فلسطینی نوجوانوں کا مزاحمت اور اسرائیلی ناکام کوششیں
تحریر: امیر ساجدی
دی بلوچستان پوسٹ
7 اکتوبر 2023 کو فلسطینی گوریلا جنگی تنظیم حماس نے “Al-Aqsa Flood Operation” کا آغاز کرتے ہوئے اس آپریشن کو فلسطینی زمین پر اسرائیلی سامراجی مظالم کا جواب قرار دیا. اس حملے کے بعد اسرائیل نے مغربی طاقتوں کی مدد سے فلسطینی زمین پر ایک جنگ شروع کردی جس کی وجہ سے اب تک سینتالیس ہزار لوگ، جن میں معصوم بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں، اسرائیلی ریاستی دہشتگردی سے شہید ہوچکے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ زخمی ہوچکے ہیں.
حماس نے Al Aqsa Flood Operation کیوں کیا؟
2018 سے 2023 کے درمیان فلسطینی زمینوں میں یہودی آبادیوں میں بے حد اضافہ دیکھنے کو ملا. یہ آبادیاں اسرائیلی ریاست کی سرپرستی پر ہورہی تھیں اور وہاں فلسطینی مقامی لوگوں کو ہر طرح کی مایوسی نظر آرہی تھی اور اپنے زمینی حقوق سے محروم ہونے کا درد محسوس ہو رہا تھا. 2022 میں اسرائیلی افواج نے کئی مرتبہ مسجد الاقصیٰ کا بے حرمتی کرتے ہوئے وہاں جوتوں کے ساتھ داخل ہوئے اور لوگوں کو شدید زہنی اور جسمانی تشدد کو نشانا بنایا گیا. 2022 میں کئی مرتبہ حماس، جینن بریگیڈ، اور لائینز ڈین، جینن بریگیڈ اور لائینز ڈین دو فلسطینی نوجوانوں کی مسلح گروہ ہیں جو 2020 میں سامنے آئے، نے اپنی قوم اور لوگوں کا دفاع کرتے ہوئے اسرائیلی افواج پر مسلح حملے کئے اور ان حملوں کو الاقصیٰ مسجد کی بے حرمتی، یہودی نئے سیٹلمنٹ اور اپنے لوگوں پر تشدد کے بدلے میں کیا. اس طرح 7 اکتوبر 2023 کو حماس نے “Operation Al-Aqsa Flood” کا آغاز کرتے ہوئے اسرائیل پر ایک “All-out war” شروع کیا. اس آپریشن میں حماس نے 1400 کے قریب لوگوں کو مار ڈالا جن میں آئی ڈی ایف کے سیکورٹی سولجرز کے ساتھ ساتھ اسرائیلی عام شہری بھی تھے. اس آپریشن میں حماس نے 250 اسرائیلیوں کو یرغمال بناکر اپنے ساتھ لے گئے. اس کے بعد اسرائیل نے فلسطینیوں پر جو مظالم کئے وہ سارے دنیا کے سامنے واضح ہیں.
اسرائیلی ناکام کوششیں
اسرائیل نے 7 اکتوبر کے بعد فلسطین پر ایک خطرناک جنگ کا آغاز کیا. اس جنگ میں اسرائیل نے عہد کیا تھا کہ وہ حماس کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ اسرائیلی یرغمال شہریوں کو ڈھونڈ لے گا. اسرائیل نے اس جنگ میں حماس کے کافی سیاسی اور عسکری لیڈرشپ کو ماردیا جن میں اسماعیل حنیہ، یحییٰ سنوار اور محمد دایف جیسے لیڈرشپ شامل تھے. اسرائیل نے یرغمالیوں کو پانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی مگر سب بے کار ہوگئے. اسرائیل کا دعوعہ تھا کہ حماس نے یرغمالیوں کو فلسطین پر کھودے گئے سرنگوں”Tunnels” میں چھپائے گئے ہیں اور اسرائیلی افواج نے ان tunnels پر پانی چھوڑ دیا تاکہ حماس کے لوگ پانی سے مجبور ہوکر واپس باہر آئیں مگر یہ سارے طریقہ کار بلکل ناکام ہوئے. نومبر 2023 کو اسرائیل اور حماس کے درمیان ایک “Prisoner Exchange” ہوا جس کے تحت حماس نے کچھ اسرائیلی یرغمالیوں کو اسرائیل کے حوالے کیا اور اسرائیل نے کچھ فلسطینی قیدی رہا کردیا. اس عمل کے بعد ایک بار پھر جنگ شروع ہوگئی مگر اسرائیل کو پہلے کی طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا.
حالیہ جنگ بندی اور اسرائیلی افواج کا انخلا
2024 میں امریکہ میں صدارتی انتخابات ہوئے اور ڈونلڈ ٹرمپ نے کامیابی حاصل کی. صدر ٹرمپ 20 جنوری 2025 کو اپنے عہدے کا حلف اٹھانے والا تھا مگر اس سے پہلے اس نے فلسطین میں جنگ بندی پر زور دیا اور سابقہ امریکی صدر جو بائیڈن نے گزشتہ ہفتے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس جنگ بندی کا اعلان کیا. صدر ٹرمپ کی کوششوں سے حماس اور اسرائیل جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے پر رضامند ہوگئے. الجزیرہ کی ایک صحافی نے بات کرتے ہوئے اس جنگ بندی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کاوشوں کی نتائج کرار دیا. یہ جنگ بندی 19 جنوری اتوار کے دن سے شروع ہوا. اس جنگ بندی میں قطر، مصر اور امریکہ کے ثالثون نے اہم کردار ادا کیا. یہ جنگ بندی تین مراحل پر مشتمل تھا. پہلا مرحلہ 60 دن تک جنگ بندی ہے. پہلے مرحلے میں حماس نے تین اسرائیلی یرغمال خواتین کو رہا کردیا اور اس کے بدلے میں اسرائیل نے 90 لوگوں کو رہا کردیا. جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں اسرائیل افواج غزہ کے سنٹرل شہروں سے انخلا کرنا شروع کرے گا مگر غزہ کے کچھ پوزیشنز پر اسرائیلی افواج رہے گی. اسی طرح جنگ کے سولہویں دن اسرائیل اور حماس جنگ بندی کے دوسرے اور تیسرے مرحلے پر مذاکرات شروع کرینگے. اسرائیل کا دعوعہ ہے کہ مکمل یرغمالیوں کی رہائی کے بعد اسرائیلی افواج مکمل طور پر فلسطین سے انخلا کرکے واپس اسرائیل جائیں گے.
موجودہ صورتحال
جنگ بندی کے آخر تک اسرائیل کا دعویٰ تھا کہ وہ حماس اور دوسرے فلسطینی گوریلا تنظیموں کی خاتمے کو یقینی بنانے کے بعد غزہ، خان یونس اور مغربی کنارے کا کنٹرول سنبھالے گا مگر ایسا کچھ نہیں ہوا. حالانکہ اسرائیل اس جنگ بندی کے بعد فلسطین کو چھوڑنے پر راضی ہوا. اس جنگ بندی کے بعد جنگ سے بے گھر ہونے والے فلسطینی واپس اپنے علاقوں میں آرہے ہیں جہان ان کے گھر اسرائیلی بمبوں کے نشانہ بن چکے ہیں. اب وہاں ملبے کی ڈھیروں کے علاوہ کچھ نہیں. اقوام متحدہ کی حالیہ ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی افواج کی بمباری کی وجہ سے فلسطین میں اس وقت پچاس ملین ٹن ملبے پڑے ہیں جن کی صفائی اور واپس تعمیر کےلئے 21 سال اور 1.2 بلین ڈالر کی درکار ہے.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔