انسداد انسرجنسی کے جبر سے جنی داستان و سیاسی ابھار ۔ کمبر بلوچ

605

انسداد انسرجنسی کے جبر سے جنی داستان و سیاسی ابھار

تحریر: کمبر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

جنرل مشرف کی آمریت کا ابتدائی دور تھا اور بلوچ انسرجنسی کو پنپنے سے روکنے کے لئے شال میں جنوری کی ایک سرد رات نواب خیر بخش کو گرفتار ( مزاحمت کرنے پر قتل کی تیاریاں تھیں ) کیا گیا اور نیو کاہان سے خیربخش مری کے فکری اور تنظیمی ساتھیوں کی گرفتاریاں ہوئیں۔ خیر بخش مری سے جیل میں کاہان سے تیل و گیس نکالنے کے لئے مزاکرات کی کوششیں ہوئیں لیکن انہوں نے بلوچستان میں استعمار کی استحصالی منصوبے قبول کرنے سے انکار کیا اور اکیسوی صدی کا سورج بلوچستان میں ایک نئی امید کے ساتھ طلوع ہوا۔

انسرجنسی کے ساتھ ہی انسداد انسرجنسی پالیسیوں کی بنیاد رکھ دی گئی اور نورا مری جبری گمشدگی کا پہلا نشانہ بنائے گئے۔ فوجی چھاؤنیوں کا جال پورے بلوچستان میں پھیلایا گیا اور ڈیرہ بگٹی و کاہان فوجی جارحیت کے زد میں آئے، جہاں سے ہزاروں لوگ جبری گمشدگی اور ریاست جبر کے شکار بنے۔

سرخیل رہنما اکبر خان بگٹی اور بالاچ خان مری کی شہادت سے تحریک میں ایک نئی ابھار اٹھی اور آزادی کے فکر کو بلوچستان میں ہرسو پھیلا دیا۔ بلوچ انسرجنسی کی شدت کو کم کرنے کے لئے جبری گمشدگی کو بطور ہتھیار استعمال شروع کیا گیا، دو ہزار آٹھ کے بعد پیپلز پارٹی کے دور میں مسخ شدہ لاشوں کی سڑکوں، ویرانوں اور پہاڑوں سے ملنے کا نہ ختم ہونے والے سلسلے کا آغاز ہوا۔

انسداد انسرجنسی کی جبر نے بلوچوں کی ایک نسل کو جلاوطنی سے آشنا کیا، سیاست پر اعلانیہ و غیر اعلانیہ پابندیوں نے بلوچستان میں سیاست کے دریچے بند کئے اور پہاڑ آباد ہوئے۔

دو دہائیوں میں ہزاروں لوگ جبری گمشدہ کئے گئے اور مسخ شدہ لاشوں و اجتماعی قبروں کی صورت میں برآمد ہوئے۔ بلوچ انسرجنسی کے خاتمے کے لئے ریاست پاکستان نے ظلم و جبر کے تمام ذرائع کو استعمال کیا، جس نے بلوچ سرزمین پر ایک انسانی المیہ جنم دیا۔ جبر کی کوکھ سے ہزاروں کہانیوں نے جنم لیا جس سے بلوچ سماج کا ہر طبقہ متاثر ہوچکا ہے۔

دو دہائیاں کہنے کو تو صرف دو لفظ ہیں لیکن ایک بیٹی، ماں، بھائی اور بہن کے لئے اپنے پیاروں کی ایک دید کے لئے دو دہائیوں سے منتظر ہونا دردناک ہے۔ بلوچستان کی ہزاروں بیٹیاں اور مائیں درد ؤ اذیت سے انتظار کے دن گزار رہے ہیں جِن کو لفظوں میں بیان کرتے ہوئے قلم کار خود مخمصے کا شکار ہو جاتا ہے کہ وہ خود اِن کہانیوں کا حصہ ہے جو بلوچستان نامی بڑے کینوس میں وقوع پزیر ہورہے ہیں۔

ایک شخص کی جبری گمشدگی پورے خاندان اور سماج کے لیے اجتماعی تکلیف کا باعث ہے اور جنگ زدہ بلوچستان کے لوگوں کی درد کو وہ لوگ سمجھ سکتے ہیں جو اس درد سے آشنا ہیں۔ بلوچستان جبر و نہ انصافی کے داستانوں سے بھری پڑی ہے اور ریاستی جبر کی عفریت نے سینکڑوں لوگوں کی زندگیاں احتجاج و پریس کلبوں کی نذر کردی ہیں۔

بلوچ سرزمین کے جِن والدین کو بیٹے کے سہارے اپنی زندگی کے آخری دن آرام سے گزارنے تھے وہ بڑھاپے میں بیٹے کی بازیابی کے لئے احتجاج کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں ۔ جِن بچوں کو والد کی شفقت کے ساتھ بچپن کے دن گزارنے تھے اُن کی زندگی والد کے بازیابی کے لیے آواز اٹھانے میں گزر رہا ہے۔

بلوچ وطن کے جِن لڑکیوں کو کالج اور یونیورسٹیوں میں قانون اور سیاسیات کے کلاسز میں لینن و عالمی سیاست پر بحث کرنا تھا، اُن کا زیادہ تر وقت اپنے بھائیوں کی بازیابی کیلئے عدالتوں اور کمیشنوں کے چکر لگانے میں گزر جاتا ہے۔ بلوچ ماؤں کی زندگیاں، دو دہائیوں سے جبری گمشدہ بیٹوں کے لئے انتظار کی گھڑیاں گنتے گزر رہے ہیں، انتظار کی گھڑیاں جو صدیوں پر محیط ہیں۔

بلوچستان نامی بڑے کینوس میں جبر سے متاثر لوگوں کی ہزاروں کہانیاں ہیں جو سننے اور پڑھنے والوں کےلئے منتظر ہیں ۔ اس کینوس کے ہزاروں داستانوں میں صرف وہ داستان آپ تک پہنچتے ہیں جو کیمرے کی کلک میں محفوط ہوکر سوشل میڈیا تک پہنچ پائے ہیں یا کہانی کار نے سپرد قلم کئے ہیں۔ بلوچستان میں ایسے بھی ہزاروں داستان ہیں جِن کو ابھی تک زبان نہیں ملی ہے ۔

جبری گمشدہ افراد کے کہانیوں کو زبان دینے کی پاداش میں کئی قلم کار خود کہانی بَن چکے ہیں۔ اِن کہانیوں کو عالمی میڈیا تک پہنچانے کی کدّوکاوش میں ساجد حسین خود کہانی بن کر اس داستان کا حصہ ہیں۔

چلی میں پنوشے کے آمریت کی وحشت ناکیاں ہوں، کینیا میں ماؤ ماؤ تحریک کو ختم کرنے کے لئے جبر کی انگنت کہانیاں یا بلوچ زمین پر جنم لینے والی ازیت ناک داستانیں ، قابض ؤ جابر کے خلاف جہدوجہد کرنے والے قوموں کا درد مشترک ہے۔

یوراگوئے کے صدر ( 2010 – 2015 ) جوس موجیکا انیس سو ستر/اسی کی دہائی میں یوراگوئے کے دور آمریت میں بارہ سال عقوبت خانوں میں بند رہے اور بلوچوں کے بھی سینکڑوں
جوس موجیکا دو دہائیوں سے پاکستان کے زندانوں میں ازیتیں سہہ رہے ہیں۔

ارجنٹینا میں آمریت کی سفاکیت کے نذر ہونے والی بچوں کی مائیں اپنے بچوں کے لئے بیونس آئرس کی شاہراہوں کا طواف کرتی تھی اور بلوچ مائیں اپنے عزیزوں کے لئے بلوچستان میں استعماریت کے مراکز کا طواف کررہے ہیں۔ عمر ریوابیلا کی کہانیاں بلوچستان میں سانس لے رہے ہیں۔

دو ہزار آٹھ کو سری لنکا نے تامل ٹائیگرز کی موومنٹ کو کچلنے کے لئے جافنا میں جنگ مسلط کردی اور ہزاروں تامل جبری گمشدگی کے شکار ہوئے۔ زندگی سے بھرپور انسانوں کی جگہ کہانیوں نے لے لی۔ جافنا کے تاملوں کی اَن کہی داستان ہوں، ارجنٹینا کے ماؤں کا درد یا بلوچستان کی منتظر مائیں، درد ؤ ازیت کے داستان یکساں ہیں۔

حافظ سعید کے جبری گمشدگی کو بیس سال مکمل ہوچکے ہیں، اُن کا خاندان وضاحتوں سے مطمئن نہ ہوا تو پولیس نے قبر کشائی کرکے ایک قبر اُن کے والد اللہ بخش بنگلزئی کو دکھائی لیکن وہ دو دہائی بعد بھی یقین کرنے کے لئے تیار نہیں کہ قبر اُن کے بیٹے کی ہے ۔

فاروق کی والدہ نے زندگی کے آخری آیام اپنے بیٹے کی بازیابی کے لئے نذر کردی لیکن اپنی زندگی میں دوبارہ اپنے بیٹے سے ملاقات نہ کرسکی اور اس دنیا کو چھوڑ گئے ۔ ان کی جگہ نواسی نے والد کی بازیابی کی جدوجہد کا محاذ سنبھالا ہوا ہے ۔

ڈاکٹر اکبر مری کا بیٹا بلوچستان یونیورسٹی کے فائن آرٹس دیپارٹمنٹ کے سفید دیواروں پر رنگیں بکھیرتا ہے لیکن پندرہ سال سے اُس کے زندگی رنگوں سے خالی ہے اور پرانے صندوق میں سوویت یونین میں چھپے سرخ انقلاب سے وابستہ کتابوں کے سوا والد کی یاد میں کچھ بھی محفوظ نہیں ہے ۔

علی حیدر، انیسہ، سمی اور مہلب کا بچپن پریس کلبوں کے سامنے احتجاج میں گزر گیا اور اِسی جہدوجہد میں ہی جوان ہوئے لیکن والد کے لئے اُن کا انتظار ختم نہ ہوا اور اب بھی اُن کی ایک دید و مُسکراہٹ کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔

اِن دو دہائیوں میں انسداد انسرجنسی کی پالیسیاں صرف جبری گمشدگیوں تک محدود نہیں رہے، مسخ شدہ لاشیں، اجتمائی قبریں، گمنام ویرانوں میں پھینکی گئی لاشیں، پولیس مقابلوں میں جبری گمشدہ افراد کا قتل اور زمین سے اگلتے لاشیں، جِن کی شناخت ممکن نہیں ہو پائی ہے ۔

اپریل دو ہزار نو کو مرگاپ سے چیرمین غلام محمد، شیر محمد اور لالا منیر کی مسخ شدہ لاشوں سے نسل کشی کی ایک نئی صورت Kill and Dump پالیسی کا آغاز ہوا جو مختلف شکلیں بدلتا ہوا تاہنوز جاری ہے۔

اوتھل میں رسول بخش مینگل کی درخت سے لٹکی لاش ملی جِس کے جسم پر بوٹوں اور سگریٹ کے ذریعے لگائے گئے زخموں کے نشان تھے ۔

انسان ایک گولی سے مر سکتا ہے لیکن سنگت ثنا کے عزم کو توڑنے میں ناکامی پر ریاست نے اُس کے سینے میں اٹھائیس گولیاں پیوست کردیں کہ بلوچستان میں خوف کے ماحول کو برقرار رکھا جاسکے۔

تشدد سے رسول جان کے جسم کی ساری ہڈیاں ٹوٹ چکی تھی۔ عقوبت خانوں میں جبری گمشدہ افراد کے جسم ڈرل کئے گئے اور اُن کے سینوں پر تیز دھار آلے سے پاکستان کے حق میں نعرے لکھے گئے ۔

اِس دور میں ایسا دن نہیں گزرتا جب بلوچستان اور کراچی سے جبری گمشدہ افراد کے مسخ شدہ لاشیں سرجانی، حب، گڈانی، وندر اور مرگاپ میں نہ ملتے ہوں۔

توتک کے سرسبز لہلہاتے کھیتوں کی زمین پر فصل کاشت کرنے کے بجائے اجتمائی قبروں میں جبری گمشدہ افراد کی لاشیں دفن کی گئی، جِن کی شناخت آج تک ممکن نہ ہوسکی ہے۔

دشت کی زرخیز زمین جہاں فطرت کا اظہار گواڈگ کے خوبصورت پھول کی صورت میں ہوتا ہے، وہاں اب بلوچ کی بے نام لاشوں کے قبرستان آباد ہیں جِن کی شناخت ناموں سے نہیں بلکہ نمبروں سے ہوتی ہیں۔

ریاست پاکستان کے انسداد انسرجنسی پالیسیوں کے کوکھ سے جنم لینے والی جبر کے خلاف احتجاج کے طویل اور منظم تحریکیں بھی ابھری ہیں۔

بلوچستان میں سیاسی مزاحمت کا آغاز خضدار سے اللہ نذر و ساتھیوں کی جبری گمشدگی کے بعد لانگ مارچ کی صورت میں ہوا۔ شہید رسول بخش مینگل کی قیادت میں غفار ساسولی، رحیم جتک، شہید غلام اللہ نے اُن کی بازیابی کے لئے اکتوبر دو ہزار پانچ کو خضدار سے کراچی پیدل مارچ کیا تھا۔ بانک کریمہ کی قیادت میں بلوچ خواتین کا پہلا مارچ ڈاکٹر حنیف شریف کی بازیابی کے لئے تمپ سے تربت شہر تک کیا گیا ۔

نصراللہ بلوچ، ماما قدیر اور فرزانہ کی قیادت میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسن کی بنیاد رکھی گئی کہ اجتمائی جدوجہد کے ذریعے وہ اپنے پیاروں کو بازیاب کرا سکیں گے اور جبری گمشدہ افراد کے خاندانوں کے لئے امید سحر کا کردار ادا کیا جِس نے جبر خلاف سیاسی مزاحمت کو زندہ رکھا۔

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے وائس چیرمین ذاکر مجید کے لئے تنظیم نے سول نافرمانی کی طرز پر سبوتاژی مہم کی صورت پرتشدد احتجاج کے ذرائع بھی آزمائے۔

بلوچستان میں ظلم و جبر کے خلاف اور جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کے لئے ماما قدیر، سمی دین اور فرزانہ مجید کی قیادت میں استعمار کے مرکز اور دنیا تک اپنی صدا پہنچانے کے لئے دو ہزار تیرہ/چودہ کو شال سے کراچی اور کراچی سے اسلام آباد تک دو ہزار کلومیٹر طویل پیدل لانگ مارچ کیا۔

چیئرمین زاہد بلوچ کی بازیابی کے لئے بی ایس او آزاد نے تادم مرگ بھوک ہڑتال کا راستہ اپنایا اور لطیف جوہر چھیالیس دن تک تادم مرگ احتجاج کرتے رہے جس نے ریاست کو جبری گمشدگیوں کے مسئلے کی سنگینی کو ماننے پر مجبور کیا اور پہلی بار انتظامی بلوچستان کے وزیراعلی ڈاکٹر مالک نے احتجاج کیمپ کا دورہ کیا جہاں انہوں نے جبری گمشدگیوں کو بلوچستان کا اہم مسئلہ گردانا، جس کے بعد جبری گمشدگیوں کے سنگین مسئلے کو پارلیمانی پارٹیوں نے اپنے سیاست کا حصہ بنایا لیکن چونکہ جبری گمشدگیوں کی بنیاد اسی لئے رکھی گئی کہ بلوچ جہد آزادی کا ختم کیا جاسکے اس لئے متواتر یقین دہانیوں کے باجود یہ مسئلہ کبھی حل نہ ہوا۔

اِن دو دہائیوں میں بلوچستان کے گوشے گوشے سے احتجاج کی گونج گونجتے رہے، پریس کلب، ریڈ زون اور شاہراہوں پر دھرنے جاری رہے، ماما قدیر کا احتجاج کیمپ پانچ ہزار دن سے امید کا مرکز ہے۔ پرتشدد سیاسی تحریک بھی ابھری لیکن قابض کی پالیسیوں کا مقصد بلوچ جہد آزادی کو ختم کرنا تھا، سو ریاست نے ظلم کی داستان رقم کرنا بند نہ کیا، جبری گمشدگیوں و جبر کا تسلسل جاری رہا، مسخ شدہ لاشوں کی جگہ جعلی پولیس مقابلوں اور زیر حراست افراد کے ہاتھ پاؤں باندھ کر گاڑیوں میں ڈال کے دھماکوں میں شہید کرنے نے لے لی ہے۔

بلوچ انسرجنسی سے وابستہ افراد کے خاندانوں کو اجتماعی سزا کا نشانہ بنایا جاتا رہا اور جبری گمشدگیوں کے خلاف محاذ کو سنبھالے خواتین کا راستہ روکنے کے لئے اُن کی جبری گمشدگی سے درگزر نہیں کی گئی اور سیاسی تحریک کے ہراول دستے کو ہراساں کرنے کا عمل جاری ہے ۔

انسداد انسرجنسی کے جبر سے متاثر سب سے زیادہ بلوچ خواتین ہوئے، اجتماعی سزا کا نشانے بنے، چھاپوں میں تذلیل کی گئی ، گھر جلائے گئے ، خانوادوں کے واحد کفیل اٹھائے گئے اور اپنے ہی زمین پر مہاجرت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔

بلوچستان کے جنگ زدہ سماج میں سینکڑوں خواتین ایسے ہیں جنہیں معلوم نہیں کہ اُن کے شوہر زندہ ہیں یا مار دئیے گئے ۔

والد کے شفقت سے محروم کئے گئے بچوں کو علم نہیں کہ اُن کے والد اب بھی جبری گمشدہ ہیں یا کسی گمنام قبر میں دفن کر دئیے گئے ہیں ۔

انتظار کی کٹھنائیوں سے نبرآزما ماؤں کو معلوم نہیں کہ اُن کے بچے زندہ ہیں یا لاش کسی ویرانے کی نذر کردی گئی ہے۔

ستر کی دہائی، جبر کی داستانیں بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں دب گئے لیکن اکسیوی صدی کی بلوچ قومی مزاحمت اپنے کرداروں کو زندہ رکھنے کے لئے جہد مسلسل کر رہے ہیں۔ موجود سیاسی ابھار نے استعماری جبر و خوف کی بوسیدہ دیواریں گرا دی ہیں اور بلوچ نوجوان سنگت ثناء کی طرح اٹھائیں گولیاں سینے پر سہیں گے لیکن ریاستی جبر پر خاموش نہیں رہیں گے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے بلوچ قوم کو ایک توانا و منظم سیاسی مزاحمت میں یکجا کیا ہے لیکن چونکہ قابض کے جبر کا مقصد تحریک آزادی کا راستہ روکنا ہے اسی لئے ریاست جبر کے تسلسل کو ختم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے اور جب تک بلوچ سرزمین پر غلامی کی سیاہ رات باقی ہے یہ جبر مسلسل جاری رہے گا۔

آزادی کا سورج طلوع ہونے تک بلوچ قوم کے بہترین اذہان جبری گمشدگی کے شکار ہوتے رہیں گے، تحریک کے تسلسل کو روکنے کے لیے مسخ شدہ لاشوں اور گمنام قبرستانوں کی فہرست میں نئے ناموں کا اضافہ ہوتا رہے گا لیکن بلوچ تحریک رواں دواں ہوگا ۔ آزادی کا بیرک بلند کرنے والے ساتھی اور ہونگے، نام اور کردار بدلتے رہیں گے لیکن قومی آزادی کا کارواں جاری رہے گا ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔