کوئٹہ: جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج جاری

44

بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے طویل بھوک ہڑتالی کیمپ کو آج 5375 دن مکمل ہوگئے، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی چیئرمین جیئند بلوچ ساتھیوں سمیت کیمپ  آکر اظہار یکجہتی کی۔

کیمپ آئے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مرکزی وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ظالم مظلوم، حاکم محکوم قابض اور مقبوض کے درمیان جنگ کے واقعات سے بھری دنیا کی تاریخ میں طاقتور اور زورآور اقوام کا کمزور اور زیر دست اقوام پر ظلم و جبر اور تشدد نئی بات نہیں بلکہ ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے کہ جب کوئی طاقتور قوم اپنے مخصوص مفادات کی تکمیل کے لئے کسی کمزور قوم کی آبائی سرزمین پر قبضہ جماکر اسے غلام بناتا ہے تو وہ اس قوم کے ہر طبقے کے افراد ماسوائے چند بے ضمیر غداروں کے عمر جنس سے بالاتر ہوکر اپنا دشمن تصور کرکے تہذیب مروجہ اصول اور جنگی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان ظلم کے پہاڑ توڑنے میں کسی پس پیش سے کام نہیں لیتا۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ٹھیک اسی طرح بلوچ سرزمین پر قبضہ جمانے کے بعد ریاست پاکستان نے بلوچ قوم کی آواز کو دباکر اسے صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے فوجی کارروائی، فضائی کارروائی، حراستی قتل، انسانیت سوز تشدد سمیت ہر قسم کی وحشیانہ ہتھکنڈے استعمال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا اپنے قبضے کے ساتھ سے ہی قابض نے بلوچ قوم پر ظلم و جبر کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کیا تھا جو پوری آب تاب کے ساتھ ہنوز جاری ہے، 1973 میں سامراجی عطا کردہ کوبرا ہیلی کاپٹروں کی مدد سے بلوچ گدانوں خاص طورپر کوہستان مری میں پانچ سال تک مسلسل بمباری کرکے خواتین، بچوں اور پیراں سال بزرگ سمیت ہزاروں معصوم بلوچوں کو موت کی آغوش میں دھکیل دیا گیا مگر پھر بھی بلوچ قوم کی آواز کو دباکر اسے چپ کرنے میں یکسر ناکام رہا۔

انہوں نے کہا 2002 سے شروع پاکستان اور بلوچ قوم کے درمیان موجودہ جنگ میں ہزاروں بلوچ فوج کی وحشت و بربریت کا نشانہ بنے ہیں 2005 میں ڈیرہ بگٹی میں وحشیانہ میں ہزاروں بلوچ افراد لقمہ اجل بن جانے سے لیکر حال ہی میں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں فضائی کاروائی میں معصوم خواتین و بچوں کی جبری گمشدگی و شہادت تک سب ایک ہی کڑیاں ہیں۔