پانک کی مئی رپورٹ: پاکستانی فوج نے 27 افراد ماورائے عدالت قتل، 128 افراد کو جبری لاپتہ کیا

96

بلوچ نیشنل موومنٹ کے ادارہ انسانی حقوق پانک نے مئی 2025 کی رپورٹ شائع کی ہے جس میں بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال بیان کی گئی ہے۔

پانک کو دستیاب اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں مئی 2025 میں پاکستانی فوج نے 128 افراد کو جبری لاپتہ کیا جبکہ 27 افراد ماورائے عدالت قتل کیے گئے۔جبری گمشدگی کے سب سے زیادہ کیسز ضلع گوادر سے رپورٹ ہو ئیں جہاں 32 افراد جبری طور پر لاپتہ کیے گئے۔ اس کے بعد کیچ میں 27، کراچی میں 10، آواران میں 9، شال میں 8، پنجگور اور مستونگ میں 7، چاغی میں 5، ڈیرہ بگٹی میں 4 ، نوشکی میں 6، موسیٰ خیل، کلات اور خضدار میں 3، جبکہ بارکھان، ھرنائی میں 2، اور واشک میں 1 جبری گمشدگی کا واقعہ سامنے آیا۔

ماورائے قتل کے حوالے سے بھی مئی کا مہینہ بدترین رہا ہے۔ 27 افراد کو پاکستانی فوج اور اس سے منسلک اداروں ، ریاستی ڈیتھ اسکواڈز نے قتل کیا۔ 1 مئی کو پنجگور کے علاقے تَسپ میں سمیر احمد کو گرفتاری کے بعد جبری گمشدہ کیا گیا  اور 9 مئی کو ان کی لاش کی برآمد ہوئی۔ 5 مئی کو 15 سالہ علی بلوچ کو ریاستی حمایت یافتہ ڈیتھ اسکواڈ نے تمپ، کیچ میں قتل کیا۔ 10 مئی کو وحید بلوچ کو پنجگور سے اغوا کیا گیا اور اگلے روز ان کی گولیوں سے چھلنی  لاش میں برآمد ہوئی۔

رپورٹ کے مطابق صوفی طارق کو گوادر کے قصبہ جیمڑی  سے اٹھا کر قتل کیا گیا، جب کہ فہد لہڑی کی مسخ شدہ لاش شال سے 13 مئی کو ملی۔ 2014 میں جبری لاپتہ کیے گئے محمد رمضان کی لاش بھی مئی میں برآمد ہوئی۔ یونس بلوچ کو آواران کے مالار میں قتل کیا گیا، جب کہ بختیار احمد کو کلات میں اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ فوجی کارروائیوں کے خلاف آواز بلند کر رہے تھے۔

ساجد بلوچ، یاسر بلوچ، حنیف عزیز، عبداللطیف بلوچ، اور غوث بخش جیسے افراد کو گھروں سے اغوا کر کے قتل کیا گیا۔ عبداللطیف بلوچ، جو ایک سینئر صحافی تھے، کو ان کے گھر میں سوتے وقت قتل کیا گیا، جس سے بلوچستان میں میڈیا کو درپیش خطرات بھی واضح ہوئے۔ مئی میں تین افراد — عبدالرحمن بزدار، فرید بزدار اور سلطان مری — کو پولیس کے شعبہ انسداد دہشت گردی ( سی ٹی ڈی ) نے اغوا کیا اور بعد ازاں جعلی مقابلے میں بارکھان میں قتل کر دیا۔

پانک کے مطابق 26 اور 27 مئی کو آواران کے مَچی مالار میں فوجی کارروائی کے دوران عام شہریوں نعیم بلوچ اور خاتون ھوری بلوچ  کو قتل کر دیا گیا، جبکہ ایک خاتون شدید زخمی ہوئیں۔ 22 مئی کو شیر خان کھیتران کو بارکھان سے حراست میں لیا گیا اور ان کی لاش 28 مئی کو ملی۔ درمان بلوچ کو دو مرتبہ حراست میں لیا گیا اور آخرکار ان کی لاش 30 مئی کو جاھو میں برآمد ہوئی۔آپسر ، تربت ضلع کیچ  میں 29 مئی کو ڈرائیور مسافر بلوچ کو قتل کیا گیا، جبکہ اسی دن نذر بلوچ، عبدالعزیز اور بعد ازاں 30 مئی کو لیویز اہلکار صغیر احمد کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

پانک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان تمام واقعات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچستان میں ریاستی ادارے اور ان کے حمایت یافتہ مسلح گروہ کھلی چھوٹ کے ساتھ عام شہریوں، کارکنوں، طلبہ، صحافیوں اور سرکاری اہلکاروں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ یہ واقعات نہ صرف قانونی ضابطوں کی شدید خلاف ورزی ہیں بلکہ اجتماعی سزا، خوف کی فضا اور جبری خاموشی کو مسلط کرنے کا حصہ ہیں۔ عالمی برادری سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ ان منظم اور خطرناک انسانی حقوق کی پامالیوں کا فوری نوٹس لے اور بلوچستان کے مظلوم عوام کو انصاف فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔