ہم نے اپنی قوم کو جگا دیا ۔ سمیرا بلوچ 

221

ہم نے اپنی قوم کو جگا دیا

تحریر: سمیرا بلوچ 
دی بلوچستان پوسٹ

جب ماہ رنگ بلوچ سے پوچھا گیا کہ اس دھرنے اور لانگ مارچ سے آپ لوگوں کو کیا ہدف اور کامیابی ملی ،توانھوں نے کہا کہ ہم نے اپنی قوم کو جگا دیا۔

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور فیک انکاؤنٹرز میں بے گناہ بلوچوں کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کی طرف سے بلوچستان بھر میں احتجاج کیا جا رہا ہیں اور ریلیاں نکالی جا رہی ہیں، بلوچ خواتین کیطرف سے تربت سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا گیا، جسکی سریراہی ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ اور سمی دین محمد کر رہی تھی۔

سمی اور ماہرنگ بلوچ کو ہم انکے بچپن سے روڈوں پر جبری گمشدگی اور مارواۓ عدالت قتل کے خلاف احتجاج کرتے ہوۓ دیکھ رہے ہیں۔ سمی کے خود والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ جبری گمشدگی کے شکار ہے، جیسے پاکستانی ریاستی اداروں نے 2009 میں اٹھا کر لے گئےتھے، جنکا تاحال کوئی پتہ نہیں کہ کس حال میں ہے، اور کہاں پر ہے، کیونکہ ریاست نے اسے پھر منظر عام پر نہیں لاۓ۔

ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ کے والد غفار لانگو صاحب کو پاکستانی خفیہ اداروں کے ایجینسوں نے متعدد بار گرفتار کرنے کے بعد انکی مسخ شدہ لاش کو گڈانی میں انکے لواحقین کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا! تو ماہرنگ اور سمی کوئی مریم نواز نہیں ہے، ان کو اپنی قوم کی رہنمائی کی ذمہداری مخمل کے سج کی طرح نہیں ملی ہے۔بلکہ یہ ذمہداری انکو اس درد اور تکالیف سے گزرنے کے بعد ملی،جسے وہ خود سہہ کر اور اس تکلیف میں اپنی زندگی کو گزر کر ملیں ہیں۔

بلوچستان کی کامیاب لانگ مارچ جسکی سریراہی خواتین کر رہی تھیں ۔ اور اسلام آباد میں انکے دھرنے نے پاکستان کو بوکھلاہٹ کا شکار کر دیاہے، اور اس بوکھلاہٹ نے اس ملک کی کمزور بنیادوں کو ہلا کر دیاہے، اس بوکھلاہٹ میں پاکستان بہت ہی کمزور داؤ پیچ کا کھیل رہا ہیں۔بلوچ خواتین پر اسلام آباد میں لاٹھی چارج کرنا ، خواتین کو جبراحراست میں رکھنا، ماہرنگ بلوچ پر ایف آئی آر درج کرنا، زبردستی دھرنے میں شریک خواتین کو بسیں میں بیٹھ کر انھیں واپس بھیجنے کی ناکام کوشش کرنا، سپیکر چوری کرنا ، اور اب جمال رہیسانی کی قیادت میں بلوچستان کے ڈیتھ اسکواڈ کے اراکین کو اسلام آباد میں لاکر بلوچ مسنگ پرسنز کی فمیلز کے آمنے سامنے بیٹھنا۔

ویسے پاکستان سے ایسا ہی کچھ کرنے توقعات تھیں ، جس پر وہ پورا اترا،بلوچ قوم کو پاکستان کی ریاست سے کوئی خاص امیدیں تو نہیں تھی، لیکن اس لانگ مارچ کے ذریعے جسطرح بلوچ قوم کی آواز پاکستان سمیت دنیا میں گونج رہی ہیں۔ یہی اس مارچ کی کامیابی ہے۔

بلوچستان کے ہر گوجا اور گلی میں بلوچ مرد اور خواتین اپنے بلوچ بھائیوں کے جبری گمشدگی اور مسخ شدہ لاشوں کے لیے ایک آواز ہو کر نکل رہی ہیں، یہی تو پاکستان کی شکست ہے۔ خود پنچاب کے لوگ اور پاکستان کے سول اور میڈیا کے معزز لوگ جسطرح بلوچ قوم کے ساتھ اپنی ہمدردی اور یکجتی کا اظہارِ کر رہی ہیں، یہی پاکستان کی شکست ہے۔ جس طرح پاکستان دنیا میں بلوچستان کو اپنا اٹوٹ انگ اور پرامن بلوچستان کہہ رہا تھا، اسکی اس جھوٹ کاجو پردہ فاش ہوا ہے،اس مارچ کے ذریعے دنیا کے سامنے پاکستان کے ان جھوٹے دعووں کا پردہ فاش ہوا ، کہ کیسے پاکستان ظلم اور جبر کی بنیاد پر بلوچستان پر قابض ہے،یہی اس لانگ اور دھرنے کی کامیابی ہے۔

یورپ اور پورے ایشیاء سے بلوچ نسل کشی کے خلاف جسطرح آوازیں اٹھ رہیں ہیں ، یہی اس لانگ مارچ کی کامیابی ہے! بلوچستان جو ایک جنگ زدہ علاقہ ہے، بلوچ ، پاکستان کے ساتھ اپنی آزادی کی جنگ جو لڑ رہا ہے۔ اسکو دنیا سے چھپانے اور اسکو پرامن دیکھنا کے لیے پاکستان نے اپنے کھربوں کے جو پیسے لگاۓ تھے۔ بلوچستان ایک جنگ زدہ علاقہ ہے اسکا اعلان اب خود پاکستان کے بھیجے ہوۓ بلوچستان کے ڈیتھ اسکواڈ کے رکن فریدہ رہیسانی نے میڈیا کے سامنے کر دیا ہے۔پاکستان کےسب جھوٹے دعووں کو اس مارچ نے دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا، یہی اس مارچ کی کامیابی ہے۔

بلوچ خواتین کے جرات، عظمت اور اس تحریک نے بلوچ قوم کو ایک نئے جوش اور جذبے کے ساتھ ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کے لیے نئی طاقت دی۔

اس تحریک کے کامیابی کو کیسے برقرار رکھنا اور قوم کو اسی طرح کیسے بیدار رکھنا ہوگا، یہ بلوچ یکجہتی کمیٹی اور دیگر بلوچ سیاسی رہنماؤں کی ذمہداری ہیں ، کہ بلوچ قوم کے اس جوش اور جذبے کو ایسے ہی برقرار رکھ کر بلوچ قوم پر پاکستان کی جانب سے کیے گئے مظالم ، بلوچ نسل کشی، اجتماعی قبروں ،بلوچ معدنی وسائل کی لوٹ مار، معصوم اور بے گناہ بلوچوں طالبات اور رہائشیوں کے جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف ان آوازوں کو ایسے ہی بلند، زندہ اور گرج دار رکھنا ہو گا ، تاکہ پاکستان پھر کبھی بھی کسی بلوچ کو اٹھنے سے پہلے ہزار بار سوچے ، اور کسی بھی بلوچ کو اٹھنے اور قتل کرنے سے ڈرے۔

ان اشعار کے ساتھ میں اپنی اس تحریر کو ختم کروں گی!

گل امید کھلا سکیں
جہد کے نت نئے چراغ
ہرسمت وہ جلا سکیں
بس اک نغمہ آزاد ہو
جو انقلاب کا ساز ہو
سامراج کے خلاف
اک مستقل آواز ہو
نہ جس میں کوئی یاس ہو
نہ ظلمتوں کا داغ ہو
صبح کی ایک آس ہو
بس فتح کا احساس ہو


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔