مادر وطن کے فدائین اور مجید بریگیڈ ۔ میرین بلوچ

344

مادر وطن کے فدائین اور مجید بریگیڈ

تحریر۔ میرین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کچھ عرصے سے میرے ذہن میں کچھ ایسے سولات آرہے تھے کہ نہ جانے کہاں سے شروع کروں اور کہاں پر ختم کروں، جب سوال کرنے کیلئے کوشش کرتا ہوں تو میرا پورا جسم پسینے سے شرابور ہونے لگتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ آسمان مجھے کھینچ رہا ہے اور زمین مجھے نگل رہا ہے۔

تقریباً 45 سال پہلے مجید بلوچ نامی شخص نے ذوالفقار علی بھٹو پر فدائی حملہ کیا تھا اور یہ سوال میرے ذہن میں کئی سالوں سے جنم لے رہا ہے اور گھڑی کی طرح گھوم رہا ہے کہ لفظ فدائی کیا ہے؟ انسان اپنی موت کو اپنے ہاتھوں سے کیوں لکھتا ہے؟ انسان اپنی زندگی، ماں باپ، بھائی بہن، بیوی بچے، گھر بار، مال مویشی، عزیز واقارب، رشتہ دار سب کچھ چھوڑ جاتے ہیں کیوں؟ کیا انسان اپنی زندگی سے اتنا تنگ آچکا ہے کہ اپنی موت کو خود تسلیم کرے؟

انسان وہ ہے جو دوسروں کیلئے جینا اور دوسروں کیلئے مرنا سیکھے، یعنی انسان ایک عظیم مقصد اور دوسروں کیلئے اپنی جان کو بخش دیتاہے اور دراصل لفظ فدائی عربی زبان کا لفظ ہے جس میں خود کو کسی کیلئے قربان کرنے والے، جان نذر کرنے والے، سرفروش اور جان نثار کو کہتے ہیں۔

فدائی جو اپنے مقصد کو پانے کیلئے جان دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا اور وہ درویش جو اپنے آپکو کسی خاص عقیدے کیلئے وقف کر دے۔

انسان دوسرں کیلئے اپنی جانوں کو نثار کرتے ہیں، صرف اور صرف اپنی بقاء و سلامتی اور آزادی کی خاطر لڑتے ہیں اور جام شہادت نوش کرتے ہیں اور اسی طرح فدائی مجید کے بعد شہید جنرل استاد اسلم نے مجید بریگیڈ کا تخلیق کیا اورmissions کو جاری کیا، بی ایل اے کے سب سے پہلے جانباز شہید درویش نے فدائی حملہ کیا تھا، جس نے ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے سرغنہ شفیق مینگل پر فدائی حملہ کیا تھا اور بعد میں جنرل استاد اسلم نے اپنے لاڈلے لخت جگر بیٹے ریحان بلوچ کو مادر وطن پر قربان کردیا، جس میں شہید ریحان جان نے11اکست 2018 کو دالبندین کے سینے میں چینی انجینیئروں پر اپنی جان قربان کردیا، جس دشمن پر نفسیاتی اثرات پڑے اور نومبر کے ہی مہینے میں تین نوجوان شیر کراچی شہر میں گھس کر ایک چٹان بن کر دشمن پر گرے، جنہوں نے دشمن کو نست نابود کر دیا، کراچی پاکستان کی دل و جان ہے اور مکمل سیکیورٹی کے باوجود بھی بلوچ جانبازوں نے یہی ثابت کر دیا کہ بلوچ اپنے دھرتی ماں کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے، یہ حملہ ویتنام کے Tet offensiveجیسا حملہ تھا. اسکے گہرے تزویراتی اور نفسیاتی اثرات پڑے، اور اسی سال جنرل استاد اسلم کی جدوجہد نے پاکستان کی معشیت کو نست نابود کر دیا۔

دوسری طرف” اتحاد “کی کرن نے ایک نئی امید پیدا کی، جو براس کے نام سے جانا جاتا ہے اور دشمن کو برداشت نہ ہو سکا اور ایک خود کش کے ذریعے آپ پر وار کردیا، جس میں جنرل استاد اسلم اور انکے ساتھی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے سنہرے لفظوں میں بس گئے اور تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نمیران ہوگئے، جس میں شہید فدائی سنگت بابر بلوچ بھی شامل تھا اور دشمن نے یہ سوچا کہ میں نے اس بہادر انسان کو ختم کیا ہے، اب تحریک بھی ختم ہو گیا ہے اور ہمارا دشمن بھی عجیب دماغ اور تنگ سوچ کا مالک ہے۔

میرے بھائی” فردوں کے جانے سے نہ تو تاریخ ختم ہو سکتا ہے اور نہ ہی مشن، البتہ تحاریک میں کچھ وقت کیلئے تھوڑی کمی کا سبب بنتا ہے لیکن تاریخ کا کچھ بھی بگڑ نہیں سکتا۔ بلکہ تحاریک خون سے سیراب ہوتے ہیں۔

ایک دفعہ میں گہری سوچ میں تھا تو میرے کانوں پر ایک آواز پڑی کہ آج گوادر کے علاقے میں ایک five star ہوٹل پر 4سپوت سرباز فدائیوں نے قبضہ کرلیا ہے، ایسا لگا کہ یہ خوش نصیب ساتھی کون ہیں کہ آج وطن پر فدا ہونے جا رہے ہیں، جب میں نے نیوز پڑھا جس میں بلوچ دھرتی کے چار عظیم سپوت سپاہی اور سرمچار شہید سنگت کچکول بلوچ، شہید سنگت اسد بلوچ، شہید سنگت منصب بلوچ اور شہید سنگت ھمل بلوچ نے جس بہادری، ہمت، عزمت اور نڈری کے ساتھ گوادر five star ہوٹل میں گھس کر 70 سے زائد اہلکاروں کو ہلاک کیا اور یہ ثابت کر دیا کہ گوادر کسی کا نہیں اور نہ ہی کسی کا ہونے دینگے گوادر صرف اور صرف بلوچستان کا ہے۔

چاروں سپوت سربازوں میں سے ایک سرباز منصب کے نام سے جانا جاتا ہے، جس سے میری پہلی ملاقات کولواہ کے علاقے میں ہوا، نہ جانے میں کن سنہرے لفظوں میں آپکا نام لکھوں، میرے پاس ایسے کوئی الفاظ ہی نہیں بچے کہ آپکا داستان سنہرے لفظوں میں لکھوں۔

جب آپکا معصوم چہرہ دیکھا تو مجھے عجیب سے خیالات آنے لگے، آپ ایک مہروان اور خاموش ساتھی تھے، کئی سالوں سے آپ بلوچستان کے پرکشش وادیوں و پہاڑوں کو اپنا مسکن بنائے ہوئے تھے، وہی منصب جو چھوٹے عمر میں فدائی مشن پر نکلا، آپ مادر وطن کے شہید ہیں۔

جب سرزمین بلوچ کے سرباز، وطن کے دفاع میں سروں پہ کفن باندھ کر ہوٹل پرل کانٹینینٹل میں وارد ہوئے، جہاں جانے کے لیئے ایک ہی راستہ تھا اور وہاں تک پہنچنے کے لیئے جگہ جگہ فوجی چوکیاں بھی بنے ہوئے ہیں لیکن پھر بھی قوم کے عظیم چار سپوتوں نے یہ ثابت کر دیا اور کامیابی سے نہ صرف اپنی جگہ پہ پہنچے تھے بلکہ جس مقصد کے لیے انہوں نے خود کو فدا کرنا تھا وہ کرلیا اور “زر پھازگ ” missions کو پوری طرح سے کامیاب کر دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ چھوٹے ذہنوں میں ہمیشہ خواہش اور بڑے ذہنوں میں ہمیشہ مقصد ہوا کرتا ہے، یہ وہ بڑے ذہن کے لوگ ہیں جن کا مقصد صرف اور صرف اپنے مادر وطن پر قربان ہونا، فدا ہونا ہے اور آج نہ صرف میں بلکہ پوری دنیا اور پوری قوم آپ لوگوں فخر کررہی ہے۔ ان فدائین کی جدوجہد نے بلوچ قومی جد وجہد کو ایک نیا موڑ دیا اور تاریخ بھی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے سنہرے لفظوں میں امر ہوگئے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔