طلباء کی جانب سے ساتھی طالب علموں کی عدم بازیابی کے خلاف ریلی نکالی گئی اور احتجاج ریکارڈ کرایا گیا۔
تین سال قبل جامعہ بلوچستان سے جبری گمشدگی کا نشانہ بننے والے نوشکی کے رہائشی سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ کی طویل جبری گمشدگی اور عدم بازیابی کے خلاف بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کی جانب سے کوئٹہ میں ریلی نکالی گئی اور مظاہرہ کیا گیا۔
طلباء نے بلوچستان یونیورسٹی سے کوئٹہ پریس کلب تک ریلی اور پریس کلب کے سامنے دھرنا دیا۔
کوئٹہ پریس کلب کے سامنے دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ بلوچستان گمشدہ استان بن چکا ہے جہاں ابتک ہزاروں افراد کو ماورائے عدالت و قانون گرفتار کرکے لاپتہ رکھا گیا اور سالوں سے بغیر کسی ٹرائل کے بلوچ نوجوان حراستی مراکز میں قید و بند سہہ رہے ہیں۔
مقررین کا کہنا تھا بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا نشانہ بننے والوں میں طلباء سے لیکر کسان، استاد سمیت ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں یہاں تک کے لوگوں کو انکے تعلیمی اداروں سے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
جبری گمشدگی کا نشانہ بننے والے سہیل و فصیح بلوچ کی جبری گمشدگی کے حوالے سے مظاہرین کا کہنا تھا کہ تین سال قبل دونوں طلباء کو انکے ہاسٹل سے جامعہ بلوچستان کے اندر سے پاکستانی فورسز نے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا تھا جو تین سال گزر جانے کے باوجود منظر عام پر نہیں آسکے ہیں۔
کوئٹہ مظاہرین میں طلباء و شہریوں کے ہمراہ دیگر جبری گمشدگی کا نشانہ بننے والے افراد کے لواحقین بھی شریک ہوئے اور اپنے لاپتہ پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔
مقررین کا مزید کہنا تھا کہ ایک بار پھر بلوچستان میں جبری گمشدگیوں میں شدت لائی گئی ہے جہاں بلوچستان اور دیگر علاقوں سے بلوچ طلباء کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جارہا ہے، صرف ماہ اکتوبر میں 70 سے زائد افراد جبری گمشدگی کا نشانہ بنے جن میں زیادہ تر طالب علم تھے اور انھیں انکے ہاسٹل اور گھروں سے جبری لاپتہ کیا گیا۔
طلباء نے مطالبہ کیا ہے کہ عالمی اقوام انسانی حقوق کے ادارے اور پاکستان کے طلباء تنظیمیں اس جبری کے خلاف کھڑے ہوکر ریاست سے سوال کریں اور بلوچ طلباء کی بازیابی میں اپنا کردار ادا کریں۔