اسلام آباد بلوچ مظاہرین سے اظہار یکجتی، بلوچستان میں ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے

250

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں بلوچ نسل کشی کے خلاف لواحقین اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کا دھرنے کے 41 ویں روز میں بھی بلوچستان کے مختلف شہروں میں احتجاج کا سلسلہ جاری رہا۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی اپیل پر احتجاج کے تیسرے مرحلے میں آج خاران، نوشکی، دالبندین، بسیمہ اور چاغی میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے جن میں خواتین، بچے اور جبری لاپتہ افراد کی لواحقین کی بڑی تعداد شریک تھی۔

مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز، بینرز اور جبری لاپتہ افراد کی تصویریں اٹھا کر بلوچ نسل کشی، جبری گمشدگیوں اور ریاستی بے حسی کے خلاف نعرہ بازی کی ۔

مختلف شہروں میں ہونے والے ان مظاہروں سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہاکہ آج پورا بلوچستان سراپا احتجاج ہے، اسلام آباد میں بھیٹے دھرنا کو پورے قوم کی حمایت حاصل ہے۔ ریاست سنجیدگی سے انکے مطالبات سننے اور انکے مدمقابل ڈیٹھ اسکواڈ احتجاج کیمپ کی سرپرستی بند کرے۔

انہوں نے کہاکہ آج بلوچستان کے ہر شہر گاؤں اور کوچہ میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ سراپا مزاحمت ہیں لیکن حکومتی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ وہ ذمہ داری کے بجائے الزامات پر اتر آیا ہے۔

مظاہرین نے کہاکہ حکومتی نمائندے یہ رٹ لگائے بھیٹے ہیں کہ اسلام آباد بلوچ مظاہرین ریاست کو بلیک میل کررہے ہیں تو انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ اسلام آباد کے بلوچ مظاہرین کے پشت میں پورا بلوچستان کھڑا ہے اور جبری گمشدگیوں کا معاملہ سنجیدہ ہے۔ اسے ریاست چند لوگوں کو جمع کرکے خراب کرنے کی کوشش میں خود کو مزید رسوا کررہا ہے۔

انہوں نے کہاکہ بلوچ آج جس غیر قانونی عمل کے خلاف سراپا احتجاج ہیں ریاست اسی عمل کو تیزی کے ساتھ دھرا رہی ہے۔

مظاہرین نے بلوچ نسل کشی کے خلاف مارچ سے اظہار یکجتی کرنے والوں کی غیر قانونی گرفتاریوں اور جھوٹے مقدمات کی مذمت کی ۔

انہوں نے کہاکہ ریاست کو اپنے بنائے گئے آئین ، قانون اور عدالتوں پر بھروسہ نہیں ، ریاست بلوچ سیاسی قوت کو واضح طور پر ڈیٹھ اسکواڈ کے ہاتھوں کچلنا چاہتا ہے ۔

انہوں نے کہاکہ ریاست نے اسلام آباد میں بلوچ خواتین اور بچوں کے ساتھ جو سلوک کیا اس پر شرمندگی کے بچائے دفاعی پوزیشن اختیار کرچکا ہے۔

مظاہرین نے کہاکہ اسلام آباد بلوچ دھرنا بلوچستان کی نمائندہ ہے بلوچ قوم جبری لاپتہ افراد کی لواحقین کے ساتھ ہیں۔

مظاہرین نے کہاکہ آج بلوچستان کا ہر گھر متاثر ہے جہاں ایک فرد لاپتہ یا شہید ہوچکا ہے۔ اب لوگ ڈر اور خوف سے نکل کر جینے کا حق چاہتے ہیں۔

واضح رہے کہ بلوچستان میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی اپیل پر احتجاجی سلسلہ جاری ہیں۔ جس میں عوام کی بڑی تعداد شریک ہیں۔ ان احتجاجوں کے باعث بلوچستان میں 8 فروری کو ہونے والے انتخابات کے لئے پارلیمانی پارٹیوں کے الیکشن مہم ماند پڑ گئے ہیں اور بلوچ اکثریتی علاقوں میں سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں ۔