ڈاکٹر دین محمد بلوچ کے جبری گمشدگی کے 16 سال، کراچی میں سیمینار کا انعقاد

47

بلوچ سیاسی کارکن اور جبری گمشدگی کے شکار ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی گمشدگی کو 16 سال مکمل ہونے پر کراچی پریس کلب میں ’’ڈاکٹر دین محمد بلوچ کے بغیر 16 سال‘‘ کے عنوان سے ایک سیمینار منعقد ہوا۔

یہ سیمینار اتوار کے روز منعقد ہوا جس میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی اور ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی مہلب بلوچ نے سیمینار کی نظامت کی۔

اس موقع پر ممتاز شخصیات نے اظہار خیال کیا جن میں کراچی پریس کلب کے صدر فاضل جمیلی، سینئر صحافی وسعت اللہ خان، مظہر عباس، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے نمائندے اسد بٹ، معروف سماجی کارکن و فنکارہ شیما کرمانی، بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماء اور جبری لاپتہ ڈاکٹر دین بلوچ کی بیٹی سمی دین بلوچ، بی وائی سی کراچی کے لالا وہاب بلوچ اور کامریڈ خرم علی شامل تھے۔

سیمینار میں جبری لاپتہ افراد کے لواحقین، صحافی، وکلا، انسانی حقوق کے کارکنان اور سول سوسائٹی کے اراکین نے شرکت کی اور جبری گمشدگیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا اور اسے ایک سنگین انسانی المیہ قرار دیا۔

اس موقع پر شرکاء کا کہنا تھا یہ سیمینار جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری تحریک کو اجاگر کرنے اور ریاستی جبر کے خلاف آواز بلند کرنے کے عزم کی ایک علامت ہے، شرکاء نے مطالبہ کیا کہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ سمیت تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے اور جبری گمشدگیوں میں ملوث عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔

شرکاء نے کہا ہے کہ سمی دین اور مہلب بچپن سے ان پریس کلبوں کے باہر اپنے والد کی بازیابی کی جہدو جہد کررہے ہیں اور یہی پر بڑی ہوئی، تاہم سولہ سال گزرنے کے باوجود ریاست انکے والد کے حوالے جواب دینے سے قاصر ہیں۔

شرکاء کا مزید کہنا تھا بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے واقعات انسانی المیہ ہے اگر ریاست کو لگتا ہے وہ ایسے عمل سے بلوچستان میں جاری حقوق کی جہدو جہد کو روک سکتا ہے تو یے پہلے ہوچکا ہوتا جبری گمشدگیاں ریاست کے چہرے پر بدنما داغ ہیں جنھیں کبھی نہیں مٹایا جاسکتا۔

انکا کہنا تھا بلوچستان میں آئیے روز جبری گمشدگیوں مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کی اطلاعات موصول ہوتی ہیں لوگ مزاحمت کرتے ہیں لیکن ملکی میڈیا اور ادارے ان آوازوں کو مزید وحشت سے دبانے کی کوشش کرتے ہیں اگر سولہ سال سے سمی اور مہلب اپنی والد کی بازیابی کے لئے جہدو جہد ترک نہیں کررہے تو ریاست مزید غلطی کرکے لوگوں کو خوفزدہ کرکے انکی جہدو جہد ختم نہیں کرسکتا۔

مزید برآں ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما سمی دین بلوچ نے کہا کہ آج کے سیمینار میں سندھ پولیس کی بھاری نفری، راستوں کی بندش اور شرکاء کو ہراساں کرنے کی تمام کوششوں کے باوجود لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور جبری گمشدگیوں کے خلاف اپنی آواز بلند کی۔

سیمینار کے آخر میں سمی دین نے نے مزید کہا میں دل کی گہرائیوں سے تمام معزز مہمانوں اور شرکاء کا شکریہ ادا کرتی ہوں جنہوں نے ہماری جدوجہد سے یکجہتی کا اظہار کیا اور اس اہم موقع پر ہمارے ساتھ کھڑے رہے۔