بلوچ قومی غدار عطاالرحمان مینگل کو ساتھیوں سمیت ہلاک کرنے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں ۔ بی ایل اے

360

بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے میڈیا کو جاری کیے گئے بیان میں کہا ہے کہ خضدار میں قابض ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے متحرک کارندے و سرغنہ عطاالرحمان مینگل کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری قبول کرتی ہے۔ 22 جون 2025 کو بی ایل اے کی انٹیلیجنس ونگ زراب اور آپریشنل یونٹ فتح اسکواڈ نے خضدار کی تحصیل وڈھ کے علاقے آڑنجی میں ایک مشترکہ اور منظم عسکری کارروائی کے دوران عطاالرحمان کو نشانہ بنا کر اس کے ساتھیوں سمیت ہلاک کردیا۔ یہ کارروائی زراب کی طویل المدتی انٹیلیجنس معلومات، مسلسل مشاہدے اور ہدف کی سرگرمیوں پر مکمل تحقیق کے بعد عمل میں لائی گئی، جبکہ آپریشنل یونٹ کامیابی سے کارروائی مکمل کرنے کے بعد محفوظ طریقے سے اپنی پوزیشنز پر واپس لوٹ آئی۔

ترجمان نے کہا کہ عطاالرحمان مینگل کا کردار خالصتاً ایک ایسے ریاستی آلہ کار کا تھا، جو بلوچ نسل کشی میں براہ راست شریکِ جرم رہا ہے۔ وہ ان نیٹ ورکس کا فعال حصہ اور نمائندہ تھا، جو پاکستانی فوج اور اس کے انٹیلیجنس اداروں کی سرپرستی میں بلوچستان میں بلوچ قومی تحریک کے خلاف منظم انداز میں سرگرم ہیں۔ اس نے گزشتہ کئی برسوں میں ریاستی ڈیتھ اسکواڈ نیٹ ورکس کی تشکیل، مقامی سہولت کاری، اور بلوچ سیاسی کارکنان کی شناخت، گرفتاری و شہادتوں میں مرکزی کردار ادا کیا۔ عطاالرحمان درجنوں بلوچ کارکنوں کی شہادت، جبری گمشدگیوں اور نسل کشی میں براہ راست ملوث رہا۔ وہ بلوچ طلباء، کارکنان اور قوم پرست تنظیموں کی نگرانی، نشاندہی اور حملوں کی منصوبہ بندی میں ریاستی ایجنڈے کا کلیدی حصہ تھا۔ اسے نہ صرف اسلحہ، محافظ اور قانونی استثنیٰ حاصل تھا بلکہ قبائلی نقاب اور فوجی سرپرستی نے اسے بے خوفی کے ساتھ بلوچ دشمنی پر کاربند رہنے کی گنجائش دی ہوئی تھی۔ اس کے نتیجے میں سینکڑوں بلوچوں کو اغواء کیا گیا، جن میں سے کئی شہید کر دیے گئے، جبکہ دو سو سے زائد لاشیں عطاالرحمان کی نگرانی میں اجتماعی قبروں میں دفن کی گئیں۔

جیئند بلوچ نے کہا کہ عطاالرحمان مینگل محض ایک علاقائی عنصر نہیں بلکہ اس گہرے ریاستی منصوبے کا تسلسل تھا، جس کا خالق اور اہم سرغنہ اس کا بھائی شفیق الرحمن مینگل اور والد نصیر مینگل رہا ہے۔ شفیق مینگل نے 2000 کی دہائی کے دوران خضدار، وڈھ اور آس پاس کے علاقوں میں ریاستی ایجنسیوں کے ساتھ مل کر بلوچ مزاحمت کے خلاف ایک منظم پراکسی نیٹ ورک قائم کیا، جس میں مذہبی شدت پسند گروہوں کی شمولیت، فرقہ وارانہ ہتھکنڈے، اور سیاسی کارکنوں کے خلاف دہشت گردی کو باقاعدہ پالیسی کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اس نیٹ ورک کی کارروائیوں کے نتیجے میں بے شمار بلوچ نوجوان یا تو لاپتہ ہوئے، یا تشدد کا نشانہ بنے، یا خاموش قبروں میں دفن کر دیے گئے۔ 2014 میں توتک کے علاقے سے دریافت ہونے والی اجتماعی قبریں اسی منصوبے کا ناقابل تردید ثبوت ہیں۔ شفیق مینگل اور اس کے نیٹ ورک نے نہ صرف بلوچ سیاسی کارکنوں بلکہ شیعہ ہزارہ برادری اور مذہبی اور فرقہ وارانہ اقلیتوں کو بھی نشانہ بنایا، جس کا مقصد بلوچ قومی تحریک کو مذہبی تصادم میں الجھا کر اس کی نظریاتی بنیادوں کو کمزور کرنا تھا۔

انہوں نے کہا کہ عطاالرحمان اپنے بھائی کے اسی نیٹ ورک کا متحرک حصہ تھا۔ اس نے مقامی سطح پر اسلحہ بردار جرائم پیشہ گروہوں (ڈیتھ اسکواڈز) کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا، اور ریاستی اداروں کو بلوچ نسل کشی تیز کرنے کیلئے براہِ راست معلومات و معاونت فراہم کیں۔ اسے قابض فوج کی طرف سے ایک مکمل آپریشنل فریم ورک میں کام کرنے کی آزادی حاصل تھی۔

فوٹو، ہکل میڈیا

جیئند بلوچ نے کہا کہ بی ایل اے کی انٹیلی جنس ونگ زراب نے عطا الرحمان کے تمام روابط، سرگرمیاں، مقامی شراکت داروں اور خفیہ تعاون کاروں پر طویل عرصے تک نظر رکھی، جسکے بعد بی ایل اے نے اسے نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا، اور ایک منظم، مربوط اور مختصر کارروائی کے ذریعے آسانی کے ساتھ اس غدار اور بلوچ نسل کش کا خاتمہ کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اس سے قبل، عطاالرحمان مینگل کے بھائی شفیق الرحمن مینگل پر 30 دسمبر 2011 کو بی ایل اے کے فدائی یونٹ مجید بریگیڈ کی جانب سے ایک فدائی حملہ کیا گیا تھا، جس میں مجید بریگیڈ کے جانباز فدائی درویش بلوچ نے کوئٹہ کے ارباب کرم خان روڈ پر واقع اس کے رہائش گاہ کے باہر اپنی جان قربان کرتے ہوئے دشمن پر ایک کاری وار کیا۔ شفیق مینگل اس حملے میں بال بال بچ نکلا، مگر اس کے درجنوں ساتھی ہلاک کرکے، اسکے دہشتگرد نیٹورک کو شدید دھچکا پہنچایا گیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ بلوچ لبریشن آرمی یہ واضح کرنا چاہتی ہے کہ ہماری جدوجہد محض عسکری تقاضوں کا ردعمل نہیں بلکہ ایک طویل، منظم اور گہری سیاسی بصیرت پر مبنی مزاحمت ہے، جس کی بنیاد ہماری قومی خودی، تاریخی جبر کی تفہیم، اور اجتماعی سیاسی شعور پر استوار ہے۔ ہم کسی بھی دشمن کو اس کی شناخت، تعلق یا لباس سے نہیں پرکھتے بلکہ اس کے عمل، کردار اور تحریکِ آزادی کے خلاف سرگرمیوں کو فیصلہ کن معیار سمجھتے ہیں۔ عطاالرحمان مینگل اور اس کا بھائی شفیق مینگل انہی اعمال کے آئینے میں دیکھے گئے ہیں۔ ان افراد کا ہر قدم بلوچ دشمن قابض ریاست کے مفادات کے تحفظ اور بلوچ قومی اجتماعی مفادات کے خلاف اٹھا ہے۔

جیئند بلوچ نے کہا کہ بی ایل اے آج ایک بار پھر اعلان کرتی ہے کہ وہ کسی بھی قیمت پر ان عناصر کو معاف نہیں کرے گی جو بلوچ قومی آزادی اور شناخت کے خلاف ریاستی منصوبوں کے ضامن بنے ہیں۔ ہم نے عطاالرحمان کو نشانہ بنا کر یہ واضح کر دیا ہے کہ بلوچ نسل کشی میں ملوث کسی شخص کو تاریخ کے پردے میں چھپنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ شفیق مینگل اور اس جیسے تمام سہولت کاروں کو اب یہ جان لینا چاہیے کہ بلوچ مزاحمت نہ تو فراموش کرتی ہے اور نہ ہی پیچھے ہٹتی ہے۔ ہم دشمن کی بربریت کا حساب اُن کی زبان میں، مگر اپنے وقار، نظم اور نظریے کے ساتھ لیں گے۔