بلوچ روایات کا امین استاد اسلم بلوچ
تحریر: دینار بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
وطن و قوم کی آزادی کے لیۓ برسرپیکار راہی منزلوں سے مرعوب ہو کر رکا نہیں کرتے، ایک منزل کا حصول انہیں اگلی منزل کی تلاش پر گامزن کردیتا ہے۔ بہتے ہوئے دریا کے مانند یہ راہی بڑے بڑے چٹانوں کو چیرتے ہوئے سفر کو جاری رکھتے ہیں۔۔۔ تھک بھی جائیں تو بوجھل ہونا ان کا مقدر نہیں ہوتا، اس تھکاوٹ کی لذت کو محسوس کرنا ان کے لیے باعث سکون قلب ہوتا ہے۔۔۔ ہر قدم ان کے کردار و گفتار کو ثابت کرتا چلا جاتا ہے اور مقصد کی رسائی تک سفر یوں ہی جاری رہتا ہے۔
بڑی منزلوں کے مسافر راستے کی مشکلات سے گھبراتے نہیں ، جن کی منزلیں ،خواب اور مقاصد بڑے ہوں ان کو بہت سی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے ،مگر ہمت نہیں ہارتے ہمیشہ ثابت قدم رہتے ہیں ۔
زندگی چند لمحوں کی ہوتی ہےاور چند لمحوں کو بہتر ڈھنگ سے گزارنے کا فن کچھ لوگوں کو آتا ہے ۔ دنیا میں عظیم لوگ وہی ہوتے ہیں جو زندگی کو عظیم مقاصد کے تابع کرکے آخری مشکل حالت میں بھی مسکرا کر قوم و وطن کی خاطر جان نچھاور کرتے ہیں ۔ بلوچستان کے ہر شہر اور ہر گاٶں میں ایسے سپوتوں نے جنم لیۓ اور وطن و قوم کی خاطر قربان ہوۓ ۔ جنہوں نے اس چند لمحوں کو غنیمت جانا اور میدانِ کارزار میں اترے ، دل بھر کے جیۓ زندگی بھر کے لیۓ جاوداں ہوگۓ۔
بلوچ قوم اپنے وطن کی خاطر روز اول سے قربانی دیتا آرہا ہے اور قربانی کا یہ تسلسل آج تک جاری ہے ۔ اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کرے تو تاریخ ہمیں بلوچ وطن کی خاطر قربانی دینے والے ایسے بہت سارے عظیم شخصیات سے متعارف کراتا ہے جو اپنے عمل اور کردار سے عظیم رتبے حاصل کیۓ ہیں۔ استاد اسلم بلوچ کا نام بھی انہی میں ہی شمار ہوتا ہے ۔ اسلم بلوچ کون ہے ۔۔۔۔ استاد اور پھر جنرل تک کا سفر کیسے طے کیا ؟ یہ سب بیان کرنا ، لکھنا حقیقتًا مجھ جیسے کم علم کی بس کی بات نہیں ۔۔۔۔ ایک درد سا جاگ اُٹھتا ہے کہ میں ایک ایسے شخص کے کردار پہ لکھنے جارہا ہوں جس نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ موت سے لڑ کر گزارا ہے ۔
1975 کو کوٸٹہ کے علاقے ٹین ٹاون حاجی غیبی روڈ پر رحیم داد دہوار کے گھر میں پیدا ہونے والے اسلم بلوچ کا بنیادی تعلق مستونگ سے تھا اور چار بھاٸیوں میں سب سے چھوٹا تھا ۔
یہ 1995 کی بات ہے پیغمبرِ انقلاب نواب خیر بخش مری جلاوطنی ختم کرکے جب کوٸٹہ میں اپنے گھر میں نوجوانوں کو جمع کرکے ایک اسٹڈی سرکل کا انعقاد کرتا ہے ان سرکلوں میں فلسفیانہ موضوعات کے ساتھ ساتھ سیاسی موضوعات پر بھی تعلیم دیتا ہے۔ یہاں بلوچ نوجوانوں کو احساس دلاتا ہے کہ ہم کس طرح غلام ہیں ۔۔۔۔۔ آنے والے وقتوں میں بحیثیتِ بلوچ ہم پر کن زمہ داریوں کا بوجھ ہے؟ جی ہاں ان ہی سرکلز کو بعد میں حق توار کا نام دیا جاتا ہے اور یہیں سے ایک نٸی نسل کی جنم ہوتی ہے ۔۔۔۔۔ اور اسلم بلوچ بھی یہیں سے اس فیصلے پر ہہنچتا ہے کہ بلوچ کی آزادی صرف اور صرف مسلح جدوجہد سے ممکن ہے ۔ 1995 سے استاد اسلم بلوچ مسلح کارواٸیوں کا زیرِزمین آغاز شروع کرتا ہے اور 2000 ء میں باقاعدہ الاعلان یہ مسلح کارواٸیاں شروع کردیتا ہے ۔
اسلم بلوچ بہت متحرک رہتا ہے ، بے پناہ صلاحیتوں کے مالک یہ شخص بولان میں اپنا ایک کیمپ قاٸم کرکے اپنے چند مخصوص اور بااعتماد ساتھیوں کے ساتھ ایک نۓ مسلح جنگ کا آغاز کرتا ہے ۔ بقول استاد اسلم بلوچ جب ہم نے اس مسلح جدودجہد کا آغاز کیا تو ہم اس وقت چند لوگ تھیں ہمیں یقیںن بھی نہیں تھا کہ اتنے سارے لوگ ہمارے ساتھ شامل ہونگے اور یہ کاروان مستحکم ہوکر آگے بڑھتا جاۓ گا ۔
جنرل اسلم کا تحریک عروج و زوال ، تیز و سستی ، کامیابی و ناکامی کے مختلف مراحل طے کرکے آج تک جاری و ساری ہے ۔ استاد اسلم بلوچ یہ بالکل بھی نہیں چاہتا کہ اسٹیک ہولڈرز اس تحریک پر اپنے گرفت مضبوط رکھ سکے بلکہ وہ چاپتا تھا کہ یہ ایک سیاسی اور شخصی اجارہ داری سے پاک تنظیم کے طور پر ابھر سکے اور ایک واضح تنظیم رہے ۔ لیکن بقول بشیر زیب بلوچ 2011 کے بعد ہم نے دو تبدیلیاں دیکھنا شروع کردیں، اول یہ کہ بی ایل اے کے انتظامی صورتحال کو دانستہ طور پر اتنا سست اور پیچیدہ کردیا گیا کہ اسکے اثرات براہ راست بی ایل اے کے جنگی صلاحیتوں پر پڑنے لگے اور دوئم بی ایل اے کے بنیادی نظریئے و بیانیئے کو بدلا جانے لگا۔ انتظامی سست روی سے تقریباً جہد کاروں کو بیکار بٹھایا جانے لگا اور پھر انتہائی غیر اہم مباحث میں الجھا دیا گیا اور دوسری طرف جو بی ایل اے کا بنیادی فلسفہ تھا کہ “بلوچ قوم ہی ہمارے قوت کا سرچشمہ ہے اور اپنے قوت بازو پر اس جنگ کو منظم کرکے آزادی حاصل کی جائیگی” اس کو بدل کر یہ پرچار شروع کردیا گیا کہ بلوچ اس جنگ کو بغیر کسی بیرونی قوت کے حمایت کے نہیں جیت سکتا، لہٰذا اب مزید شہادتیں اور قربانیاں بیوقوفی ہونگی، بس اب بیرون ممالک جاکر سیاست کی جائے اور مدد مانگی جائے۔ یعنی ہزاروں شہادتوں کے بعد یاد آتا ہے کہ مرنا ضروری نہیں بلکہ بیرون ملک بیٹھنا چاہیئے تھا، یقیناً یہ فلسفہ آرام پسند ذہنیت کو بھاتی ہے، اور اس خیال کے گرد ہمیشہ ایک حلقہ جمع بھی رہے گا لیکن یہ بلوچ کی آزادی کے تقاضوں سے کوسوں دور بیانیہ ہے۔
جب اسلم بلوچ تنظیم کی طریقہ کار پر سوال اُٹھا کر ازسرے نو ادارہ بندی کا مطالبہ کردیتا ہے تو کوشش کی جاتی ہے کہ استاد اسلم بلوچ کو تنظیم سے نکال دیا جاۓ ۔ شاید یہ سب وہی باتیں تھیں جن کا ادراک استاد واحد کمبر کو 2003 میں بھی تھا ۔ بقول استاد واحد کمبر :
غالبا دوہزار دویا تین کو حیربیار مری نے ہمیں دبئی بلایا اورایک میٹنگ کا انعقادکیا جس میں راقم کے علاوہ حیربیار مری ،شہیدامیربخش ،استاد اسلم بلوچ ،حسنین جمالدینی ،نبی دادمری شامل ہوئے۔ یہ میٹنگ شاید میرحیر بیارمری نے پرانے تعلقات کی بناء پر بلایا تھا مگر میں ذہنی طورپر شخصی اجارہ دارانہ جدوجہد سے مایوس ہوچکا تھا اور ہم متبادل کے طورپر بی ایل ایف کا قیام عمل میں لاچکے تھے۔اس میٹنگ میں بھی حیر بیار اُسی طریقہ کارپر مصر تھا۔ شایدتنظیم کی ضرورت محسوس کرنے والے احباب نے تسلی کے لئے بی ایل اے کے نام سے جدوجہد کرنے پر زوردیا۔ میرے نزدیک بی ایل اے کسی واضح تنظیمی ڈھانچہ اور دستور سے محروم فقط ایک نام تھاجس پر ایک فردکی اجارہ تھی۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ اس میٹنگ میں حیربیار نے کہاکہ ’’میرے جیل جانے یا کسی دوسرے حادثاتی یا طبعی موت کے بعد میرا بھائی زعمران میرا جانشین ہوگااوروہی اس مشن کوآگے بڑھائے گا ‘‘.
استاد واحد کمبر مزید رقم طراز ہے کہ :
میں ایک جہدکار کی حیثیت سے محسوس کررہاہوں کہ بلوچوں کی باقی جتنی تنظیمیں ہیں ان میں جمہوریت ،سیاسی شعور ،اختیار کی تقسیم اورجمہوری مرکزیت کی کمی ہے ۔میں یہ بات دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ ان تنظیموں میں اختیارات کی تقسیم کی فقدان ہے اورفرد واحد کی حکمرانی ہے۔ جمہوریت مرکزیت سے لے کر اورسیاسی اداروں کی کمی ہے ۔۔میں پھر سے دوستوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ اگر وہ بلوچستان کی آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں تو اس جنگ میں انہیں ایسے منظم سیاسی تنظیم کی اشد ضرورت ہے جسے واقعتاتنظیم یا قومی پارٹی کہاجائے ،اوران میں پالیسی ساز ادارہ ہوناچاہئے اورادارے میں جمہوری مرکزیت ہونا چاہئے۔ فرد واحد نہ تنظیم چلاسکتا ہے اورنہ ہی آزادی حاصل کرسکتی ہے۔ میرا دوستوں کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ قومی آزادی کے جدوجہدکے لئے اس عالمی سچائی کا ادراک کریں کہ اس جدیددورمیں شخصی اجارہ داری ایک دقیانوسی اور فرسودہ سوچ ہے،اس سے چھٹکارہ پانے کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے حاصل وصول سوائے زیاں کے کچھ نہیں”۔
2017 میں تمام سینٸر ساتھی اس نقطے پر متفق ہوۓ اور تنظیم نو کی باقاعدہ ادارے تشکیل دیۓ گٸے اور پھر ان ہی اداروں نے استاد اسلم بلوچ کو تنظیم کا باقاعدہ سربراہ مقرر کر دیا گیا اور 17 اگست 2018 کو بی ایل اے کے سینئر کمانڈ کونسل اور آپریشنل کور کمیٹی نے بیرون ملک مقیم ایک شخص کو تنظیم کے بنیادی رکنیت سے فارغ کرکے یہ اعلان کیا کہ بی ایل اے کا بیرون ملک کوئی بھی نمائیندہ موجود نہیں اور پھر یوں تنظیم شخصی اجارہ داری سے نکل کر عوامی تنظیم بن گٸی اور پھر دن بہ دن کارکردگی میں جدت آتی گٸی ۔ اور 2011 کے بعد سے منجمد رکھی فداٸی یونٹ کو بھی فعال کردیا جاتا ہے اور کارواٸی کرنے والا اٹھارہ سالہ لڑکا استاد اسلم کا سگاہ بیٹا ریحان ہوتا ہے ۔ استاد اسلم کا بھی ایک ویڈیوں پیغام شاٸع کر دیا جاتا جس میں استاد اسلم بلوچ ایک امریکن گن پکڑا دکھاٸی دیتا ہے اور کہتا ہے
”جب آپ کے سامنے والے کے ہاتھ میں بندوق ہو آپ پھول نہیں اُٹھا سکتے ، یہ بندوق انہوں نے اُٹھایا ہے ، توپ جہاز ان کے پاس ہیں، ہم تو اپنی دفاع کر رہے ہیں ، ہم اپنی سرزمین اور قوم کا دفاع کررہے ہیں اور اس دفاع کے لیۓ ہم آخری حد تک جانے کے لیۓ تیار ہیں۔ یہ سرزمین بلوچوں کی ہے ہزاروں سال سے ، یہ ہماری سرزمین ہے ، اس کے وساٸل ہمارے ہیں ، اس پہ فیصلہ کرنے کا اختیار حق ہمارا ہے “
بلوچستان کے موجودہ حالات اور آزادی کی جاری تحریک پر گہری نظر رکھنے والے صحافی، سلام صابر گذشتہ ایک دہائی کے دوران متعدد بار مختلف جرائد کیلئے انٹرویو لینے کی غرض سے اسلم بلوچ سے مختلف خفیہ مقامات پر ملاقاتیں کرچکے ہیں۔ اس دوران بطور صحافی سلام صابر کو اسلم بلوچ کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ دی بلوچستان پوسٹ نے سلام صابر سے ایک دفعہ بات چیت کے دوران یہ دریافت کیا کہ انہوں نے اسلم بلوچ کو علمی و سیاسی شعور کے حوالے سے کیسے پایا تو انکا کہنا تھا کہ “آپ کسی بلوچ گوریلہ کمانڈر کا جیسا روایتی خاکہ اپنے ذہن میں رکھتے ہیں، اسلم بلوچ اسکے بالکل برعکس تھا۔ مختلف جرائد کیلئے، کئی بار مختلف خفیہ مقامات پر میری اسلم بلوچ سے ملاقاتیں ہوئیں ہیں اور ہر بار میں انکے ہمراہ بندوق کے ساتھ ساتھ کتابوں کا ایک بنڈل دیکھتا۔ انہیں مطالعے کا بے حد شوق تھا۔ اور انکا مطالعہ بے حد وسیع تھا۔ فلسفہ، تاریخ، اور علم نفسیات پر انہیں بہت عبور حاصل تھا۔ وہ سوالوں کا سیدھا لیکن گہرا و غیر پیچیدہ جواب دیتے تھے۔ سب سے خاص بات انکی تحریریں تھیں، اگر آپ انکی تحریریں پڑھیں تو آپ یقین نہیں کرسکتے کہ یہ تحریریں کسی ایسے شخص کی ہیں جو صرف دسویں جماعت تک پڑھا ہے، بلکہ انکی تحریروں کے رموز، الفاظ کا چناؤ، خیال کی گہرائی اور دلائل آپکو یہ تاثر دیں گے کہ یہ کسی اعلیٰ ادارے سے ڈاکٹریٹ کیئے ہوئے شخص کی تحریریں ہیں۔ اسلم بلوچ ایک جنگجو تھے، لیکن انکی جنگ مکمل طور پر انکے سیاسی نظریات کے تابع تھی۔ گوکہ وہ اپنے نظریات پر سخت گیر موقف رکھتے اور اٹل رہتے، لیکن وہ سامنے والے کی بات بہت غور سے سنتے اور اگر انہیں بھاری دلائل دیئے جاتے تو وہ سامنے والے کی بات بلا دلیل مسترد نہیں کرتے۔”
استاد اسلم بلوچ کو بلوچستان کی آزادی کی تحریک میں اسلیئے بھی ایک نمایاں حیثیت حاصل ہے کہ وہ باقی بلوچ رہنماؤں کے برعکس نا کوئی بڑا قبائلی پس منظر رکھتے تھے اور نا ہی سیاسی، لیکن انہوں نے محض اپنی قابلیت، محنت اور مستقل مزاجی سے ایک سپاہی سے “جنرل” تک کا سفر طے کیا۔ شاید اسی لیئے بی ایل اے کے اندرونی حلقوں میں ایک اعلیٰ کمانڈر ہونے کے باوجود، انہوں نے ایک نئی بحث و تحریک شروع کردی، جس کا مطمع نظر یہ تھا کہ تنظیم کو مکمل اداراجاتی و جمہوری ساخت میں ڈھالا جائے اور اختیار و سربراہی کا معیار قبائلی پس منظر کے بجائے قابلیت پر ہو۔ جو بی ایل اے کے اندر اختلافات کا باعث رہی، جو بالآخر تنظیم کے ایک قدامت پسند حلقے کے علیحدگی، از سر نو ادارہ سازی اور اسلم بلوچ کی سربراہی پر منتج ہوئی۔
اس طویل سفر میں استاد اسلم بلوچ نے کن مشکلات کا سامنا کیا ہم جیسوں کی سہنا تو دور کی بات شاید سننا بھی برداشت نہ کرسکیں ، ان کے خاندان کے کٸی افراد لاپتہ کردیۓ گیۓ کٸی کی لاشیں پھینکی گٸی جن میں ان کے بھتیجے بھی شامل ہیں ، ان کے ہمشیرہ کو بھی جبراً لاپتہ کر دیا گیا ۔۔۔ استاد اسلم خود عارضہ قلب میں بھی مبتلا تھا ان کا اوپن ہارٹ سرجری بھی ہوا اور 2017 میں وہ پھر عارضہ قلب کے پیچیدگیوں کی وجہ سے انتہاٸی نازک صورتحال سے گزر رہے تھے ۔۔۔۔ بولان میں دشمن فوج کے ساتھ دوبدو لڑاٸی میں وہ شدید زخمی بھی ہوۓ تھے ۔۔۔۔ لیکن ان سب مشکلات کے باوجود وہ ہمیشہ ثابت قدم رہے۔۔۔۔۔ استاد اسلم وطن کی آزادی کے لیۓ نہ صرف خود قربان ہونے کے لیۓ تیار تھے بلکہ اپنا اہل و عیال تک کو قربان کے لیۓ تیار تھے اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں جب ٹی بی پی نماٸندہ مجید برگیڈ کے لاجسٹک سپورٹ یونٹ کے انچارج ، اسلم بلوچ کے دیرینہ اور بااعتماد ساتھی بزگر بلوچ سے پوچھتا ہے کہ اسلم بلوچ نے کیا سوچ کر اپنے بڑے بیٹے کو فدائی مشن پر بھیجنے کا فیصلہ کیا؟ وہ تھوڑا سوچنے کے بعد ایک طویل گفتگو شروع کرتے ہوئے بولا “جب ریحان فدائی حملے کا فیصلہ کرچکا تھا اور حملے کی تیاری مکمل ہوچکی تھی، تو ایک ہمدرد دوست نے اسلم بلوچ کو اپنا بڑا فدائی حملہ کرنے کیلئے نا بھیجنے کا مشورہ دیا۔ وہ زور دیتے ہوئے بول رہا تھا کہ “کل کو ریحان تمہارا وارث و جانشین بنے گا، تمہیں اسطرح خود کو لاوارث نہیں کرنا چاہیئے۔ اگر تمہیں خود کش حملہ ہی کروانا ہے تو ایسے مدرسہ نما خود کش حملہ آوروں کی فیکٹریاں ہیں، جہاں دس لاکھ روپے میں تیار خود کش حملہ آور مل جاتے ہیں، وہاں سے ایک خرید لو۔” اسلم نے اسے سختی سے ٹوکتے ہوئے جواب دیا تھا کہ “اگر آج ہم خود کو اور اپنے بچوں کو قربان کرنے سے کترائیں گے، تو کل ہم کس منہ سے بلوچ ماؤں سے انکے لخت جگروں کی قربانی مانگیں گے؟ آزادی صرف انکا حق ہے، جو کسی غیبی طاقت یا کرائے کے قاتل کے انتظار کے بجائے اپنی جنگ خود لڑتے ہیں، اپنی قربانی خود دھان کرتے ہیں۔ آج ایک ریحانو جائے گا تو کل سو بہادر بلوچ بچے اور پیدا ہونگے۔ مقصد صرف ایک خود کش دھماکہ نہیں ہے بلکہ یہ راستہ دکھانا ہے کہ اس سے آگے یہ لڑائی کیسے لڑنی ہے۔ ایک ریحان کے جانے سے میں لاوارث نہیں ہونگا، میرا وارث میری قوم رہیگی۔”
ٹی بی پی نماٸندہ کے بقول طویل خاموشی کے بعد بزگر خان زیر لب بولنے لگا “اسلم ایک بہادر شخص تھا، لیکن اسکا دشمن بہادر نہیں ہے، اسلم نے جن دس لاکھ کے خودکشوں کو ٹھکرا دیا تھا، اسکے دشمن نے براہ راست مقابلہ کرنے کے بجائے، دس لاکھ کا خود کش حملہ آور بھیج کر اسے شہید کردیا۔”
بقول بشیر زیب بلوچ
”اسلم بلوچ نے ورثے میں ایک منتشر لشکر نہیں چھوڑا، بلکہ انہوں نے ڈیڑھ سال کے قلیل عرصے میں ہی وہ ادارے قائم کرلیئے، جو انکا خواب تھا، اسلیئے روایات کے برعکس انکے جانے کے بعد بی ایل اے کی سربراہی نا انکے خاندان کو منتقل ہوئی نا ہی قبیلے کو۔۔۔۔۔۔۔ “ بلکہ پہلی بار جمہوری انداز میں قیادت تعلیم یافتہ نوجوان طبقے کو منتقل ہوگئی۔
اسلم بلوچ ایک باعمل انسان تھے، اسلیئے جہاں انکے ساتھیوں کا حلقہ وسیع ہے، وہیں انکے مخالفین بھی ہیں لیکن کوئی بھی انکے کردار کے اونچائی سے انکار نہیں کرسکتا۔ وہ ان انسانوں میں سے تھے، جو وقت سے پہلے مرتے ہیں، لیکن تیز جیتے ہیں اور وقت سے زیادہ جیتے ہیں۔
استاد اسلم بلوچ ۔۔۔ بلوچ قوم کے نام اپنے آخری خطاب میں کہتے ہیں کہ میں بہت بہت شکر گزار ہوں ان ماں ، بہنوں کا جو اپنے بیٹوں کو ،شوہر کو ، اپنے بھائیوں کو اس جہد میں شامل کر رہی ہیں، وہ آج جہد کررہے ہیں، انکی دوری کو انکے درد کی تکلیف کو برداشت کررہے ہیں۔ انکو میں سلام پیش کرتا ہوں۔میں دوسری ماں بہنوں کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی سرزمین کی دفاع، اپنے قوم کی دفاع کیلئے اس حیاء اور غیرت کے راستہ سے نہ روکیں آپکی لوری، آپکی نصیحت یہی ہو کہ مرد وہی ہے جو اپنے وطن کی دفاع کرے، غیرت والا وہی ہے جو اپنے وطن کیلئے کھڑا ہو، حیاء والا وہی ہے جو اپنے قوم اور راج کیلئے مرے، غیرتی کہیں، حیائی کہیں ، قوم کیلئے کہیں وہی ہے جو اپنے دوست اور دشمن کی پہچان رکھے، قومی نفع اور نقصان کو سمجھے، اس پر ثابت قدم ہو، میری ان ماں اور بہنوں سے ہاتھ جوڑ کر التجاء ہے کہ وہ اس جہد میں اپنا حصہ مزید بڑھائیں،زیادہ سے زیادہ اس میں خود بھی شامل ہوں، اور اپنے اولادوں کو بھی شامل کریں۔
استاد اسلم کے اس خطاب سے لگتا ہے کہ استاد نے اپنا کام مکمل کرلیا ہے اور تحریک کو اب بلوچ قوم کے حوالے کر کے خود ہم سے جسمانی طور پر جدا ہورہا ہے ۔
دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں