سفرِ جدوجہد: حیدر اور بلوچستان کی راہیں ۔ امیر الملک

885

سفرِ جدوجہد: حیدر اور بلوچستان کی راہیں
تحریر: امیر الملک
دی بلوچستان پوسٹ

شام کا وقت ہے۔ ابھی فتح محمد کے ہاں اس کے آٹھویں بچے کا جنم ہواہے ، ماں لال بی بی بچے کا نام حیدر رکھتا ہے ۔فتح محمد نے سندھ سے تعلیم حاصل کیا تھاجو کے پہلے اپنے والد کی مال مویشیوں کو چراتا تھا۔اس سے تنگ آکر وہ اپنے آباہی علاقے سے بھاگ کرسندھ کی طرف نکل گیا تھا اور وہاں سے اس نےتعلیم حاصل کیاتھا۔ وہاں سے تعلیم مکمل کر کے وہ اپنے علاقے زھری خضدار واپس آیاتھا۔ یہاں اس کی شادی لال بی بی سے ہوئی تھی ۔اور اس کے کل آٹھ بچے پیدا ہوئے، جن میں سےآٹھواں بچہ حیدر تھا۔

فتح محمد اپنے آباہی علاقےزھری میں ایک نجی اسکول میں پڑھاتے تھے ۔بعد ازاں وہ سرکاری اُستاد لگ گیا اور اس کا پوسٹنگ خضدار شہر میں ہواتھا۔ اس کی بیوی حیدر کی ماں ایک گھریلو عورت تھی۔ حیدر دو سال کا تھا تب ہی وہ خاندان سمیت شہر منتقل ہو گئےتھے۔

حیدر کے تین بھائی جن کے نام بالاچ ،آصف ،اسمائیل اور چار بہنیں حمیدہ، جمیلہ ، گل بی بی ، ناز بی بی تھیں ان سب میں سے حیدر چھوٹا تھا۔ جو سب کا لاڈلا تھا سب بھائی اور بہنیں شادی شدہ اور بال بچے والے تھے۔

“حیدر نے ابتدائی تعلیم ایک نجی اسکول ” پاک اسلامک سے حاصل کی جس میں وہ ایک درمیانی درجے کا طالب علم رہاتھا بلکل سادہ سیدھا ڈرنے والا طالب علم تھا ۔حیدد کو چھٹے کلاس میں ایک زبردست دوست رسول بخش ملا، جو کے کم عمری میں بھی ایک وطن دوست اور متفکر بچہ تھا جو کہ گوریلا جنگجو شہید سمیع بلوچ کا بھتیجا تھا۔ جسے پاکستانی فوج نے اغوا کرکے عید کے دن والدین کو کال کر کے بتایا تھا کہ آپ کے لئے عیدی بھیج رہے ہیں والدین خوش ہوگئے کے اِن کا جان ان کا بیٹا بازیاب کیا جائے رہا ہے مگر انکی مسخ شدہ لاش عیدی کی شکل میں اس کے لواحقین دے دی گئی تھی ، اس دَرد کا اندازہ زرہ اس کی ماں کے کرب سے کیجیئے کہ جس نے اُسے نو ماہ پیٹ میں رکھ کر اور پھر انتہائی حالات میں جوان کیا تھا۔

رسول بخش “کوشک” میں رہتا تھا اور لگ بگ یہ سال 2009 تھا۔ بلوچستان میں جدوجہدِ آزادی کا دور تھا رسول بخش اپنی روزمرہ کی گفتگو میں وطن ، عوام مسائل اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کا ذکر کرتا اور بلوچستان کے معاملات پر غور فجر کرتا رہتا تھا۔ وہ اکثر اپنے ڈیسک پر بلوچستان کے جنون و سوچوں میں گم سم
ھو کر “بلوچستان زندہ باد” لکھتا تھا۔2009
میں حالات یوں بدل گئے کہ ہر دن مختلف واقعات سننے کو مل رہے تھے۔ دھماکے اور گولیوں کی آوازیں روزانہ سنائی دیتی تھیں، بم ،دھماکے ، دیوار نویسی عام ہوگئے تھے۔ ہر دن ہڑتال و مظاہرے ہوتے تھے، اورہم اسکول میں ہڑتال کرنے والوں کا انتظار کرتے تھے۔ نوجوان اسکول بند کر کے ہمارے اسکول تک پہنچتے اور یوں لوگوں کی تعداد بڑھتا جاتا ۔

سرمچاروں نے نظام میں تبدیلی لانے کا فیصلہ کیاتھا، اور اس تبدیلی کا اثر ہمارے اسکول میں بھی ہوا۔بلوچ و بلوچستان سے جڑے انقلابی جذبات عروج پر تھے، اردو زبان کا بائیکاٹ کرکے اب سکولوں میں بلوچی و براھوئی رائج ھو چکیں تھیں پاکستانی قومی ترانے کی بجائے “ما چک ایں بلوچانی” صبح اسمبلی میں پڑھا جاتا تھا ۔

یہ طبیعتاً ایک نیا ماحول پیدا ہواتھا، جہاں ہم اپنی زبان، قومی ترانہ، اور اپنا قومی جنڈا اسکول میں لہراتےتھے۔ اور قومی جذبات کا آزادی سے اظہار کرتے رہتے تھے۔

ایک دن، جب یہ احتجاجی ریلی اسکول پہنچا، تو اسکول بند ہو گیا۔ لوگ ریلی میں شریک ہو رہے تھے، حیدر بھی شریک ہو گیا۔ ریلی راستے سے گزرتے ہوئے شرکاءنے کئی سرکاری عمارات و املاک کو آگ لگا دی، سرکار بینکوں پر پتھرائو بھی کیا، شیشے توڑے۔ حیدر بھی شامل پترپھینک رہا تھا۔ یوٹیلیٹی اسٹورز بھی مظاہرین کے غصے کے نظر ھوگئے ٹوڑ پھوڑ بھی ھوئی کچھ مظاہرین نے سامان بھی اسٹورز سے اُٹھا لیئے۔

اس دن حیدر نے بھی سرف کا ایک پھٹا ہوا پیکٹ اٹھایا اور جیسے ہی احتجاج ختم ہوا، حیدر نے گھر کی راہ لی وہ خوش تھا کہ آج گھر پر سرف کا پیکٹ لیجا کر ماں کو خوش کریگا۔ جب حیدر گھر پہنچا تو ماں حیران ھوئی کہ حیدر کہ پاس سرف کا پیکٹ ہے، جب ماں نے پوچھا کہ کہاں سے لائے ہو یہ، حیدر کہ پاس جواب نہ تھا۔ حیدر نے یہ سوچا نہیں تھا کہ گھر پر کیا کہےگا تو ماں نے سمجھ لیا کہ یہ انہی احتجاجی ریلی میں سے ہوکر آرہا ہے، کیونکہ ماں کو اندازہ تھا حالات کہ بارے میں۔
تو ماں نے حیدر کو مارا اور ڈانٹ ڈپٹ کی اسی اثنا میں حیدر کہ والد بھی آن پہنچا۔ ایک دو تھپڑ اُس نے بھی مارے اور سختی سے ہدایت کی کہ آئندا شامل نہ ہونا۔ حیدر چُب و پریشان بیٹھا تھا کہ زور زور سے دروازے پر دستک ہوئی، حیدر نے دروازہ کھولا۔ اس کا ماموں کا بیٹا امیر بخش نمودار ہوئےجو اس کی بہن گل بی بی کا شوہر بھی تھا۔
امیر بخش اندر آیا تو اس کے کپڑے جلے ہوئے تھے، پیٹھ بھی جلا ہوا تھا۔ وہ احتجاجی ریلی سے آرہا تھا اور یوٹیلیٹی اسٹور جلاتے وقت امیر بخش بھی آگ کے زد میں تھوڑا آگیا تھا۔ وہ عمر میں بڑا تھا، اُسے کسی نے کچھ نہیں کہا وقت بدلتا گیا، حالات بدل گئے اور اب وہ عروج کم ہوتا گیا اور ایک ایک کو ٹارگٹ کلنگ میں مار رہے تھے۔ لوگوں کو اغوا کیا جا رہا تھا، بازار عصر کے ٹائم بند ہوتا تھا، خوف کا ماحول پیدا ہوتا گیا اور لوگ بدل گئے۔

ایک دور تھا لوگ آزاد بلوچستان کے نعرے لگاتے تھے لیکن آج کوئی بات کرنے سے بھی ڈرتا ۔ حیدر ابھی بچہ تھا لیکن حالات و جنگ نے ابتدائی تربیت کی تھی۔ حالات بدل گئے، لیکن حالات نے حیدرسمیت کئی لوگوں میں ایک احساس پیدا کیا تھا وطن کے لیے، راج کے لیے۔ دوسری طرف مال و لالچ اور پروٹوکول دیکھ کر بہت سے لوگ ڈیتھ اسکواڈز میں بھی بھرتی ہو گئے ، وہ لوگوں کو بے دردی سے مارتے اور اغوا کرتے۔

ایک دن حیدر گھر پر تھا، کل عید ہے ، امیر بخش اور گل بی بی اور امیر کی ماں بازار گئے تھے عید کی شاپنگ کے لئے۔ واپس آئے تو امیر پھر بازار گیا، کوئی چیز رہ گئی تھی تب فائرنگ کی آواز آئی، پتا چلا کے امیر بخش کو برسٹ فائر مارا گیا ہے۔ امیر شہید ہو گیا۔ گھر میں ماتم چھاگئی حیدر کی بہن گل بی بی محض21 سال کی عمر میں بیواہ ھوگئیں۔ امیر کا ایک سال کا بچہ یتیم ہو گیا۔ اس وقت حیدر کو اتنا فرق نہیں پڑا تھا، حیدر ابھی ہفتم جماعت میں ہی تھا ۔

وقت گزرتا گیا، شہری گوریلا جنگ بلکل کم ہو گیا۔ ہر جگہ پر ایف سی والے نظر آتے ، ڈبل سواری بند ہو گئی ۔ اسکولوں میں دوبارہ اردو پڑھانا شروع ہو گیا۔ لیکن پاکستانی جنڈے دوبارہ نہیں لہرائے گئے۔ اب اسکول کا نام کا جنڈا لہراتا تھا، قومی ترانہ کے جگہ پر (لب پے آتی) دعا پڑھا کرتے تھے۔ حیدر اسکول ختم کر چکا تھا، اب ڈگری کالج میں داخلہ ہوا تو دوپہر کی وقت شہید رزاق کے اکیڈمی میں پڑھنا شروع کیا۔ کچھ عرصہ بعد پروفیسر رزاق بلوچ کو شہید کیا گیا ، اب حیدر کا اکیڈمی نہیں رہا جہاں وہ مفت میں پڑھتا تھا آہستہ آہستہ حیدر کے دوست بھی پہلے والے نہ رہے ،حالات و ماحول بدلتے گئے
نئے دوست بنتے گئے، ترجیحات و شوق بدل گئے ۔ سب ایک ریس میں لگے تھےکہ فیوچر کہتا ہے کہ “اچھا پڑھو گے تو اچھا نوکری ملے گا”۔ حیدر بھی اسی دوڑ میں لگ گیا۔ حیدر کے دوست بھی اسی طرح تھے۔ جب بھی اکیڈمی کی چٹھی ہوتی، تو ہوٹل جاتے، وہاں پر صرف باتیں نوکری کی ہوتیں۔ دوست بولتا کہ “میں افسر بنوں گا، وہاں پیسہ بہت ہے، رشوت وغیرہ زیادہ ہے”۔ اس محکمے میں تیسرے دوست نے کہا “آرمی میں جاوں گا، وہاں پاور ہے، پیسہ ہے۔ اور تو صرف انٹرمیڈیٹ کے بعد افسر بھرتی کرتے ہیں، بلوچستان والوں کو زیادہ چانس ہے بھرتی کرنے کا”۔ حیدر بھی خوش ہوا کہ “واہ بھائی، میں بھی کاغذات جمع کروں گا اور اسی طرح انٹرمیڈیٹ پاس کرنے کے بعد حیدر نے کاغذات جمع کیا۔ کچھ دن بعد ٹیسٹ ہوا اور حیدر پاس ہوگیا۔ وہ بہت خوش تھا کہ اس نے ٹیسٹ پاس کیا ہے۔ کچھ دن بعد میڈیکل تھا، تو حیدر کینٹ گیا، تمام میڈیکل ریپورٹس کلیر تھے۔ اب آخری چیک اپ رہتا ہے۔ حیدر گیا وہاں لائن میں کھڑا ہوا، سب ایک ایک کر کے ڈاکٹر کے کیبن میں گئے۔ حیدر کی باری آئی تو حیدر بھی گیا کیبن میں۔ ڈاکٹر نے کہا “کپڑے اتارو”، تو حیدر نے کپڑے اُتارے، پاور اور پیسہ زیادہ ہے تو یہ مسئلہ نہیں ہے۔ چیکر فوجی نے کہا “بینڈ ہو جاہو”، حیدر بینڈ ہوا۔ ڈاکٹر پچواڑے میں ٹارچ لگا رہا تھا، ڈاکٹر نے کہا “کانسو”، حیدر کانسنے لگا۔ اب چیک اپ مکمل ہو گیا۔ حیدر واپس گھر کی طرف ہوا، کچھ دن بعد “آئی ایس ایس بی لیٹر” آگیا، ملیر کینٹ میں چار دن گزارنے تھے۔ حیدر بہت خوش تھا کہ وہ افسر بنے گا، وہ ملیر کینٹ گیا چار دن مختلف ٹیسٹ دیکر، خوشی خوشی وہاں سے واپس آگیا۔ حیدر وہاں کے زندگی سے متاثر ہوا تھا، اسے یہ زندگی اچھی لگی تھی۔ اب وہ بھی اپنے دوستوں میں پیسہ اور اچھی نوکری کی باتیں کرتا تھا، ان ہی کی طرح کاٹن کے کپڑے گاڈی کا شوق “ڈی ایس ایل آر کیمیرہ” کا بلر والا فوٹو، لڑکی کا شوق ، بس یہی زندگی ہے۔ ایک ماہ بعد “آئی ایس ایس بی” کا رزلٹ آیا، لکھا تھا کہ سلیکشن نہیں ہوا ہے۔ حیدر پریشان ہوگیا، کچھ دن گزرنے کے بعد حیدر ایڈمیشن کے لئے اپلائی کرتا رہا اور پنجاب میں ایڈمیشن ہوا۔ حیدر خوش تھا کہ پنجاب جارہاہوں، بنجاب جیسے لندن تھاحیدر کے لئے ۔ گھر والوں کے ساتھ کہتا رہتا کہ میں نے ٹیسٹ پاس کیا، اب ایک ماہ بعد کلاسز شروع ہونگے۔

حیدر کا مہناز نامی ایک رشتے دار تھیں جس کو وہ بے حد پسند کرتا تھا، لیکن ہمت نہیں تھا بولنے کی۔ ایک دن اس کے گھر گیا، حیدر بہت معصوم سا تھا، اس لئے سب اسے بہت پیار کرتے تھے۔ مہناز اور حیدر ویسے بہت فرینک تھے، مذاق مسخرہ کرتے تھے۔

ایک دوسرے کے ساتھ حیدر مہناز کے گھر پر تھا، اور دوسرے کمرے سے مہناز کو دیکھ رہا تھا، لیکن مہناز اپنے موبائل میں کچھ دیکھ رہی تھی۔ حیدر نے ہمت کر کے مہناز کو میسج کر کے کہا کہ میں تمے پسند کرتا ہوں اور کمرے سے مہناز کو دیکھ رہا تھا۔ مہناز نے اسکا بُرا نہیں مانا، کیونکہ ایک حساب سے وہ دونوں دوست بھی تھے۔ مہناز نے حیدر کو سمجھایا کہ یہ ہو نہیں سکتا ہے، خاندان والے راضی نہیں ہونگے اور ہو سکتا ہے تم بھی بدل جاؤ، ابھی تمہارا پڑھائی کا وقت ہے، تم اپنے پڑھائی پر دھیان دو۔ لیکن حیدر نے زور ضد کیا اور آخر کار مہناز راضی ہو گئی۔

کچھ دن بعد حیدر لاہور گیا، وہ خوش تھا، ایڈمیشن بھی پنجاب میں ہوا۔ مہناز سے بھی اظہارِمحبت ہوا، وہ مہناز سے کال پر باتیں کرتا اور اپنا فیوچر کی تصوراتی دنیا کی باتیں کرتے، کہ کس طرح شادی کریں گے، الگ گھر بچے اور ہماری دنیا۔ حیدر یونیورسیٹی میں پینٹ شرٹ پہن کر خوش ہوتا، بنجابی دوست تھے، پہلا سیمسٹر تھا بلوچوں سے زیادہ پنجابی دوست تھے۔ وہاں اسے ایک بلوچ کلاس فیلو ارض محمد ملا جو اڑضو کے نام مشہور تھ،بعد میں اڑضو اس کا روم میٹ بنا حیدر بھی اُسے اڑضو کہا کرتا تھا، اڑضو منگچر قلات کا رہنے والا تھا۔ دن گزرتے گئے، سیمسٹر بدل گیا، حیدر بھی بدلنے لگا۔ حیدر اب کبھی کبھی سوچتا تھا کہ شاید میری یہ تصوراتی دنیا ایک دھوکہ ہے ۔

ایک دن حیدر کے کمرے میں ایک سینیئر بلوچ طالب علم کا آنا ہوا ، درمیانہ قد ، آنکھیں سبز رنگ کی، چھوٹے ذرا گھنگریالے بال ، چہرے پر ایک چمک۔ جوشیلہ اور محبت بھرے آنداز میں آکر کہنے لگا ؛ سلام ورناک! وعلیکم سلام سنگت! ۔
حیدر نے جواب دیتے ہوئے کہا۔
انت ھال اے نما سنگت آک؟ (کیا ھال ہے دوستو؟)
حیدر نے اپنا ھال سنایا پھر اپنا تعارف کرایا، اس نے اپنا نام نوید کہا اور بہت جلد گھل مل گئے۔ اڑضو بھی بیٹھا تھا، سب دیوان و محفل کر رہے تھے۔
نوید نے ہنستے ہوئے کہا، “سوال ہے ایک پوچھ سکتا ہوں؟”
بلکل، سنگت پوچھو حیدر نے خوش مزاجی سے جواب دیا۔
“زندگی انت اسے (زندگی کیا ہے)؟” نوید نے سنجیدگی سے سوال کیا۔
حیدر اور اڑضو ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے خاموش تھے۔ کچھ دیر بعد پر نوید نے پوچھا، “چلو یہ بتاوُ انسان اور جانور میں کیا فرق ہے؟”

اڑضو نے جواب دیا کے دماغ کا سنگت۔
نوید نے کہا، “وہ تو جانور میں بھی ہے، کھاتا ہے، پیتا ہے، بیٹھنے سے پہلے اپنے جگہ کو صاف کرتا ہے، بچوں کو سنبھالتا ہے.” نوید نے کہا کہ وہ تو جانور میں بھی ہے، کھاتا ہے، پیتا ہے، بیٹھنے سے پہلے اپنے جگا کو صاف کرتا ہے، بچوں کو سنمبالتا ہے. نوید نے کہا کہ دماغ تو جانور میں بھی ہے، فرق بس یہ ہے کہ انسان کے پاس دماغ کو استعمال کرنے کی شعوری صلاحیت ہے، لیکن ہم میں سے بہت کم لوگ دماغ کا استعمال کرتے ہیں۔ باقی صرف انسان کی شکل میں جانور ہیں، ایک ایسے ریس میں لگے ہیں جس کا کوئی اختتام نہیں، جہاں تعلیم حاصل کرتے ہیں مگر پیسے کے لئے۔
“میں جب بھی ایسے لوگوں کو دیکھتا ہوں جو صرف اس دوڑ میں ہیں کہ ایک اچھا سا گھر ہو، ان کے ساتھ بہت سارا پیسہ ہو، گاڑی ہو، بیوی ہو، بچے ہوں اور ان بچوں کی بھی یہی تربیت ہو کہ اچھا تعلیم دینگے اچھے نوکری کے لئے جس میں اچھا پیسہ ہو اور اچھا خاصا رشوت ہو، جیسا کہ باپ نے زندگی گزاری، اسی طرح بچوں کی بھی تربیت کی مجھے تکلیف ہوتی ہے۔”

“ان جیسوں کو دیکھ کر ان جیسے لوگوں پر ترس آتا ہے، ان کی طرز زندگی پر ترس آتا ہے کہ آیا یہ دنیا میں اسی لئے آئے ہیں ؟ ان کو سوچ ہے نہ وہ اپنے ارد گرد کے لوگوں سے واقف ہیں یا اگر واقف ہیں تو احساس نہیں ہے کہ روز روز ان کے بھائیوں بہنوں کو پنجابی آرمی زلیل کرتا ہے، نوجوانوں کو اغوا کیا جا رہا ہے فیک انکاونٹر میں مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہیں اور ان کو احساس نہیں ہو رہا۔ مجھے ترس آتا ہے ان پر، ان کی سوچ پر، ان کے ترجیحات پر، نوید کے انکھوں میں ایک چمک اور ساتھ ہی آواز میں درد تھا اپنے لوگوں کے لئے۔ حیدر اور اڑضو نوید کی باتوں میں کھو گئے تھے۔ جب نوید یہ سب باتیں کر رہا تھا، حیدر کو محسوس ہو رہا تھا کہ نوید جن لوگوں کا بات کر رہا ہے، ان میں سے ایک میں بھی ہوں، میں بھی تو اسی دوڑ میں ہوں، پیسہ، گاڑی، بنگلہ، کیا، میں بھی جانور ہوں، حیدر خود سے سوال کر رہا تھا، اُسے احساس ہو رہا تھا۔ حیدر ان سوچوں میں گم تھا کہ اچھانک اسے نوید نے پکارا
“اچھا حیدر، قربان پھر ملیں گے، میں چلتا ہوں.” نوید نے رخصت ہوتے ہوئے کہا، اُس کی آواز میں اپنا پن تھا، مٹھاس تھا، باتوں میں وزن تھا، وہ مسکراتے ہوئے باہر چلا گیا۔ حیدر اور اڑضو اسے دروازے تک لےگئے اور رخصت کرتے ہوئے کہنے لگے، “سنگت بریسہ کیس ننے آ (سنگت آتے رہنا ہمارے پاس)۔ بلکل قربان لازمی کنے نم تو محفل وڑا (بلکل قربان لازمی مجھے آپ لوگوں سے محفل میں مزہ آیا)۔” نوید مسکراتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔ اڑضو اور حیدر واپس کمرے میں گئے، نوید دونوں کے لئے بہت سارے سوال چھوڑ کر گیا تھا، انہیں سوچنے پر مجبور کیا تھا۔ اڑضو زمین پر بیٹھا کچھ سوچتے ہوئے سوالیہ انداز میں حیدر سے کہنے لگا، “حیدر، ہم بھی جانور ہیں کیا؟” لگتا تو یہی ہے کہ جن لوگوں کے بارے میں نوید بات کر رہا تھا، میں تو اُن میں شمار ہوتا ہوں، میں بھی تو اسی سوچ کے ساتھ آیا تھا کہ پنجاب میں پڑھوں گا اچھا نوکری ملے گا، بہت سارا پیسہ، پھر شادی، پھر بچے اور اسی سلسلے میں چل کر آخر موت، مقصد زندگی کا؟ یہی ہے کیا زندگی؟

آخر ہم خود کو کیسے بدلیں؟ کیا کریں؟ میں نے تو اپنےبیس سال اسی طرح گزارےہیں۔ نہ دین کا نہ دنیا کا بس یونہی ذاتی خیالی دنیا کے تصوراتی خیالوں میں ؟
دنیا پر بوجھ کے سوا اور ہمارا کوئی کردار نہیں۔ اڑضو اور حیدر یوں نزدیک بیٹھے ایک دوسرے مخاطب تھے “آخر وہ دونوں خاموش ہو گئے، چپ چاپ اپنی دنیا میں مگن تھے۔” اڑضو کچھ دیر سو کر اٹھ گیا، دوپہر سے رات ہوگیاتھا۔ چلو، کھانا کھانے، حیدر نے کہا۔ وہ دونوں باہر گئے، دونوں خاموشی سے کھانا کھا کر واپس کمرے میں آئے۔ کچھ دیر بعد دونوں سو گئے۔ رات آرام کرنے کے بعد صبح سویرے اڑضو اٹھ گیا، کلاس کے لیے جانا تھا۔ نہانے گیا واپس آیا۔ حیدر ابھی بھی سو رہے ہو، اٹھو کلاس کے لیے جانا ہے۔
موڈ نہیں ہے، تم جاہو، حیدر نے آنکھ کولے بغیر جواب دیا۔ چلو، ٹھیک میں جا رہا ہوں، کلاس واپس آکر اکٹھا ناشتہ کرینگے، اڑضو کلاس لینے گیا۔ حیدر سو رہا تھا، تقریباً ایک گھنٹے بعد دروازے پر دستک ہوئی، حیدر نے دروازہ کھولا، نوید کھڑا تھا، ہاتھ میں کتاب تھی، حیدر خوشی سے کہنے لگا، “نوید جان، بر اک قربان بر کمرہ ٹی (نوید جان آئو قربان آو کمرے میں)۔”
تُغ ءِ نا تو خراب کت٘تاوُٹ؟ (نیند تو خراب نہیں کیا نا؟) نوید نے حیدر کے کندھے پر ہاتھ رکتے ہو
ہوئے پوچھا, نا نا، پھل کنے سما اس اکا (نہیں نہیں، میں جاگا ہوا تھا)۔ چلو، فریش ہو جاؤ، پھر چلتے ہیں ناشتہ کرنے,نوید نے کہا۔
ٹھیک ہے، میں نہا کے آتا ہوں، پھر چلتے ہیں، حیدر نہانے کا سامان اٹھا کر کمرے سے باہر گیا اور نہا کر واپس آیا۔
دونوں ناشتے کے لئے باہر گئے، وہاں سے اڑضو بھی کلاس لے کر واپس آ رہا تھا۔ نوید کو دیکھ کر جیسے اس کے چہرے پر چمک سا آگیا، نوید سے ہاتھ ملایا، حال حوال کیا۔
پھر تینوں کینٹین پر ناشتے کے لئے گئے، وہاں رسمی حال احوال ہوا، پھر ناشتے کے لئے آرڈر دیا، ناشتہ ٹیبل پر آپہنچا۔ ناشتہ کرتے وقت اڑضو نے نوید کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، “سنگت کل آپ جو باتیں کر کے گئے تھے واقعی آپ نے کمال کی باتیں کی ہیں ۔ ہمیں آپ کی باتوں نے سوچنے پر مجبور کیاہے اور حقیقت میں جن لوگوں کے بارے میں آپ بات کر رہے تھے، ہم بھی ان ہی میں شامل ہیں۔”
اڑضو اپنا بچپن سے لے کر اب تک کی زندگی کا خلاصہ نوید کو سنا رہا تھا، “میں بیس سال کا ہوں، ابھی تک جانور ہوں۔ حالانکہ لوگ دنیا میں آتے ہیں ان کا زندگی میں کچھ نہ کچھ مقصد ہوتا ہے، لیکن ہمیں دیکھ لو پنجاب آکر خوش ہیں، ‘واہ، میں یہاں پڑھ رہا ہوں’، یہ نہیں سوچتے کہ ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہم بلوچستان چھوڑ کر گھر سے دور یہاں آ رہے ہیں۔”
“میں واقعی میں جانور ہوں،” سنگت اڑضو فرط جذبات میں بہا جارہا تھا جیسے وہ اپنا گِلہ اپنا نزدیک ترین انسان کو سنا رہا ہو؛
نوید اور حیدر غور سے سن رہے تھے، اڑضو کو سننے کے بعد نوید نے بڑے ہی نرم لہجے میں بات کرنا شروع کیا، “واہ اڑضو جان! اصل بات تو یہ ہے کہ تمہیں احساس ہے۔”

بات در اصل یہ ہے کہ ہمیں ایسی تعلیم دی جا رہی ہے جس میں ہماری سوچنے کی صلاحیت کو ختم کیا جاتا ہے۔ نوید تعلیم کی اہمیت اور اصل تعلیم کیا ہے اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے جاری رکھتا ہے، “تعلیم یہ نہیں کہ ہم بیس سال پڑھتے ہیں، جہاں اداروں میں استاد کہتا ہے ‘پڑھو گے نہیں تو نوکری نہیں ملے گی’۔”
“اسی طرح گھر میں بھی ماں باپ یہی کہتے ہیں، آیا تعلیم اسی لئے حاصل کی جاتی ہے کہ نوکری ملے، پیسہ ملے؟؟؟” تعلیم کو پیسے سے تشبیہ دینا جہالت نہیں ہے؟؟ “اگر تعلیم محض اسی لئے حاصل کرنا ہے کہ تمیں نوکری ملے تو، تو ایسے تعلیم سے تم بغیر تعلیم کے بہتر ہو، کیونکہ ایک ایسا تعلیم حاصل کرکے تمیں نوکری ملتی ہے، تمہارا تنخوا زیادہ سے زیادہ کتنا ہو گا؟ ستر ہزار یا ایک لاکھ؟ تو پھر کیا فرق ہے ان میں اور ایک ایسے بندے میں جو دبئی یا سعودی جا کر مزدوری کرتا ہے اور لاکھ دو لاکھ تنخوا بھی ملتا ہے؟”
“البتہ یہ مزدور ہزار گناہ بہتر ہیں ایسے تعلیم والے لوگوں سے۔ تعلیم کا مطلب پیسہ نہیں، تعلیم کا مطلب صحیح غلط کی پہچان، سوچنے کی صلاحیت، لوگوں کے لئے ہمدردی اپنے ارد گرد جو نا انصافیاں ہو رہی ہیں، ان کے لئے آواز اٹھانا۔ دنیا کے جتنے بھی آزاد قومیں ہیں ان کا تعلیمی نظام دیکھو کے وہاں کیسے تعلیم دی جاتی ہے، وہ کیسے ترقی کر رہے ہیں، ان کے لوگ کیوں خوش ہیں یا یہ دیکھا جائے کہ جو ہماری طرح غلام قومیں تھیں، وہ کس طرح آزاد ہوئے، کیا کِیا انہوں نے اپنے آزادی کے لئے؟”
“تو ان سب میں سب سے پہلے آتا ہے اصل اور حقیقی تعلیم،” نوید جیسےایک لیکچر دے رہا تھا، اور حیدر اور اڑضو زندگی میں پہلی بار کسی لیکچر اس طرح بغور سن رہے تھے، اور یہ لیکچر ان پر کافی حد تک اثر انداز ہو رہا تھا۔

نوید پہلے ہی سے ان دونوں کے لیے کتابیں لایا تھا۔ اس کے ہاتھ میں تھے، نوید نے کتاب دکھاتے ہوئے کہا کے کتابیں زندگی کے راہنما ہیں جو کتاب ہم سے ہمارے حالات و وجود سے متعلقہ ہیں ان کتابوں کے پڑھنے سے شعور ملتا ہے۔ تم خود کو پہچانو گے، اپنا تاریخ پڑھو کہ بلوچ قوم ہیں کون؟ کیسی قوم ہے تمہارا؟ تم کیوں غلام ہو؟ کیا وجوہات ہیں؟ تمہارا زمین ہے، تمہارا ریاست تھا، تم خوشحال زندگی گزار رہے تھے، تم میں مذہبی شدت پسندی و منافرت نہیں تھی، تمہارے لوگ بھوکے نہیں تھے، ان کا عزت محفوظ تھا، تمہارے عورتوں کا کیا قردار رہا ہے، تمہارے نوجوان اغوا نہیں ہوتے تھے، اور بہت سی جیزیں۔ اور ہاں، اب کے تم غلام ہو، تمہارا زمین تم سے چھین لیا گیا ہے، تمیں مذہبی شدت پسند بنایا جا رہا ہے، قبیلہ پرستی کیوں ہے، زبان کی وجہ سے تضاد پیدا کیا گیا ہے، تم پر پنجابی حکومت کر رہا ہے، تمہارے لوگ مارے جا رہے ہیں، اغوا ہو رہے ہیں، گھروں میں سکون نہیں ہے، کھانے کے لئے ترس رہے ہیں، پہچان کو زبردستی پاکستانی بنایا جا رہا ہے اور اس غلامی سے کیسے نجات پائو گے؟ اپنے قبضہ ہوئی زمین کو کیسے حاصل کروگے؟ ان کتابوں سے تمہیں تماری سچائی ملی گی ، تم واقف ہو جائو گے کہ تم ہو کون ، کیا پہچان ہے تماری اور اس سچائی سے تمہیں یہ ریاست کبھی آگاہ نہیں کریگا، ہمیشہ تمہیں دور کریگا ایسا نہیں ہے کہ بلوچ ہی دنیا میں غلام ہے اور یہ ریاست ہی اس کا اس طرح استحصال کر رہا ہے، دنیا میں جتنے بھی غلام قوم رہے ہیں انہوں نے سب سے پہلے یہی عمل اپنایا ہے، اپنے لوگوں کو سچائی سے آگاہ کیا یہی بلوچ قوم کو بھی کرناہے ۔ نوید مزید بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتا کہ یہ جو ادارے ہیں پاکستان کہ ان سے تمہیں ہو سکتا ہے نوکری ملے لیکن شعور، عقل، سوچ کبھی نہیں ملے گا۔ اس لئے شعور، سوچ، عقل کے لئے ہم خود جدوجہد کرتے ہیں، زیادہ سے زیادہ کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے لوگ کتاب سے وابسطہ رہیں۔ ان کتابوں سے ان کی آنکھیں روشن ہوں گی اور خود کو اور اپنی اس غلامی کا احساس کریں گے۔ اسی طرح نوید نے اپنی بات ختم کی۔ ناشتہ کب کا ختم ہوا تھا حیدر اور اڑضو بلکل دلچسپی سے نوید کو سن رہے تھے۔ حیدر نے نوید کے ہاتھوں سے کتابیں اٹھائیں۔ نوید نے کہا کہ یہ دو کتابیں آپ دونوں لازمی لڑھیں، پھر اپنے الفاظ میں مجھے سمجھائو بھی۔ حیدر اور اڑضو نے حامی بھرا اور تینوں وہاں سے کمرے کی طرف روانہ ہوئے۔ نوید وہاں سے الگ ہوا اپنے کمرے کی جانب گیا اور حیدر اور اڑضو اپنے کمرے کی جانب گئے۔ اب روز اسی طرح ان تینوں کا دیوان ہوا کرتا تھا۔ اب اڑضو اور حیدر بھی کتاب پڑھنے لگے تھے، تو وہ بھی خوب آپس میں بحث مباحثہ کیا کرتے تھے۔ نوید ان کو ہمیشہ نئے نئے کتاب دیا کرتا تھا اور ان تینوں میں ایک سیاسی رشتہ قائم ہوا تھا۔ نوید نے ان دونوں کو اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن کے بارے میں بھی کتابیں دیں، کہ آرگنائزیشن کیسے کام کرتے ہیں، کیا طریقہ کار ہے، اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی تاریخ، اس کی اہمیت اور بلوچستان میں جتنے بھی سیاسی آرگنائزیشنز تھے ان کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔ حیدر اور اڑضو نے بھی ان سب کے بارے میں اچھے سے مطالعہ کرنا شروع کیا۔

کچھ مہینے بعد، حیدر اور اڑضو میں کافی بدلاؤ آیا۔ وہ اب بہت سنجیدہ ہو گئے تھے۔ ان کے باتوں میں وزن تھا۔ حیدر چیزوں کو تھوڑا جلدی سمجھتا تھا بنسبت اڑضو کے۔ اڑضو بات کرتے وقت ہچکچاتا تھا، لیکن حیدر اس لحاظ سے بہتر تھا۔ جب بات کرتا تو ہچکچاتا نہیں، اور وہ لوگوں میں زیادہ گھل مل جاتا بنسبت اڑضو کے۔ نوید ان دونوں کا سیاسی استاد تھا۔ اب نوید ان پر بھروسا کر سکتا تھا۔

ایک دن، نوید کمرے میں آیا تقریباً صبح کا وقت تھا۔ اڑضو کلاس لینے گیا تھا۔ نوید آکر رسمی حال احوال کے بعد حیدر سے کہتا ہے، “میں کام کے سلسلے میں یہاں آیا ہوں۔ حکم کرو، سنگت کیا کام ہے؟” حیدر سیدھا سنجیدگی سے بیٹھتے ہوئے بولا، “میں تم سے راز کی بنیاد پر اور بھروسے کی بنیاد پر یہ بات کہنے جا رہا ہوں۔ بھدوسہ نہیں توڑنا۔” نوید نے حیدر سے مخاطب ہو کر کہا۔

“بے فکر رہو، سنگت، آپ مجھ پر بھروسہ کر سکتے ہو۔” حیدر نے کہا،
“تمہیں کام کرنا ہے قومی آزادی کے لئے۔ ہمارا مقصد ہمارا ایمان ہمارا وطن ہے۔ اس عظیم کام کے لئے میں تمہیں بی ایس او آزاد میں شامل ہونے کے لئے دعوت دیتا ہوں۔” حیدر فوراً مان گیا۔ مجھے تلاش تھا کہ کوئی ایک ایساادارہ و ذریعےکی؛ میں راضی ہوں، میں کام کرنا چاہتا ہوں اپنے وطن کے لئے اپنے لوگوں کے لئے بلوچستان کی آزادی کے لئے۔

نوید نے کہا، “لیکن تمہیں یہاں سے پڑھائی چھوڑنی ہوگی اور تمارا داخلہ مکران یونیورسٹیٹی پنجگور میں کیا جائے گا؟ وہاں دوست ہے وہ بندوبست کرلے گا تمارےداخلے کا۔ کیا کہتے ہو پھر؟” حیدر مان گیا اور کہا، “میں ویسے بھی یہاں کلاس نہیں لیتا ہوں۔ یہاں میرا کوئی خاص کام بھی نہیں ہے۔ میں راضی ہوں، آپ جو بھی کہو، جہاں کہو، میں راضی ہوں۔ جانے کے لئے اپنی زندگی کو ایک مقصد دینے کے لئے۔”
تو ٹھیک ہے، تیار رہو، دو دن میں ہم دونوں یہاں سے روانہ ہونگے۔ دو دن بعد، اڑضو سے رخصت ہوتے ہوئے، شال کی طرف روانہ ہو گئے۔ نوید اور حیدر بس میں سوار تھے، منزل ان کا شال تھا۔ راستے میں زیادہ باتیں نہیں ہوئیں۔ احتیاط کی وجہ سے دونوں سیاسی باتیں نہیں کر رہے تھے۔ نوید کوئی کتاب پڑھ رہا تھا، موبائل میں حیدر سو گیا تھا۔ بس میں شال پہنچتے ہی دونوں اُتر گئے، ہاتھ منہ دھو کر کسی ہوٹل پر کھانے گئے۔ نوید اسے سمجھا رہا تھا راز داری اور باقی کام کے طریقہ کار کو۔
کھانا کھانے کے بعد، نوید نے حیدر کو پیسے دیئے اور کہا، “قربان، تمہیں یہی سے جانا ہوگا۔” حیدر نے کہا، “ٹھیک ہے۔ فر۔” نوید نے گلے لگا کر کہا، “اوارن ساہ نا بند! خیال رکھنا، جب پہنچ گئے تو کال کر کے بتانا۔ باقی دوست تمہارا اُدھر ہی انتظار کر رہے ہوں گے، میں نے آگاہ کیا ہے ان کو ، وہ تمہیں سنبھالیں گے، میں تمہیں نمبر بھی بھیج دوں گا۔
دونوں سنگت گلے مل کر رخصت ھوئے ”
انھوں نے پھر کھودائیں اور دو دن بعد اڑضو واپس چلا گیا۔
حیدر پنجگور بس اڈے روانہ ہوا اور شام کی ٹکٹ کر کے کچھ دیر بعد منزل کی طرف روانہ ہو گیا۔ حیدر سوچ رہا تھا، “کیا بندہ ہے، نوید اتنا خیال رکھ رہا ہے۔ پیسے بھی معنی نہیں رکھتے، اس کے لئے بغیر ہچکچاہٹ کے اتنے پیسے دیئے۔ لوگ تو یہی پیسوں کے لئے مخبر بنتے ہیں، اپنے لوگوں کے لئے وبال بنتے ہیں۔”
اچانک کنڈکٹر آیا اور کہنے لگا، “ٹکٹ دکھانا۔” حیدر ٹکٹ دے کر کچھ دیر سو گیا۔ صبح سویرے تقریباً پانچ بجے پنجگور پہنچ گئے۔ نیچھے اترتے ہی ایک قد آور پر کشش نوجوان، لمبے سرخی مائل بال کانوں کے اوپر کیئے ، گندمی رنگ، سیاہ و سرخ آنکھیں ، چہرے پر ہلکی داڑھی مسکراتے ہوئے آکر کہنے لگا، “حیدر ءِ تَو؟
جی ہَئوسنگت ! حیدر نے جواب دیا۔
حیدر کو بلوچی زبان سمجھ آتی تھی اور بولنے میں تھوڑا اٹکتا تھا۔ پھر حیدر اور نوجوان ہوٹل گئے، اس نے ناشتہ کا آرڈر دیا۔ پھر حیدر کو حال ھوال کرنے لگا، رسمی خوش آمدید کیا۔ اسی طرح حیدر نے بھی اس سے ھال احوال لیا، اور اپنا تعارف کرایا اور اپنا نام زبیر بتایا۔
حیدر نے سنگت سے تشکرانہ کہا ‘ تکلیف کیا ہے صبح سویرے اس سردی میں؟
‘نا نا، سنگت، مسئلہ نہیں ہے۔ اس میں تکلیف کی کیا بات ہے۔

ناشتہ آیا اور ناشتہ کر کے وہ دونوں بائک پر فلیٹ گئے۔ بسترا لگا ہوا تھا اور زبیر نے کہا، ‘سنگت، سفر سے آئے ہو آرام کرو کرو، پھر ملتے ہیں۔ اور ہاں، اپنے کاغذات مجھے دو، میں تمہارے داخلے کا کام نمٹاتا ہوں۔’ حیدر نے کاغذات دئیے اور زبیر وہاں سے چلا گیا۔ حیدر بسترے پر لیٹ گیا اور تھکن کی وجہ سے جلد ہی سو گیا۔
دوپہر کو انکھ کھلا تو دیکھا، زبیر بیٹھا کتاب پڑھ رہا ہے ۔ زبیر نے حیدر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ‘تھکن کچھ کم ہوا؟ برابر ہو، کسی چیز کی ضرورت تو نہیں؟’
حیدر نے کہا، ‘نا نا، قربان برابر ہوں منتوار۔ چلو صحیح، پھل آپ فریش ہو جاؤ، آج رات گَل کا دیوان بھی ہے۔ کھانا کھانے چلتے ہیں، پھر بعد میں مجھے تھوڑا دیوان کا تیاری بھی کرنا ہے۔’ زبیر نے حیدر کو نہانے کا سامان دیا۔ حیدر نہانے چلا گیا۔ نہانے کے بعد دونوں ہاسٹل کے باہر گئے۔
باہر، ایک لڑکا بائیک پر بیٹھا مسکراتا ہوا منتظر تھا۔
زبیر نے کہا، ‘یہ ہمارا سنگت ہے، اس کا نام عرف ہے۔ بہت محنتی ہے، جونہی ہم اس کے قریب پہنچ گئے۔’
بائیک سے اتر کر اس نےگلے لگا کر ، وش آتکے سنگت ! کہا، وہ پہلے سے حیدر کو جانتا تھا۔ کہنے لگا ‘کیا حال ہےحیدر؟’ کیونکہ نوید نے آگاہ کیا تھا، وہ نوید کا قریبی دوست تھا۔ تینوں بائیک پر سوار ہوکر بازار گئے، کھانا آیا، کھانا کھانے لگے۔
تو حیدر نے کہا، ‘زبیر سے، آپ نے کہا یہ ہمارا سنگت ہے، ایک محبت بھرے انداز میں، آپ لوگ ایک دوسرے کو محبت بھرے انداز میں سنگت پکارتے ہو۔’
زبیر نے عارف کی طرف دیکھا اور کہا، ‘عارف اس سوال کا جواب آپ کو دے گا۔’ عارف نے کہا، ‘حیدر، قربان، اس لفظ سنگت کا معنی عام دوست کی حساب سے نہیں ہے۔ اس آرگانائزیشن میں ہماری عظیم مقصد سے وابستہ ہوئے دوستوں کے لئے لفظ سنگت استعمال کیاجاتاہے ہمیں ہماری یہ سنگت مقصد کی وجہ سے بہت زیادہ عزیز ہے۔ ہمارے درمیان ایک ایسا پیار ہے جس میں ہمارے لئے مقصد کے علاوہ اور کچھ بھی معنی نہیں رکھتا، نہ پیسہ، نہ باقی جیزیں۔ ہمارے لئے ہمارا مقصد پاکستان سے آزادی لینا ہے اور اس جہد کے لئے یہ سب سنگت اکٹھے ایک اسٹرکچر کے تحت کام کرتے ہیں۔”

لیکن بعض اوقات، ایسے بھی دوست آتے ہیں جو کہتے ہیں کے ہم اس مقصد کے لئے کام کریں گے، لیکن درمیان میں اٹک جاتے ہیں۔ اس کی وجہ پتہ ہے کیا ہے حیدر؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کتابوں کا مطالعہ نہیں کرتے۔ اگر کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان پر عمل نہیں کرتے، مثال کے طور پر، اگر آپ فزکس کا کتاب پڑھتے ہیں تھیوریٹیکل لیکن لیب میں عملاً اس پر عمل نہیں کرتے تو وہ آپ کے لئے محض معلومات ہوگا۔ عملاً آپ اس سے کچھ بھی سمجھ نہیں پاؤ گے، بلکل اسی طرح اگر ہم کتاب پڑھیں لیکن اس کتاب کااپنی زندگی پر اطلاق نہ کریں تو وہ ہمارے لئے صرف معلومات ہوگی رہنما نہیں ۔ اس سے وہ شخص ایسا ہی رہے گا چاہے جتنا بھی کتابیں پڑھ لے اور پھر ایسے لوگ آگے نہیں چل سکتے، مایوس ہوتے ہیں، بہانے کرتے ہیں، اور آرگنائزیشن سے سائیڈ ہوجاتے ہیں۔ آرگنائزیشن کے بغیر واحد فرد کچھ بھی نہیں کرسکتا، پھر آہستہ آہستہ اس کے دماغ کو زنگ لگ جاتا ہے اور وہ کہیں بیٹھ کر یہ ڈینگا لگاتا ہے کہ میں کام کر رہا تھا بدلاؤ لانا چاہتا تھا، پھر آرگنائزیشن کو کھوستا ہے، اپنے پرانے ساتھیوں کو گالی دیتا ہے، خود کی صفائی کے لئے جو بھی کر سکتا ہے وہ کرتا ہے۔ لیکن بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ان چیزوں کو سمجھتے ہیں اور اگر کام نہیں کر سکتے تو کام کو خراب بھی نہیں کرتے، خاموشی سے بیٹھتے ہیں، اور جو کام کر رہے ہیں ان کو سراھتے ہیں۔
حیدر نے جب اسے پہلی بار دیکھا تھا تو اسے ایسا نہیں لگا تھا کے عارف اتنا پڑھنے والا لڑکا ہوگا۔ لیکن بعد میں اسے شرمندگی ہوئی کے اس نے یہ سوچا تھا کے اسے ایسا لگا جیسا نوید اور اس میں فرق نہیں واقعی بہت قابل لڑکا ہے۔ اس کی سوچنے کی صلاحیت اور سفقت بھرے نرم لہجہ و سادگی، لیکن وزن دار باتیں زہنی لحاظ سے جو بہت متاثر کرتی ہیں، کھانا ختم ہو گیا تھا۔ بِل آیا مجھے جو پیسے نوید نے دیئے تھے، میں نے ان پیسوں سے بل ادا کرنے کے لئے پیسے نکالے۔ زبیر ہنس کر کہنے لگا، “ملامت نہیں کرو، ہمیں تم فل الحال ہمارے مہمان ہو، بلکل پیسوں کی اہمیت سنگتوں کے لئے نہیں تھا، اہمیت سنگت کے لئے تھا۔”
وقت بہت ہو چکا تھا، عارف نے کہا کہ دیوان والے جگہ پر جاتے ہیں۔ پھر تینوں وہاں سے ایک مکان میں گئے، دروزہ کھٹکٹایا، ایک بوڑھی عورت آگئی جو تقریباً ساٹھ سال کی تھی، سفید جالار والے کپڑے پہنی ہوئی سیاہ و سفید بالوں والی ڈوب دار و سنجیدہ مزاج ۔
اس نے زبیر اور آرف کو دیکھ کر مسکرانے لگا اندر آئو۔ اماّں چون ءِ تَؤ (اماں کیسی ہو)، عارف نے دریافت کیا۔ “وش آں منی چُک(ٹھیک ہوں میرا بچہ)۔”
تینوں کو کمرے میں لے گئی، بٹھایا، رسمی حال احوال کے بعد وہ باہر چلی گئی پانی لانے کے لئے۔ درمیانہ سادہ سا گھر تھا جس میں دو کمرے، کچن، اور ایک چھوٹا سا چمن تھا۔ حیدر عارف کو دیکھ رہا تھا، عاف سمجھ گیا کے حیدر کیا پوچھنا چاہتا ہے۔ عارف نے کہا یہ ہمارا کسی سنگت کا گھر ہے اور یہ عورت اُس کی دادی ہے۔ سنگت کا والد اور والدہ ایک ایکسیڈنٹ میں مارے گئے تھے، وہ دو بہن اور دو بھائی ہیں۔ اس کا ایک بھائی جس کا نام عمران تھا سرمچار تھا، جو کے دو سال پہلے بولان میں دشمن سے لڑتے ہوئے شہید ہوگیا تھا۔ دوسرا بھائی عمان میں ہے، جو وہاں کام کرتا ہے اور اپنی ان بہنوں اور دادی کا خرچہ اُٹھایا ہے۔ عارف بات کر رہا تھا کہ کمرے میں دو لڑکیاں آگئیں۔ عارف نے کہا یہ ہیں ان کی بہنیں۔ انہوں نے کہا سلام سنگتاں ان میں سے ایک کا نام ماہیکان تھی اور دوسری نام شانزے تھی، یہ دونوں جڑوا تھیں جن کی شکل تقریباً ایک جیسی تھی۔ بیٹھنے کے بعد رسمی حال احوال ہوا اماں چائے بنا کر لائی، چائے پیتے وقت عارف نے ماہیکان اور شانزے سے کہا کے حیدر یہی ہے جو آج سے ہمارے ساتھ کام کرے گا۔ حیدر کو اماں پر حیرت ہوئی کے اس کے نواسے اس کام میں ہیں اور اماں ان کا اور ان سب ساتھیوں کا ہمکار و مددگار ہے۔ وہ اپنی نواسوں کی طرح سب کو پیار کرتی تھی، اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی۔ زبیر باہر گیا واپسی پر اس کے ساتھ پانچ لڑکے اور دو لڑکیاں اور تھے، دیوان کے لئے آئے تھے، عارف نے کہا آئو بیٹھو تھوڑی دیر بعد دیوان شروع ہوا جس میں شہدا کی یاد میں سب کھڑے ہو گئے اور دو منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی ۔ بیٹھنے کے بعد عارف نے دیوان کو آگے بڑھاتے ہوئے بات جاری رکھی۔ حیدر کو پتا چلا کے عارف مرکزی سنگت ہے اور زبیر زونل صدر ہے۔ دیوان میں پچھلے کاموں پر بات ہوئی ان پر تنقیدی نشست ہوئی۔ ان پر تنقید ہوئی کے جہاں کوئی کام صحیح سے انجام نہ پایا ہو ان کی زمدار کے اوپر تنقید ہوئی۔ اسی طرح دیوان چلتا گیا۔

سنگت عارف نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے ساتھیوں کا سب سے پہلا فرض خود کی تربیت کرنا ہے۔ اس کے لیے سب سے زیادہ کتابوں کا مطالعہ اور ریویو و تنقیدی جائزہ نکالنا لازمی ہے۔ ہمیں سب سے پہلے اپنی دماغوں کو مسلح کرنا ہوگا اور پھر جسمانی سطح پر ۔ اس وجہ سے کتابوں کا مطالعہ تمام دوستوں کی اولین ذمہ داری ہے۔ اس میں کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہئے اور جب ہم خود کو شعوری حوالے سے تربیت دینگے تو دوسروں پر کام کرنا آسان ہوگا۔ اسی طرح زون نے آنے والے کاموں کا فیصلہ لیتے ہوئے دیوان ختم کیا، پھر وہاں سب دوست کسی نہ کسی موضوع پر بحث میں مصروف تھے۔
وقت گزرتا گیا اور اب تک حیدر کا داخلہ ہوا تھا۔ حیدر تنظیمی کاموں میں دلچسپی سے حصہ لیتا تھا وہ اور زبیر روم میٹ تھے۔ حیدر نے اپنا مطالعے میں اضافہ کیا، اب وہ زیادہ کتابیں پڑھتاتھا۔ ساتھ ساتھ تنظیم کی ویب سائٹ کے لئے بھی لکھنا شروع کیا۔ اب حیدر بھی نوید اور عارف کی طرح ڈسکشن کرتا تھا، اب اسے سال گزر گیا اور وہ پنجگور کے گلی گلی سے واقف ہونے لگا تھا۔
کام کے سلسلے میں باگ دوڑ کرتا ، اس کا بلوچی زبان بہتر ہواتھا اب وہ فر فر بلوچی میں بات کرسکتا ۔ وقت گزرتے گزرتے حیدر کو پنجگور کا تنظیمی زونل صدر بنایا گیا۔ حیدر کی خاصیت یہ تھی کہ وہ چیزوں کو جلدی سمجھتا اور فیصلہ ساز ذہنیت کا مالک تھا۔ اب عرصہ ہو گیا تھا، گھر سے دور حیدر نے مرکزی سنگت سے اجازت لے کر کچھ دن گھر چلا گیا۔
گھر والوں کے لئے اب حیدر بدل چکا تھا، گھر میں اکثر خاموش رہتا تھا اور کتابیں پڑھتا تھا۔ حیدر باقی اپنے بھائی بہنوں میں چھوٹا ہونے کی وجہ سے ایسی باتیں بھی نہیں کرسکتا تھا کیونکہ وہ عمر میں باقی لوگوں سے چوٹا تھا، تو اس کی باتوں کو اہمیت حاصل نہیں تھی۔ اگر بات بھی کرتا تو اسے ڈانٹ ملتا، گھر والوں کی طرف سے اسی لئے وہ خاموش رہتا تھا۔
حیدر گھر میں بیٹھے کچھ سوچ رہا تھا اور اس سوچ میں گم ہو گیا تھا۔ وہ اپنے آپ سے باتیں کر رہا تھا، اس نے فیصلہ کر لیا تھا کے اُس کا اب تربیت ہو چکا ہے۔ حیدر کہہ رہا ہے کہ اب وقت آگیا ہے مسلح جنگ کا، مجھ میں صلاحیت ہے میں لڑسکتا ہوں۔ موت تو ویسی بھی آنی ہے، تو کیوں نہ جنگ میں ہی موت آجائے بسترے پر مرنے سے بہتر ہے کہ دشمن سے لڑکر دشمن کو مار کر اور میدان جنگ میں ہی موت آجائے تو بہتر ہے۔

زند اس اگر ارے گڑا ابٹ اوس مرے
اگر اف اک گڑا ابٹ او موت اس مرے
زندگی اگر ہے تو بہترین زندگی ہو
اگر نہیں ہے تو ایک بہترین موت ہی سہی

اُس نے اپنے فیصلہ پر ہفتوں تک نظرثانی کی اور آخر کار فیصلہ کر ہی لیا۔ حیدر نے کسی نہ کسی طرح سرمچاروں سے رابطہ کیا اور انہیں اپنی فیصلہ کے بارے میں آگاہ کیا اور اپنی پوری ۔علومات بھی دیں کہ وہ کیا کرتا ہے، کہاں سے ہے رشتےدار اور اپنی سیاسی کام اور آرگنائزیشن میں کام کے متعلق آگاہ کیا۔
سرمچار اس کے ساتھ رابطے میں رہا اور حیدر کو کہا کہ تب تک تم اپنے کام کرتے جائو،جو کر رہے ہو، میں تمہیں حال احوال کرتا رہوں گا۔ حیدر کی بات مہناز سے اکثر ہوتا تھا۔ مہناز نے حیدر کے انتظار میں بہت سے رشتے ٹکرائی تھے۔ حیدر مہناز سے بہت محبت کرتا تھا لیکن حیدر اب وہ حیدر نہیں تھا، نظریاتی حوالے سے وہ پختہ ہو گیا تھا، لیکن مہناز کو اُسی طرح مہر دیتا تھا۔
حیدر نے جنگ کا فیصلہ کیا تھا، اب اس کے زندگی کی ترجیح شادی نہیں تھی ۔ حیدر نے بڑی مشکلوں سے مہناز سے معذرت کرلی کہ وہ اس کا ساتھ نہیں نبھا سکتا اور رشتہ ختم کیا تاکہ مہناز آگے جا کے شادی کر سکے، لیکن حیدر کو بہت دُکھ تھا کہ اُس نے مہناز کی زندگی کے اتنے سال ضائع کیئے ۔
حیدر پھر پنجگور چلا گیا اور تنظیمی کاموں میں مصروف رہا، تنظیم کے لیے بہت سارے نئے ساتیھوں کی تربیت کی اور اپنا مطالعہ بھی کرتا رہا۔ کچھ ماہ گزرنے کے بعد اسے میسج ملا کے تمہیں شال آنا ہے، ایک بہت ہی ضروری کام ہے، میں مہرزاد بی ایس او آزاد کا مرکزی جنرل سیکرٹری ہوں اور کل ہی تمہیں نکلنا ہوگا۔
حیدر نے فوراً ٹکٹ کیا اگلے روز صبح کے لئے اور وہ حیران تھا کہ کیا ایمرجنسی ہے، زیادہ سوچے بغیر اپنے تنظیمی مرکزی جنرل سیکرٹری کے بلاوے پر وہ اگلے صبح شال کے لیے روانہ ہوا۔ مہرزاد نے اسے دوسرے دوست سے رابطہ کروایا کہ پہنچتے ہی اس سے رابطہ کرنا تمہیں سنبھال لے گا۔
حیدر نے پہنچتے ہی اس سے رابطہ کیا، وہ سنگت حیدر کے نزدیک آکر کہنے لگا “تم ہو دیدگ؟”، جی ہو، “سنگت دیدگ” حیدر کا کوڈ نام تھا، لڑکے نے اپنا نام نہیں بتایا، رازداری اہم تھی۔ پھر حیدر کو ایک مکان میں لے گیا، وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ حیدر اکیلا تھا اسے اجازت نہیں تھا باہر جانے کے لیے کہ کوئی پہچان نہ لے وہ کھانا کمرے میں لاتا تھا اور کچھ کتابیں دئیے مبائل بند کرنے کے لئے کہا گیا اور مطالعہ کرکے وقت گزارنا تھا۔
رات کو اس نے بتایا کے کونسل سیشن کے لئے تمہیں چنا گیا ہے، کونسلر کی حیثیت سے اگلے روز صبح سویرے ناشتہ لایا اور کہنے لگا “ناشتہ کرکے تیار ہو جائو”۔ ناشتہ کرکے تیار ہوکر روانہ ہوئے ایک بڑی سی بلڈنگ تھی، اس میں گئے بلڈنگ میں ایک ہال تھا وہاں بہت سارے لوگ تھے۔ حیدر نے دیکھا کے نوید بھی یہاں ہے، قربان نوید جان بہت عرصے بعد نوید کو دیکھ رہا تھا۔
نوید حیدر کو دیکھتے ہی مسکراتے ہوئے آگیا، گلے لگایا، حیدر کو پتا چلا کہ نوید مرکزی سنگت ہے۔ حیدر خوش ہوا، نوید کو دیکھ کر سائڈ پر اڑضو کھڑا ہنس رہا تھا، اکر گلے لگایا، حال احوال ہوا۔ حیدر کے بعد نوید نے اڑضو کو بھی شامل کیا تھا۔
آواز آیا کہ سب بیٹھ جائو، سب بیٹھ گئے۔ کوئی آہستہ سے سائڈ والے سنگت کو کہہ رہا تھا “دیکھو یہی ہے مہرزاد، حیدر بھی پہلی بار دیکھ رہا تھا، مرکزی دوستوں کو اور ان کے کیا کیا کام تھے۔”
دیوان ہوا، مہرزاد نے دو سالہ کارکردگی کو بیان کیا، بحث مباحثہ ہوا تنقیدی نشست ہوئی، حیدر کے لئے یہ ایک اعزاز کی بات تھی جس دیوان میں کبھی کماش بشیر زیب ہوا کرتا تھا، زاکر جان، زاھد جان، حیدر کے لئے یہ دیوان ایک بہت بڑا تجربہ تھا۔ دیوان ختم ہوا، سب واپس اپنے اپنے جگہ پر گئے۔ رات دوبارہ حیدر نے اکیلا گزارا بغیر مبائل کے اگلے روز پھر دیوان تھا گچین کاری یعنی کابینہ کا انتخاب ، سب نے اپنا نام دیا، مرکزی ممبر کے لیے حیدر نے اپنا نام نہیں دیا، حالانکہ قابل تھا لیکن نہیں دیا اپنا نام کیونکہ حیدر نے فیصلہ کر لیا تھا مسلح جنگ کے لئے۔
نوید وائس چیرمین منتخب ہوا، اڑضونے بھی سینٹرل کمیٹی کے لئے نام دیا تھا لیکن وہ کچھ ہی ووٹ سے رہ گیا۔ دیوان ختم ہوا، نوید کو حیدر نے مبارک باد دی اور سب دوستوں کو نوید نے کہا “آئو، میں تمہیں دوستوں سے ملاتا ہوں۔” نوید نے حیدر کو ڈانٹتے ہوئے کہا “تم نے کیوں اپنا نام نہیں دیا؟”، حیدر نے کہا “ماما، بس نہیں ہوا، خیر، آپ لوگ ہو، ہمارے رہنمائی کے لئے۔” نوید نے حیدر کو مہرزاد سے ملایا، مہرزاد بہت ہی نرم لہجے میں اور مسکراتے ہوئے کہا ”
امر اُس سنگت طبیت نے امر ئے، سفر نے جوان مس؟ (کیسے ہو، سنگت طبیت؟ تمہارا ٹھیک ہے؟ سفر اچھے سے ہوا؟) جی ہَئو، سنگت! سلامتی ئے حیدر نے بھی جواب دیا۔ مہرزاد نے بھی حیدر سے کہا، “تم نے اپنا نام کیوں نہیں دیا؟” حیدر نے کہا، “مسکراتے ہوئے، سنگت ابھی تک میں اس لائک نہیں ہوا ہوں۔” مہرزاد نے کہا، “تم اس حد تک قابل ہو کہ چیزوں کو سمجھتے ہو، آگے جاکر انسان سیکھتا ہے۔ یہاں انسان غلطیاں کرتا ہے لیکن اُن غلطیوں سے سیکھنے کو ملتا ہے۔ انسان جب محنت کرتا ہے تو بہتر سے بہتر ہوتا جاتا ہے۔ ہم سب نے اسی طرح سیکھا ہے۔ بی ایس او آزاد بلوچستان کا پورا تحریک نہیں، تحریک کا ایک حصہ ہے، اور یہ سیاست کی نرسری ہے۔ ایک بلوچ نوجوان کا یہاں شعوری تربیت ہوتا ہے۔ اسی لئے ہمارا یہ مقصد ہے کہ ہم بہت سارے بلوچ نوجوانوں کو اس آرگنائزیشن میں لا کر اُن کا شعوری تربیت کر سکیں، جو کچھ ہم نے سیکھا ہے، وہ دوسروں کو بھی سکھا سکیں تاکہ جب یہاں سے ہماری تربیت ہو تو ہم اس آزادی کی تحریک میں مزید اپنا کردار ادا کر سکیں۔ حیدر کی وہاں پے چیرمین سے بھی ملاقات ہوئی، لیکن وقت کم تھا، سیکیورٹی رسک کی وجہ سے صرف سلام دُعا ہوسکا۔ کونسل سیشن ختم ہوا حیدر کے لئے ایک خوبصورت تجربہ رہا، جہاں سب عظیم دوستوں سے ملا جو کہ ایک عظیم مقصد کے لئے یکجاہ تھے۔ کسی کو پہچانتا نہیں تھا لیکن اس مقصد کی وجہ سے ان سب سے بے انتہا پیار تھا۔ حیدر پنجگور گیا، وہاں اس سرمچار نے حیدر سے رابطہ کیا اور اسے کہا کہ تم سب کچھ وہاں سے چھوڑ دو اور ٹھیک چار دن بعد دوپہر کے وقت ایک گاڑی پکڑو اور بارڈر کی طرف آئو۔ حیدر نے عارف سے رابطہ کیا اور کہا کہ میں سیاست نہیں کر سکتا، مجھے پیسے کمانے ہیں ، بہانہ بنا کر آرگنائزیشن چھوڑ دیا۔ اس نے اپنی پڑھائی بھی چھوڑ دی۔ حیدر کا 6th سیمسٹر ابھی شروع ہوا تھا، وہ اب پنجگور سے بخوبی واقف تھا، لوگوں سے واقف تھا، اس نے کمرے سے اپنا سامان اٹھایا، جس طرح اس سرمچار نے سمجھایا تھا، اس نے کہا تھا کہ گندے کپڑے پہننا ایک چادر اٹھانا۔ اب وہ کسی اور ہاسٹل میں رہنے گیا اور چار دن بعد وہ باڈر پہنچا۔ سنگت نے میسج پر کپڑوں کا رنگ پوچھا، پھر کہا کہ وہاں اتر گئے فلانی ہوٹل پر جانا، وہاں تمارا انتظار کر رہے ہونگے۔ حیدر جیسے ہی اتر گیا اس نے سفید زمباد کو دیکھا، وہاں صرف وہی گاڑی کھڑا تھا اُس گاڑی کے ساتھ ایک درمیانی قد کا گھنگریالے بالوں والا ایک لڑکا کپڑوں پہ ڈیزل لگا کھڑا تھا، چہرے پر مٹی تھی، مسکرا کر حیدر کو گلے لگایا اور کہا، “اسّول برابر، اُس کس آنا باوہ بی تِپّک نے (بلکل برابر ہو، ان کپڑوں میں کسی کا باپ بھی تمیں نہیں پہچانے گا)۔” حیدر ہنس رہا تھا، لڑکے نے کہا، “میں کھانے کے لئے سالن لیتا ہوں، پھر چلتے ہیں۔” حیدر سے ایسا ملا جیسے سالوں سے اسے جانتا ہو۔ حیدر بھی خوش ہوا، کہا، “لڑکا سالن ہاتھ میں لئے آ پہنچا حال احوال کے بعد کہا بیٹھو گاڈی میں چلتے ہیں نا؟” اس نے نام پوچھا، نہ جگہ نہ کچھ اور نہ حیدر کو اجازت تھا ان سب باتوں کا، جس سے حیدر رابطے میں تھا۔ اس نے میسج کر کے کہا، “موبائل بند کر کے اس لڑکے کو دو، میں تمارا حال احوال اُسی سے لیتا رہوں گا”، اور پھر لکھا، “اوارن سنگت”۔ جی ہئو، اوارن سنگت! حیدر نے میسج کرکے موبائل بند کیا اور اس لڑکے کو موبائل اور بٹوا دے دیا۔ اس سرمچار نے اس لڑکے کو کال کرکے بتایا کہ اب سنگت تمہارے حوالے ہے، حیدر کو سلامتی سے منزل کو پہنچائو۔ لڑکے نے کہا، “انشااللہ بے فکر رہو، سنگت!” حیدر اور وہ لڑکا سفر کے لئے نکلے، حیدر اس لڑکے کو کبھی سنگت، کبھی مولوی کہا کرتا تھا۔ اس کا داڑھی بڑا تھا، نمازی بندا تھا، مولوی نے کہا، “پڑھ رہے ہو؟” ھاں، مولوی، پڑھ رہا ہوں، لیکن دو سال رہتا تھا پڑھائی مکمل کرنے چھوڑ دیا۔
صحیح ہے، یہ بھی ایک ایک مقدس کام ہے جو تم نے چنا ہے، تمارے لوگ غلام ہیں، پہلے اس غلامی سے نکلنا ہے ہمیں ، آزادی لو، پھر بلوچستان میں اچھے معیار کے تعلیمی ادارے کھولینگے۔ کیا کہتے ہو؟ بلکل، سنگت، ایسا ہی ہے۔
جنگ کا فیصلہ کر کے بہت صحیح کیا تم نے، دیکھنا تمہارا ضمیر بہت خوش ہوگا۔ موت تو ویسے بھی ہے، لیکن کم سے کم اس موت میں زلت نہیں، فخر ہے، لڑکے نے کہا ۔

ہئو مولوی بلکل صحیح کہہ رہے ہو، حیدر سنگت کی باتیں سن رہا تھا اور اسے مزہ آرہا تھ مولوی کی باتوں سے کے ساتھ اس سفر کرتے۔ ایک کھیت کے نزدیک گاڑی رکی اور مولوی نے کہا، “کھانا کھاتے ہیں، پھر چلتے ہیں۔” دونوں نے کھانا کھایا ، مولوی نماز پڑھنے لگا۔ حیدر اسے دیکھ رہا تھا، کمال کا بندا ہے، مذہب اور قومیت دونوں خوبصورتی سے نبھا رہا ہے۔اپنا نماز بھی پڑھ رہا ہے اور قومی آزادی کے لئے جنگ بھی لڑ رہا ہے۔

حیدر کو پتا نہیں تھا کہ کہاں جا رہے ہیں، اس نے مضبوط جوتے پہنے ہوئے تھے تاکہ پہاڑوں پر چلنا آسان ہو ۔ وہ تین گھنٹے سفر کے بعد ایک گھر گئے۔ حیدر نے رات کو آرام کیا اور اگلی صبح چائے پراٹھہ ناشتہ کیا۔ ایک Honda 125 پر دوبارہ نکل پڑے دشوار راستوں کو پار کر کے جا رہے تھے تقریباً شام پانچ بجے سفر جاری تھا، حیدر سفر سے تھکاوٹ محسوس کر رہا تھا۔ سنگت نے حیدر سے کہا، “ہم باڈر پار جائیں گے رات کے وقت۔ ابھی تھوڑا آرام کرو، رات کا انتظار کرو۔” رات دو لڑکے آئے جن کا گھر بارڈر کے نزدیک تھا، وہ واقف تھے تمام قریبی جگہوں سے۔ حیدر کے ساتھ چار بندے پیدل سفر پر نکلے۔ دو گھنٹے سفر کے بعد بارڈر کے تار دکھ رہے تھے۔ بلکل خاموشی میں بات کر رہے تھے۔ دھیمی آواز میں ان لڑکوں کو پتا تھا کہ کس جگہ سے تار کٹے ہوئے ہیں۔ پیدل دھیمی آواز میں تاروں کے نزدیک پہنچ گئے۔ لڑکے نے آواز دی، “یہاں سے جائو، حیدر اور مولوی نے تار پار کئے اور دوڑنے لگے۔” کچھ ہی فاصلے پر تقریباً چالیس سال کا آدمی ان کا انتظار کر رہا تھا۔ سلام سنگت آک دھیرے آواز میں۔
مولوی نے سلام کا جواب دیا، “اکیلے ہو ؟۔ مولوی نے پوچھا . اس شخص نے کہا، “ہاں، گاڑی اُدھر تھوڑا آگے کھڑی ہے، چلو جلدی جلدی۔” وہ سب تیز قدم لگا رہے تھے، حیدر پیچھے رہ گیا اور پانی پانی کہہ رہا تھا۔ اس شخص کے پاس چھوٹا سا گلاس تھا اور دونوں رُک گئے پانچ منٹ کے لئے۔ حیدر نے پانی پی لیا اور کچھ دیر اسے آرام آیا۔ اس شخص نے کہا، “چلو جلدی یہاں سے۔” پھر چلنے لگے، حیدر گاڑی ڈھونڈ رہا تھا کہ کب گاڑی ملے گا۔ کچھ دیر چلنے کے بعد ایک زمباد دیکھائی دے رہا تھا۔ حیدر خوش ہو گیا اس کا ساتھی مسکرا کر کہنے لگا، “پٹا ہے نے حیدر، لعنت ہے تم پر حیدر۔” مشکل تو نہیں تھی لیکن حیدر نے پیدل سفر بہت کم کیا تھا، اس لئے جلدی تھک گیا۔ گاڑی میں بیٹھ گئے اور سفر کے بعد ایک جھونپڑی میں رات گزارنا تھا، جھونپڑی خالی تھا۔ چالیس سال کا شخص روٹی بنانے لگا اور حیدر نے دال پکانا شروع کیا۔ مولوی نے آگ سنبھالی اور حیدر نے دال پکائی۔ حیدر اب ایران میں تھا اور اب اسے محسوس ہوا کہ پہاڑوں پر نہیں جا رہے تھے۔
رات کھانا کھا کر سو گئے، صبح سویرے اُٹھ گئے اور تینوں سفر کے لئے نکل پڑے۔ چار گھنٹے بعد ایک بازار میں پہنچ گئے، وہاں کچھ کھا پی کر بیٹھ گئے، دو گھنٹے بعد ایک فارسی آدمی آیا، مولوی فارسی بول سکتا تھا۔ مولوی نے کہا، “آگئے ! تمہارا ساتھی یہی ہے۔” اس فارسی نے مولوی کو کچھ پیسے دیے اور مولوی واپس چلا گیا، حیدر اور وہ فارس ایک دوسری گاڑی میں بیٹھ گئے، دوبارہ سفر کے لئے روانہ ہو گئے۔ حیدر کو شہروں کے نام پتا نہیں تھے اور نہ ہی اُسے کوئی بتا رہا تھا۔ ایک کے بعد دوسرا شہر آتا گیا، فارسی گاڑی بھگا رہا تھا، حیدر گاڑی میں سو گیا۔ تقریباً پانچ گھنٹے گزرنے کے بعد فارسی ڈرائیور نے کہا، “اُٹھو ! ” پورے رستے میں دونوں نے بات نہیں کیا تھا۔ حیدر گاڑی سے اُتر گیا اور فارس نماز پڑھنے لگا، حیدر بھی اس کے پیچھے گیا۔ نماز ادا کرنے کے بعد فارس اُس سے پہلے نماز ادا کر چکا تھا، حیدر نماز ادا کرکے ایسا ہی بیٹھا تھا۔ پیچھے دو اور فارسی آئے تھے اس نے دوسرے فارس کو رخصت کیا اور حیدر ان کے حوالے کردیا۔

بر کان سنگت (آئو چلیں سنگت) حیدر حیران ہو گیا، فارسی کی شکل میں براہوئی زبان بول رہا ہے۔ سنگت ای سمجاٹ فارسی اس ؛ اور ہنستے ہوئے بولا: “ہاں، سنگت بننا پڑھتا ہے اس طرح۔ پھر رسمی ھال ھوال ہوا، حیدر سے پوچھا: “تکلیف تو نہیں ہوئی؟ سفر کافی لمبا تھا۔” نانا: “سنگت بہت زبردست گزرا ہے سفر۔” دو گھنٹے کے اور سفر کے بعد گھر گئے۔ رات کا کھانا ہوا، حیدر سے علاقے کا حال پوچھا اور ایسے ہی حال احوال کیا۔ انہوں نے حیدر کے بارے میں سب کچھ معلومات نکلوائے تھے: “فیملی کیا کرتا ہے؟” سب کچھ جو ایک نئے سرمچار کے بھرتی کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ ایک ماہ تک حیدر اُدھر ہی رہا، اسی درمیان حیدر کا ٹریننگ ہوا۔ شہری گوریلا کی حیثیت سے بندوق چلانا، بمب بنانا، میگنیٹ بمب بنانا، خودکش جیکٹ، بارود کا استعمال، وہ تمام چیزیں جو ایک گوریلا کے لئے ضروری ہیں۔ حیدر کے لئے تنظیمی نام چُنا گیا: حیدر پنجگور میں کام کرنے کے لئے چنا گیا تھا۔ حیدر تنظیمی کمانڈر کا پابند رہتے ہوئے کام انجام دیگا۔ اُسے دوبارہ پنجگور بھیجا گیا، وہاں علاقائی کمانڈر کے نیچے کام کرنا شروع کیا۔ کام کے حساب سے، ساتھی کم یا زیادہ چُنے جاتےتھے۔ حیدر نے بہت ہی بہادری سے مشن مکمل کیے، بہت سارے مخبر مارے، بہت سے چیک پوسٹوں پر حملے کیئے ایک دفعہ پروم میں حیدر کو اکیلا ایک کام سونپا گیا: اُسے ٹارگٹ کے لئے بمب نسب کرنا تھا۔ حیدر روڈ کے کنارے بھیس بدل کر گیا، بمب اُس کے ہاتھ میں تھا۔ اُس نے ارد گرد دیکھا، کوئی بھی نہیں تھا۔ اُس نے بمب کو نیچے جھاڑیوں میں رکھا۔ اوپر دیکھا تو ایک کار گاڑی میں سول آدمی آپہنچا۔ کہنے لگا: “کیا کر رہے تھے؟” اردو میں بات کی حیدر نے کہا؟ “کچھ نہیں، وہ ایک پولیس افسر تھا۔” اُس نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی۔ حیدر نے زور سے دکھا دے کر دروازہ بند کیا، بائک اسٹارٹ ہوا۔ حیدر بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔ پولیس والا وہاں سے تیزی سے گیا۔ حیدر نے کمانڈر کو آگاہ کیا، کمانڈر کو لگا کے حیدر پکڑا گیا ہےشاہد: ” اب اس سے پتا لگوانا چاہتے ہیں باقی دوستوں کا۔”
کمانڈر نے کہا: “تصویر بیجھو، ابھی کہاں ہو تم؟” حیدر نے تصویر بھیجا، کمانڈر کو یقین آیا۔ حیدر کو اب دو سال سے زیادہ ہوا تھا، وہ شہری گوریلا کے حیثیت سے کام کر رہا تھا۔ اب حیدر نے فیصلہ کیا: “مجید برگیڈ یونٹ میں فدائی کا تنظیم نے موقع دیا۔” فیصلے پر نظرثانی کے لئے مزید ایک سال گزر گیا، حیدر اسی طرح پنجگور میں اپنے فراض سر انجام دے رہا تھا۔ سال بعد تنظیم نے اسے بلایا، فدائی ٹریننگ کے لئے حیدر نوشکی گیا۔ نوشکی سے دوستوں نے اُسے اپنے حوالہ کیا، وہاں جب حیدر پہنچا، ویگن سے اترے ہوئے پانچ منٹ ہو گئے تھے کہ ایک نوجوان آیا۔ وہ آتے ہی کہنے لگا: “بسمل، کیا حال ہے؟” اُس نے حیدر کو پہچان لیا، جیسے وہ اُسے جانتا ہے۔ کھانا کھانے کے بعد، سفر کے لئے نکل پڑھے ہفتوں سفر کے بعد، بہت بڑے پہاڑوں کے درمیان پہنچ گئے۔ یہ سفر گدہوں اور پیدل بہت ہی دشواری سے سر انجام پایا۔

جب حیدر اور اس کا ساتھی وہاں پہنچے تو وہاں ایک غار تھا۔ غار کے باہر ایک مضبوط و چالاک آدمی کھڑا تھا جس کے ہاتھ میں کلاشن تھی۔ ساتھی نے اس کا نام زیب بتایا۔ اس خوش آمدید کہا اور غار کے اندر لے گیا۔ وہاں مزید دو دو سرمچار بندوق لیئےمستعدی سے کھڑے تھے ۔ آگے کچھ ساتھی بندوق کھول کر صاف کر رہے تھے ۔ جب اندر گئے، سب اٹھ کر ہاتھ ملانے لگے۔ اب رسمی حال احوال ہوا تعارف ہوا، لیکن تنظیمی ناموں کے علاوہ اور کوئی شناخت نہیں ظاہر کرنی تھی۔ یہ تینوں دو دن پہلے پہنچ چکے تھے، جہاں حیدر سمیت ان کا ٹریننگ ہونا تھا۔ کچھ نوجوان خواتین بھی تھیں جو مسلح جہد میں شامل ہو گئیں تھیں ۔

ان میں سے ایک کی نام زینب تھی، قد میں لمبی تھی۔ اس نے گلابی بلوچی جوڑا پہنا تھا، سر پر دوپٹہ روشن چہرا، کلاشن سامنے رکھا ہوا تھا۔ وہ دم دار لگ رہی تھی۔ دوسری کی نام رابعہ تھی، قد میں درمیانہ سیاہ بلوچی جوڑا پہنا تھا۔ چہرے پر مسکراہٹ بلکل کمزور نہیں لگ رہے تھے، جن میں ایک دم دار روب تھی۔ لڑکے کا نام پیرو تھا، جو لگ بگ تیس سال کا تھا، پہلاوان تھا، جس کے بال بہت چھوٹے تھے، داڑھی لمبا، سیاہ آنکھیں۔

یہ ایک چھوٹا سا ٹریننگ کیمپ تھا۔ اس کے علاؤہ آس پاس کے پہاڑیوں پر دوسرے کیمپ بھی تھے ۔
گشتی ٹیم کا رات کا کھانا پکا ہوا تھا۔ زیب نے نئے آئے ہوئے سنگتوں سے کہا کھانا کھا کے سو جائو، کل سے ابتدائی ٹریننگ شروع ہوگی۔ کھانا کھا کے سو گئے، اس رات دیوان کا موقعہ نہیں ملا۔ اگلی صبح جب نیند سے اٹھے تو کمانڈر اور دوسرے لوگ باہر تھے، حیدر جلدی سے اُٹھ کر باہر چلا گیا۔
باہر تو بہت سارے سرمچار اکھٹے تھے، کچھ پہاڑ کے اوپر، کچھ پہاڑ کے نیچے۔ زیب نے کہا “آئو حیدر”، وہاں ایک شخص بیٹھا تھا، وہ اٹھ کر سلام کرنے لگا، حیدر نے بھی احترام سے سلام کا جواب دیا۔ اس کے داڑھی میں سفید بال تھے، حیدر بلکل اس کے نزدیک بیٹھ گیا۔ اس نے رسمی حال حوال کرنا شروع کیا، حیدر کو اندر اندر محسوس ہوا۔ اس آواز کو میں نے سنا ہے؟مگر وہ اسے پہچان نہیں پا رہا تھا۔ وہ اپنے دماغ پر زور ڈال رہا تھا، وہاں سے وہ شخص باتیں کر رہا تھا، پھر اسے یاد آیا کے یہ آواز میں نے بی ایل اے کے ویڈیوز میں سنا ہے۔ وہ کمانڈر اینڈ چیف کماش بشیر زیب تھا۔ پھر حیدر کافی خوش ہوا کے وہ کماش بشیر زیب کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ کر رہا ہے، کماش ڈسکشن کر رہا تھا، جنگ کی بارے میں بلوچستان کے بارے میں سب سن رہے تھے۔ کماش کا اسپیشل یونٹ اس کے ساتھ تھا اور باقی حیدر اور اس کے ساتھی جن کا ٹریننگ ہونا تھا۔
کماش نے حیدر سے مخاطب ہو کر کہا “نی بی ایس او آزاد ٹی مسسّونُس؟” (تم بی ایس او آزاد میں تھے)، بہت ہی نرم اور محبت بھرے لہجے میں کماش بات کر رہا تھا۔ حیدر نے کہا “جی ہو کماش (جی ہاں کماش) امر اے گڈا بی ایس او آزاد داسا؟” (اب کیسا ہے آرگنائزیشن)، کماش کو سب پتا تھا لیکن وہ حیدر سے باتیں سننا چاہتا تھا۔
حیدر نے کہا “کماش مجھے عرصہ ہوا ہے، میں وہاں نہیں ہوں لیکن میں نے بہت کچھ سیکھا ہے، وہاں سے آپ کی کتابیں بھی پہنچ جاتی تھیں، ہمارے دوست محنت کر رہے ہیں، کتاب مطالعہ پر زیادہ زور دیا جاتا ہے، کام اپنے حساب سے بہتر سے بہتر ہو رہے تھے، باقی خامیاں ہر ادارے میں ہوتی ہیں، لیکن دوست بہت محنت کر رہے ہیں۔”
کماش نے کہا “اچھا تو میری کتاب آپ لوگ کو پہنچ گیا تھا، زبر دست اور سنائو پنجگور میں تمہارا کام اور دوست کیسے تھے؟” حیدر نے کہا “کماش کام زبر دست تھا، ماشااللہ سے”، کماش نے کہا “سہی سہی”، کماش اور حیدر کے درمیان بہت دیر تک ڈسکشن ہوا، مختلف قومی تحریکوں کے بارے میں، بلوچستان کی جنگ، اس کے تقاضے، تامل ٹائگرز کی ناکامی کی وجہ، حیدر نے پوچھا کماش نے خامیاں بتائیں۔ حیدر نے کماش سے پوچھا “کے کماش بلوچستان میں لس مخلوق کے موبلائزیشنز کے لیے پارٹیوں کا کیا کردار ہے؟”

کماش نے کہا، “ہر چیز کے لئے گراؤنڈ پر ہونا لازمی ہوتا ہے۔ بلوچستان کے قومی آزادی کے دعویدار پارٹیاں ہیں، ان کے نتائج کیا ہیں؟ اگر کوئی آرگنائزیشن ہے، چاہے وہ اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن ہے چاہے مسلح ہے یا وہ لس پارٹی ہے، اس کے کام اُسے ظاہر کرتے ہیں۔ بی ایل، اے بی ایل ایف یمور دوسری تنظیمیں، ان کی پہچان ان کے کاموں کا رزلٹ ہوتا ہے۔ کہ وہ کتنے کام کر رہے ہیں؟ ہاں، ہو سکتا ہے آنے والے وقتوں میں ان کے کام کے نتائج آئیں تو ان کا کردار بھی ان کے کام ہی ظاہر کریں گے۔
کماش شال میں لگا مسنگ پرسنز کا کیمپ اور بلوچستان میں آئے روز، یہ احتجاج ہو رہے ہیں۔ ان سے ریاست کو کوئی نقصان پہنچ رہا ہے؟ یا بلوچ قومی جنگ کو فائدہ پہنچ رہا ہے؟
کماش جواب دیتے ہوئے، کماش سامنے بیٹھا تھا حیدر بلکل اس کے نزدیک بیٹھا ہوا تھا۔ کماش سبز چائے پیتےہوئےںگفتگو مر رہا تھا انھوں نےجواب دیاکہ دیکھو، ایسا ہے اگر جنگ نہ ہوتا تو کوئی مسنگ نہ ہوتا۔ اگر جنگ نہ ہوتا، شاہد ہم بھی غلامی میں ڈھل چکے ہوتیں۔ ہمارے نوجوانوں کے خون کے بدولت ہی ہماری شناخت زندہ ہے۔ سرمچار ایک حملہ کرتے ہیں، ریاست اپنی بے بسی اور غصہ عام لوگوں پر نکالتا ہے۔ اب دیکھو، ریاست کہتا ہے تم اپنا بھڑاس احتجاج کے زریعے نکالو، قبول ہے لیکن بندوق اٹھا کر نہیں۔ لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ احتجاجی ریلی یا باقی چیزیں فاہدہ مند نہیں ہیں۔ ان احتجاجوں سے آپ کا ماس موبلائزیشن ہو رہا ہے، لوگوں میں ایک احساس پیدا ہوتا ہے اور اس احساس کو مسلح جنگ کے لیے اور بھی زیادہ مضبوط کریں۔ پھر جنگ اور بندق سے نکلی ہوئی گولی اور بھی زیادہ موبلائزیشن کریگا۔ مسنگ پرسنز ایک ایسا مسئلہ بن گیا ہے جو بلوچستان کی آزادی کے بعد ہی حل ہوگا۔ کیونکہ ہم جنگ بلوچستان کی آزادی تک جاری رکھیں گے اور ریاست اس کا ری ایکشن مسنگ پرسنز اور مسخ شدہ لاشوں کی صورت میں دے گا۔ بہتر یہی ہے کہ جنگ میں شامل ہوں اور کسی مقصد کے لیے اپنی جان قربان کریں اپنے آنے والے نسلوں کے لئے ہمیں خود کو قربان کرنا ہوگا۔
قومی موبلایزیشن کیلئے مسنگ پرسنز کے ذریعے سیاست و بیداری کرنا بلکل غلط نہیں ہے، دنیا میں قومیں اسی طرح کرتے آرہے ہیں ویتنام کی تحریک میں ہوچی من نے حالات کے حساب سے نعرے بدل کئےتھے شروع میں چھوٹے مطالبات کے حساب سے نعرے اختیار کئے تھے جیسے ہی اُن کا گوریلا جنگ شدت اختیار کرتا رہا اور علاقے ان کے قبضے میں آتے گئے ان کے احتجاجوں میں آزادی کے نعرے لگنے لگے۔ آج بلوچستان میں وہ حالات پیدا نہیں ہوئے ہیں جنگ میں اور زیادہ شدت لانا ہوگا پھر حالات بدل جائیں گے۔ بلوچستان کی عوام ہر صورت میں نکلے گی اور آزادی ہر فرد کی زبان پر ہوگا۔
پھر کماش نے بات ختم کیا اور مجید برگیڈ کا یونیفارم لایا تھا۔ اُس نے اپنے ہاتھوں سے یونیفارم تقسیم کیا اور کہنے لگا، “مشن کی تیاری شروع کرو۔ بہت سارہ پیار دیتے ہوئے کماش نے کہا، “مجھے جانا ہوگا آوارن سنگت آک۔
سب نے کہا، “آوارن، کماش!” ٹریننگ شروع ہوا سات ماہ تک ٹریننگ چلا ٹریننگ میں قابلیت کے بنیاد پر ٹیم لیڈر چُنا جاتا تھا۔ حیدر کو ٹیم لیڈر چنا گیا۔ خاتون سرمچار رابعہ بہت چالاک اور تیز تھی، اُسے لیڈر کے بعد کے اختیارات دیئے گئے ان گروپ میں چار سنگت تھے جو ٹریننگ پا رہے تھے ۔
یہ چاروں بہت ہی ٹرینڈ گوریلہ بن گئے۔ اب ٹارگٹ پر حملے کا وقت آچکا تھا، انٹیلیجینس ونگ نے پہلے ہی سے تمام انفارمیشن اور نقشہ بنا کر لایا تھا اور ان ہی کے بنیاد پر ہی ان چاروں کو ٹریننگ ملا تھا۔
ٹارگٹ شال ایف سی ہیڈ کوارٹر تھا۔ آخری کچھ دنوں کے لئے کماش پھر آیا رخصت کے لئے۔ کچھ دن فدائیوں کے ساتھ گزارا، وہیں پتا چلا کے کمانڈر زیب ہی کمانڈر مرید ہے، جس نے ٹریننگ مکمل کروایا تھا ان چاروں کو۔
سب سے رخصت ہوتے ہی چاروں کو بہت ہی احتیاط سے شال پہنچایا۔ آپریشن شاری شروع ہونے والا تھا ۔ رات تین بج کر پانچ منٹ پر دو ٹیمیں دو کار گاڑی ھیڈ کواٹر کے نزدیک دونوں گاڑیوں کو اہم لوکیشنز پر کھڑی کر دی گئیں۔ دونوں گاڑیاں بارود سے بھرا گیا تھا ، تین اور جگہ پر ریمورٹ کنٹرول بمب نسب کیے گیےتھے ۔ دیوار پر سیڑھی لگائی گئی۔ حیدر آگے اس کے پیچھے، رابعہ پھر زینب، آخر میں پیرو ۔ حیدر نے دیوار کے تار کاٹے اور ایک ایک کرکے سب اندر جا کر دو ٹیموں میں بٹ گئے ایک میں حیدر اور زینب دوسرا رابعہ اور پیرو۔ سب پوزیشن پر تھے، حیدر نے کہا، “سب برابر ہیں ساتھیوں، ٹارگٹ سامنے ہیں۔” سب نے اشاروں میں کہا، “جی کمانڈر”۔

ٹھیک ہے، حملہ شروع کرو، کسی کو نہیں چھوڑنا، اور جلدی مرنا نہیں ہے ساتھیوں۔ حملہ شروع ہوا، چاروں طرف گولیاں برس رہی تھیں۔ بلڈنگ کے اندر گھس گئے، دروازہ کھولتے اور مارتے جاتے، تین گنٹھےگزرنے کے بعد حیدر نے کہا، “سب ریموٹ کنٹرول بمب بلاسٹ کرو”، رابعہ نے کہا، “جی ہئو سنگت”۔ باہر آرمی والوں نے کیمپ کو گیرے میں لیا تھا، رابعہ نے پانچوں بمب ایک ہی بار بلاسٹ کیئے بلاسٹ سے زمین لرزنے لگا، اتنا شدت اور زور دار آواز کے ساتھ بلاسٹ ہو گیا۔ باہر کے عمارت گِر کر تباہ ہوگئے تھے، بہت سارے آرمی والے مردار ہو گئے تھے۔ صبح ہو گئی، چاروں سلامت تھے لاشوں کے ڈیر لگ گئے تھے۔ رابعہ بہت تیز تھی بندوق چلانے میں اور شرارتی بھی ہنس ہنس کر مار رہی تھی۔ زینب نے کہا، “میں نے پانچ کو ہیڈ شاٹ مارا ہے اور کل تقریباً سترہ ماری ہیں”، پیرو نے کہا، “واہ زینب، تم تو کمال ہو”، زینب نے پیرو سے کہا، “تم بھی کم نہیں ہو، پہلاوان” ہنستے ہنستے جنگ لڑ رہے تھے۔
زینب اور حیدر باہر پوزیشن سنمبالنے کے لئے گئے، جگہ محفوظ چُنی گئی تھی۔ اب کیمپ سے بہت سے فوجی بھاگنے کے لئے دوڑ رہے تھے۔ زینب اور حیدر ایک ایک کو مار رہے تھے، سنائیپر شاٹ سے زہنب کو دو گولیاں لگیں، زینب زخمی ہو کر گِر گئی ۔ حیدر نے زینب کو سنبھالتے ہوئے محفوظ جگے منتقل کیا “تم ٹھیک ہوجائو گے، زینب! گھبرانا نہیں ، زینب مضبوط و مطمئین تھی، لیکن بہت ہی تکلیف میں تھی، وہ تڑپنے لگی، درد سے وہ مر رہی تھی، لیکن آہستہ آہستہ اور تڑپ کر نڈر تھی، ہنس رہی تھی کہنے لگی، “بندوق دو، مجھے حیدر پسٹل دو، اتنے میں”، رابعہ آگئی، “کیسے ہوا؟” حیدر نے بتایا، رابعہ کو زینب کا سر حیدر کی گود میں تھا، حیدر نے پسٹل دیا زینب کو، زینب نے کہا، “مجھے اُٹھنے میں مدت کرو”، حیدر نے مدت کیا، زینب دیوار پر ٹیکھ دے کر سہارہ لیا، اور حیدر اور رابعہ کو گلے لگانے کے لئے کہا، دونوں نے گلے لگایا، پیرو اپنی پوزیشن پر تھا۔ زینب نے کہا، “اوارن قربان کنا پھل آک بلوچستان، زندگ بات”۔ پھر ہنس کر کہنے لگی، “آپنا منہ پھیر لو، تم دونوں میں جا رہی ہوں، جلدی مت آنا، تم تینوں دشمن کو اچھے سے مار کر آنا، اوارن گڑا ہئو”۔
حیدر اور رابعہ نے منہ پیر لیا، گولی کی آواز آئی، زینب شہید ہوگئی، رابعہ کے آنکھوں سے آنسو آئے اور حیدر کو گلے لگا کر چلی گئی، اپنی پوزیشن سنبھالنے، حیدر نے زینب کی آنکھیں بند کر کے دوبارہ
اپنی پوزیشن سنبھال لی۔ دوسری رات ہوگئی یہ دوسری رات تھی، اب رات کو night vision lenses استعمال کر کے دشمن کو مارتے، دن کو بلڈنگ کے اندر محفوظ طریقے سے دشمن کو مارتے، پیرو اپنی پوزیشن پر تھا، رات تین بج گئے تھے، ڈرون کا حملہ ہوا، پیرو شہید ہوگیا، پیرو کو حیدر نے بلڈنگ کے ملبے سے نکالتے ہوئے اپنی طرف لایا، زینب اور پیرو شہید ہو گئے، اب صرف رابعہ اور حیدر رہ گئے ہیں، حیدر کو دو گولیاں ہاتھ پر لگی تھیں، لیکن وہ اب تک لڑ رہا تھا، رابعہ نے اسے پٹی کیا اور پین کلر دوا دی، کھانے کے لئے بہت سارے چاکلیٹ اور چنے تھے، بس ربعہ ہنس رہی تھی، حیدر ہنستے ہوئے پوچھا، “کیوں ہنس رہی ہو، رابی؟”، رابعہ کہنے لگی، “سکون مل رہا ہے، دشمن کو مار کر ہے نا، حیدر؟”، “ہاں، سکون تو مل رہا ہے، بس کچھ دن اور سکون حاصل کرنا ہے، مرنا نہیں، ہاھاھاھا” ہنستے ہوئے کہا، “ہئو انشاللہ، سنگت”۔ تیسری صبح ہے، جنگ مسلسل جاری ہے، ابھی دشمن کے کمانڈوز اندر آنے کی کوشش کر رہے تھے، حیدر کو ایک گولی لگی پیٹ میں، اس نے رابعہ کو نہیں بتایا، دوپہر ہوگئی، رابعہ پوزیشن پر تھی، اچھانک دشمن نے اُسے برسٹ فائر مارا، حیدر اسے پیچھے کینچنے لگا، ایک گولی اور حیدر کے پاؤں پر لگا لیکن وہ کامیاب ہو گیا، رابعہ کو محفوظ جگہ لانے میں، رابعہ کو سات گولیاں لگی تھیں، رابعہ پھر بھیڑ رہی تھی ۔ مشکل ہی سے کہنے لگی، “مجھے ماردو میں تڑپ رہی ہوں، حیدر”، حیدر کی آنکھوں میں آنسو تھا اور دیکھ رہا تھا کہ وہ تڑپ رہی ہے، حیدر نے بندوق سے اس کے سر میں گولی ماری، اب رابعہ بھی نہیں رہا، حیدر رات تک اکیلے لڑتا رہا اور رات تین بجے سنائیپر شوٹ سے اُس کے سر میں گولی لگی اور آپریشن شاری کامیابی سے سر انجام پایا۔ یہ جنگ بلوچستان کی آزادی تک جاری رہے گا۔
وطن عشق اولی وطن آخری ءِ


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔