شعیب بلوچ، وہ جنہوں نے تاریخ رقم کردی
کوہ کرد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
جب ہم بی ایس او کے اسٹڈی سرکلوں میں بیٹھتے اور قومی تحریکوں کے بابت علم حاصل کرتے تھے، ایک بات ہم ہمیشہ سُنتے تھے کہ نوجوان کسی بھی قوم کے ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہوتے ہیں۔ اگر کسی انسان میں ریڑھ کی ہڈی سلامت نہ ہو تو وہ شاید زندہ رہ سکے لیکن وہ کوئی کام کرنے کا لائق نہیں رہتا، اسی طرح کسی بھی قوم کے نوجوان اپنی قومی ذمہ داریوں کو صحیح طریقے سے سر انجام نہ دیں اور غفلت کا مظاہرہ کریں تو وہ قوم کبھی بھی ترقی کے منازل طے نہیں کر پاتا اور تاریکیوں میں گم ہو جاتا ہے، پھر وہ قوم دنیا کیلئے ایک ناکامی کا مثال بن جاتا ہے۔ جیسے کہ آج تامل ٹائگرز ہمارے لیئے اور دوسرے مظلوم اقوام کیلئے ایک مثال بن چُکا ہے کہ اگر ہم نے قومی تحریک کو صحیح طریقے سے نہیں چلایا اور قوم کو ساتھ لیکر منزل کی جانب نہیں چلے تو ہمیں بھی تامل کی طرح ناکامی کا سامنا ہوگا۔
یہ بات عملاً اُس وقت مجھے سمجھ آئی جب میں نے سُنا کہ نوجوان بلوچ جنگجو سنگت شعیب دشمن فوج سے لڑتے ہوئے اپنے دیگر ساتھیوں سمیت شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہوا ہے، شعیب کی شہادت کا سُن کر حیران رہ گیا کہ یہ وہ لڑکا تھا جسے کسی بھی چیز کی کمی نہیں تھی، گھر بار، پڑھائی کیلئے پیسے، سب کچھ لیکن اس نے پڑھائی سے زیادہ قومی جنگ کو ترجیح دیا اپنے سیکنڈائیر کے امتحانات کے دوران اپنے پیپرز چھوڑ کر قلات کے پہاڑوں پر جا پہنچا جو واپس اپنی شہادت تک دوبارہ کبھی نہیں آیا۔
شعیب نے اپنی کسان عمری میں بلوچ طلباء سیاست میں قدم رکھا بی آر ایس او کے پلیٹ فارم سے دو برس تک کافی ایکٹیو رہا ھیرونک اور شاپک میں تنظیم کو فعال کرنے و قومی آزادی کے پیغام کو ہر نوجوان تک پہنچاتا رہا، جب مسلح مزاحمت ان علاقوں میں شدت پکڑنے لگا تو اُس کے توجے کا مرکز مسلح جدوجہد بن گیا اور پھر سیاسی دوستوں سے کم مسلح دوستوں سے زیادہ رابطہ میں رہا، پھر واپس سیاست سے لگاؤ نہیں رہا اور علاقے کے اندر مسلح دوستوں کیلئے ایک دوزوا کی حیثیت سے کام کرنے لگا، بعد میں دوستوں کے اسرار پر وہ تربت پڑھائی کیلئے چلا گیا اُس کی خواہش تھی کہ وہ مسلح بن جائے لیکن دوستوں نے اُس کی کم عمری کو دیکھتے ہوئے اُنہیں مزید اپنی پڑھائی جاری رکھنے کی تلقین کی تھی۔ دوستوں کی کہنے پر وہ تربت چلا گیا اور وہاں عطا شاد ڈگری کالج میں داخلہ لیا اس وقت اُس کا شہید منظور کے ساتھ ایک مضبوط رشتہ جڑ گیا تھا(شہید منظور و شعیب شہادت کے دن تک ایک دوسرے کے ساتھ رہے) جس وقت وہ تربت میں تھا دشمن کو اس کی سرگرمیوں کا پتہ لگ گیا تھا دشمن فوج بہت سے چیک پوسٹوں پر شعیب کا پتہ پوچھ رہا تھا، جس کے بعد شعیب نے کوئی دوسرا راہ اپنے لیئے نہیں دیکھا، جس کے کچھ ہی وقت بعد وہ تربت سے روپوش ہو گئے۔
تربت کے سخت گرمی سے نکل کر قلات کے سخت سردی میں محو سفر ہونا اور زندگی کو ایک نئے سرے سے شروع کرنا آسان نہیں تھا لیکن جہاں وطن سے محبت کا جذبہ ہو جہاں دھرتی ماں کی خاطر مرمٹنے کا جذبہ ہو تو وہاں پھانسی کے رسی کو چوم کر گلے میں ڈالنا بھی آسان ہو جاتا ہے۔ جہاں زندگی بھر جیل میں سڑنا بھی آسان ہو جاتا ہے، جہاں خود کو دھماکے سے اڑانا بھی آسان ہو جاتا ہے۔ یہ آزادی کا جذبہ تھا کہ بھگت سنگھ اپنے دوستوں سمیت بخوشی پھانسی پر چڑھ گیا، یہ قومی جذبہ تھا کہ نیلسن منڈیلا 28 سال تک جیل میں زندگی کاٹنے پر تیار ہو گیا۔ یہ وطن سے محبت کا جذبہ تھا کہ شہید درویش و ریحان جان نے خود کو بارود سے اڑایا تو شعیب کو قلات میں سنگر لینے میں کیا حرج تھا؟
شہید شعیب نے اپنی زندگی کو ہمارے کل کیلئے وقف کیا اور اپنی آخری سانسوں تک دشمن کے خلاف لڑتا رہا، شہید کا فکر و فلسفہ و جدوجہد محنت و قربانی بلوچ نوجوانوں کیلئے مشعل راہ ہے۔ نوجوانوں کو چاہیئے کہ پاکستانی قبضے اور چین کے سامراجی عزائم کے خلاف اُٹھ کر شعیب کی طرح شعوری جدوجہد کریں تاکہ تاریخ کے صفحے میں بلوچ قوم بھی تامل کی طرح دنیا کیلئے ایک ناکامی کا مثال نہ بن جائے۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔