حمیدہ بلوچ کی قبر غلامی کا احساس دلاتی ہے
تحریر: عمران بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
غلامی استحصال کو جنم دیتی ہے، اور استحصال غربت کو، اسی لیے استحصال قابض کا سب سے موثر ہتھیار ہوتا ہے۔ قابض مقبوضہ قوم کی قدرتی وسائل کو لوٹ کر انھیں ہر سطح پر غریب اور پسماندہ رکھنا چاہتے ہیں، تاکہ مقبوضہ قوم بس اپنے بنیادی ضرورتوں میں پھنسا رہے، اور کھبی سنبھل نہ پائے، اس طرح وہ اپنے بنیادی مسلہ یعنی قومی غلامی اور اغیار کی لوٹ کھسوٹ کی جانب کھبی متوجہ نہیں ہو پائے۔
میری نظر میں کامریڈ حمیدہ بلوچ کا معاملہ کچھ اسی طرح کا ہے، ان کے معاملے میں بھی غلامی نے استحصال کو جنم دیا ، اور پھر استحصال نے غربت اور بےبسی کو ، اور پھر آخر میں غربت و غلامی نے انھیں ابدی نیند سلا دی۔ لہٰذا ہمیں حمیدہ بلوچ کی جسمانی بیماری کے ساتھ ساتھ اصل بیماری کی جانب توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ قبضہ گیریت کی بدولت ہی تھی کہ حمیدہ بلوچ کی چھوٹی عمر میں اس وقت شادی ہوگئی تھی، جب اس کے کھیلنے کودنے کے دن تھے، اسی غلامی نے ہی اسے چھوٹی سی عمر میں سڑکوں پر قومی استحصال کے خلاف جدوجہد کرنے پر مجبور کیا۔
أج کے بلوچستان میں معاملات کو سمجھنے کے باوچود چھوٹی عمر میں شادی کرنے، اپنی تعلیم ادھوری چھوڑنا، چھوٹی عمر میں جبری گمشدگیوں کے خلاف پریس کلبوں کے سامنے بھوک ہڑتالی کیمپ لگا کر بیٹھنا، زچہ و بچہ کی بیماری کی وجہ سے مرنا، قابض اور اس کے ڈیتھ اسکواڈز کی طرف سے لوگوں کے گھروں اور جدی پشتی زمینوں پر قبضہ کرکے انھیں وہاں سے بے دخل کروانا، ان کے ازدواجی رشتے ختم کروانا، کہ اپنے عزیز اقارب کو سرنڈر کرواو، ایسے میں بہت سے کمزور سوچ کے لوگ قابض کے اہلکار بننے پر مجبور ہوتے ہیں ۔
یہی کچھ حمیدہ بلوچ کی داستان ہے۔ ان کا تعلق أواران سے تھا، پورے بلوچستان کی طرح مشکے أواران کے حالات خراب ہوئے اور حمیدہ بلوچ کی ایک بھائی شہید کر دئے گئے ۔ اس کے بعد أواران میں ان کے خاندان کے لیے زمین تنگ کر دی گئ، تو ان کا خاندان وندر منتقل ہوا، جہاں وہ نہ صرف سیاسی طور پر متحرک ہوئ بلکہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے اوتھل یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور (بساک) کی زونل عہدیدار بن گئی۔
ان کے ایک اور بھائی کو حسب معمول جبری طور پر گمشدہ کیا گیا تو حمیدہ نے ان کے بازیابی تک دن رات ایک کردیے۔ خاندانی زرائع کے مطابق جس انسان نے ان کے ساتھ زندگی بھر نبھانے کا وعدہ کیا تھا انھوں نے صرف اس وجہ سے حمیدہ سے علحیدگی اختیار کی کہ ان کا اور ان کے خاندان کی سوچ قوم پرستانہ کیوں ہے؟ اس طرح حمیدہ نے ان کے ساتھ چلنے کے بجائے اپنی قوم کے ساتھ چلنے کو ترجیح دی۔
حمیدہ بلوچ کے دو معصوم بچے ہیں جو ان کے ساتھ رہتے تھے، حمیدہ نے ہر طرح سے ان کا خیال رکھا اور انھیں شال میں رکھا کہ بچے پڑھ لکھ سکے۔ اس دوران سرزمین کو درپیش ہر جبر کے خلاف وہ سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی رہی، مگر شومئ ءقسمت کہ کینسر جیسے موزی مرض نے انھیں اچانک أن گھیرلیا۔
بچوں کی پیدائش کے وقت میڈیکل کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے حمیدہ کی (ورم) کو انفیکشن لگا تھا، جو کینسر کی شکل میں بدلہ اور أہستہ أہستہ وہ مرض ان کی موت کا باعث بنا ۔
انھیں شروع سے اس درد کا معلوم تھا مگر وہ اسے برداشت کرتی رہی اور خاموش رہی، کھبی بھی شکایت نہیں کی اور سیاسی طور پر متحرک رہی، حتی کے أخری وقت میں بھی وہ ایک جنگجو کی طرح ڈھٹی رہی۔
وہ اپنی بیماری کو چھپانا چاہتی تھی ، یہاں تک کے بیماری کی وجہ سے انھیں مالی مشکلات نے گھیر لیا مگر اس نے اپنے خاندان کو سختی سے منع کیا کہ یہ بات لوگوں کو پتا نہ چلے۔
حمیدہ بلوچ اس دیس کی باسی تھی جہاں سے سونا، چاندی اور گیس سمیت ہر طرح کی معدنیات نکلتی ہیں، اور انھیں قدرتی وسائل کی بدولت قابض کا وہ سپاہی جو أتے وقت ایک دوتی میں ہوتا ہے اور واپسی پر لوٹ مار کے زریعے اتنی دولت لیکر جاتا ہیکہ وہ جزیرے خرید لیتا ہے، مگر حمیدہ جیسی زمین زادیوں کے لئے علاج کے پیسے اکھٹا کرنا نا ممکن ہوجاتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ قومی غلامی اور قابض کے استحصال نے حمیدہ کا قتل کیا ہے اور اسی لیے میں حمیدہ بلوچ کی قبر کو دشمن کی طرف سے دیے گئے علامت کے طور پر دیکھتا ہوں۔
دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں