ہیں۔

آج جب قومی تنظیمیں بلوچ تحریک کو از سر نو منظم کرنے کے حوالے سے برسر عمل ہیں، تو ایسے میں ان سماجی مجرموں کا انجام ایک نہایت اہم سوال بن جاتا ہے؟ اس حوالے سے نہایت سخت قسم کی پالیسیاں ترتیب دینی ہونگی لیکن اس بات کا خاص خیال رکھنا ہوگا کہ ہدف ہر حال میں حاصل ہو۔

اب وقت آگیا ہے کہ بلوچ آزادی پسند تنظیمیں کچھ سخت فیصلے کریں اور ان سماجی مجرموں کو کسی صورت بھی مزید اسپیس نہیں ملنا چاہیئے کیونکہ یہ ریاستی نمائندے ریاست سے کئی گنا زیادہ خطرناک ثابت ہوچکے ہیں۔ آزادی پسند تنظیموں کو اس حوالے سے مشترکہ پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔
بلوچ تحریک کو منظم کرنے کے لیے ایسے سماجی جرائم کا روک تھام لازم ہے، نہیں تو ماضی میں جس طرح کے شدید نقصانات پہنچے وہ سب کے سامنے ہیں۔

بلوچ فرزندوں کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچا کر دشمن اور ان کے نمائندوں کو واضح پیغام دینا لازمی ہے کہ بلوچ جہد اب کسی بھی اندرونی یا بیرونی مجرم کو برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا اور اس حوالے سے جامع پالیسی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔