تونسہ شریف، کوہ سلیمان میں کینسر نے پنجے گاڑھ دیئے، کینسر مریضوں کی شرح میں بے انتہا اضافہ ہو گیا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق یہاں ہر گھر، خاندان یا گاؤں جہاں پر نومولود بچوں اور نوجوانوں سے لے کے ادھیڑ عمر تک کوئی بھی کینسر سے نہیں بچ پا رہا ہے۔
جس طرح کینسر کی شرح میں شدت سے اضافہ دیکھنے کو آ رہا ہے تو وہیں شاید کینسر کی شرح میں تیزی کے باعث ماضی قریب میں ڈیرہ غازی خان،تونسہ شریف،کوہ سلیمان کے باسی کوئی بھی اوسط عمر تک نہ پہنچ سکے۔
دی بلوچستان پوسٹ کو ملنے والے اعداد شمار کے مطابق گزشتہ ایک دہائی سے یہاں روزانہ نئے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں، اور اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں کیے جا رہے۔
ڈاکٹر محمد شریف بزدار، سربراہ، شعبہ سوائل سائنس، بلوچستان زرعی کالج کے مطابق کوہ سلیمان میں کینسر کے بڑھتے ہوئے کیسز کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہو سکتے ہیں۔ جن میں زیر زمین پانی میں بھاری دھاتوں اور زہریلے عناصر کی موجودگی کا خدشہ ہے، جو پینے اور خوراک کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو کر کینسر کا سبب بن رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اسی طرح معدنی وسائل کے غیر ذمہ دارانہ استعمال اور دھماکہ خیز کان کنی نے علاقے کی فضا کو زہریلا بنا دیا ہے، جو کینسر سمیت دیگر بیماریوں کے خطرے کو بڑھا رہے ہیں۔
ڈاکٹر ایوب کے مطابق اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ خطرناک دھاتیں قدرتی طور پر ہماری زمین میں موجود ہیں، جو زرعی پیداوار کی کاشت، مویشیوں کے چارہ کھانے، یا دیگر ذرائع سے انسانوں تک منتقل ہو رہی ہیں۔
اسی طرح غیر معیاری خوراک، کیمیکل زدہ کھادوں سے اگائی جانے والی اشیاء، اور غذائی قلت بھی بیماری کے اہم اسباب میں شامل ہیں۔
جبکہ بنیادی صحت کے مراکز کی عدم دستیابی اور ابتدائی تشخیص کی سہولتوں کا فقدان اس بیماری کی شدت میں اضافہ کر رہا ہے۔
انکے مطابق حکومت کی بے توجہی اس سنگین مسئلے کو مزید بڑھا رہی ہے۔ کینسر کے کیسز میں مسلسل اضافے کے باوجود صحت کی بنیادی سہولتیں مہیا نہیں کی جا رہی، نہ ہی پانی کے معیار کو بہتر بنانے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
مقامی رہائشی سجاد گورمانی نے بتایاکہ ڈیرہ غازی خان سمیت کوہ سلیمان کی پوری پہاڑی پٹی کینسر کی شدید لپیٹ میں ہے ۔پورے کے پورے گاؤں متاثر ہیں۔ میری بیٹی دو سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے کینسر سے لڑ رہی ہے۔ جس سے میرا پورا خاندان مشکلات کا شکار ہوا ہے ۔میرے گاؤں میں 60 کے قریب گھر ہیں ۔جن میں سے تصدیق شدہ کینسر کے مریضوں کی تعداد 14 کے قریب ہے اور غریب علاقہ ہونے کی وجہ سے جو بغیر تشخیص کے اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں ان کی تعداد الگ سے ہیں۔ مجھ سمیت ہر شخص یہ جانتا ہے کہ ڈیرہ غازی خان میں کینسر پھیلنے کی کیا وجوہات ہیں۔ لیکن ہم اواز نہیں اٹھا سکتے کیونکہ ریاست ہمیں غدار بنانے کے لیے تیار بیٹھی ہے۔ لیکن اب ہم زندہ بچنے والے نہیں ہیں اگر ریاست کے جبر سے بچ بھی گئے تو کینسر ہمیں مار دے گا۔
مقامی لوگوں نے دی بلوچستان پوسٹ کو بتایا کہ رواں سال دسمبر میں ابتک دس کے قریب افراد کینسر کی وجہ سے زندگی کے بازی ہار چکے ہیں جبکہ گذشتہ ہفتے ایک گھر میں پانچ افراد میں کینسر مرض کی تشخیص ہوئی ہے۔
ایک مقامی شخص ریاض کے مطابق آج کھرڑ بزدار میں حاجی نذر محمد ملا کینسر کی جنگ لڑتے فوت ہوگئے۔ اسی طرح سربل ماڑکی رسول بخش گوارنانی کا والدہ پاندھی کا اہلیہ کینسر سے انتقال کر گئے ہیں ۔
مقامی نوجوان علاقائی سطح پر احتجاج اور سوشل میڈیا کمپین کے ذریعے تونسہ میں ایک کینسر اسپتال کا مطالبہ کررہے ہیں، واضح رہے کہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے علاقے میں کینسر اسپتال کا اعلان کیا تھا تاہم وہ ابتک نہیں بنایا جاسکا ۔
مقامی ڈاکٹر منصور احمد بزدار نے مطالبہ کیا ہے کہ ڈیرہ غازی خان کینسر زدہ قرار دیا جائے اور ہنگامی بنیادوں پر کینسر ہسپتال بنایا جائے۔ انکے مطابق جب مقامی لوگ صحت اور بنیادی حقوق کی بات کرتے ہیں تو انہیں دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے ۔
مقامی سوشل ایکٹوسٹس کا یہی کہنا ہے اٹامک انرجی پلانٹ کی وجہ سے علاقے میں کینسر کی بیماریاں خطرناک حد تک بڑھ گئی ہیں اور قیمتی جانیں ضائع ہورہی ہیں۔ جب تک انکا تدارک نہیں کیاجاتا ہے یہ سنگین صورتحال اختیار کرتا جائے گا ۔