بلوچ طلباء کے جبری گمشدگیوں میں اضافے کی وجہ ڈیتھ اسکواڈ کی وفاقی کابینہ میں موجودگی ہے – بی ایس او پچار

158

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (پجار) کے سینئر وائس چیئرمین بابل ملک بلوچ اور ایم جے بلوچ بیان میں کہا کہ درجنوں افراد کو بلوچستان کے مختلف علاقوں سے ماوراۓ آئین لاپتہ کیا جا رہا ہے دوسری جانب الیکٹرانک میڈیا سمیت تمام سیاسی جماعتوں کی خاموشی اس مسئلے کو بڑے الجھن کا شکار بنا رہی ہے تعلیمی اداروں سمیت ہاسٹلوں بازاروں سمت بلوچ طلباء محفوظ نہیں جتنی بڑی سطح پر غیر قانونی اغواء کی جارہی ہے وہی دوسری طرف عدلیہ کی خاموشی عوام کو مزید مایوسی سوالیہ نشان ہے، موجودہ حالات اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ بلوچ طلباء یکجا ہوکر اس غیر قانونی عمل کے خلاف مزاحمتی تحریک چلائیں۔

بیان میں مزید کہا کہ وفاقی سیاسی جماعتیں 18ویں ترمیم کی تعریفیں کرتے نہیں تکتے وہی کچھ بدمعاش آئین شکن لوگ آئین میں موجود بنیادی انسانی حقوق کو ماننے سے انکاری ہے ایسے کسی بھی غیر قانونی و آئینی عمل کو روکنے کے خلاف قومی مزاحمت کی ضرورت ہے ہم تمام سیاسی جماعتوں و طلباء تنظیموں اس ریاستی سرپرستی میں اغواء کاریوں کو روکنے کے لیے اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ کریں اور اپنی وجود اور قومی شناخت کو لائق خطرات کے سامنے سنہ سپر ہو جائیں بی ایس او اس عمل کے خلاف ہونے والے تمام تحریکوں کا حصہ رہا ہے اور اپنے قومی فریضہ سمجھ کر ان غنڈوں اور بدمعاشوں سے نمٹنے کیلئے ہر تحریک کے حصہ رہنے کا اعادہ کرتی ہیں۔

انہوں نے کہاکہ گزشتہ برس ایک بہت تحویل احتجاجی دھرنے کے بعد جب مذکرات ہوئے تو عذب معمول مذکرات کےنام پر دھوکہ دیا گیا اور تنظیم کے اہم رہنما تابش وسیم کو شہید کر دیا گیا بی ایس او آج بھی اس عمل کو نہ صرف غیر قانونی و غیر آئینی سمجھتی ہے بلکہ انتہائی حد تک اس عمل سے نفرت کرتی ہیں ۔