انسانیت اور نعروں کے نام پر ہم کسی کو قائل نہیں کرسکتے ہیں کہ یہ زمین ہماری ہے، اس کیلئے ہمیں خود کوطاقتور بنانا ہوگا۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ

620

یہ غلام قوم کے نفسیاتی بیماریوں میں سے ایک بیماری ہے جو لاپرواہ ہوتا ہے۔ ذاکر مجید ہمارا لیے ایک نام ہے لیکن ذاکر کی والدہ کیلئے وہ وہی ہے، وہ جب بھی تقریر کرتی ہے تو کہتی ہے کہ ذاکر مجید ایک طالب علم تھا۔ ان جذبات کی کوئی سوداگری کرتا ہے تو یہ ایک قومی غداری ہے۔

ان خیالات کا اظہار ایکٹوسٹ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے راشد حسین بلوچ کے جبری گمشدگی کے حوالے سے کوئٹہ میں منعقد سیمینار کے موقع پر کیا۔

ماہ رنگ بلوچ کا کہنا تھا کہ آج ہم ایک دفعہ پھر جبری لاپتہ راشد حسین بلوچ کی والدہ کے گذارش پر جمع ہوئے ہیں۔ یہ ایک بے بسی، ایک دکھ ہے کہ آج کل ہمارے یہاں جبری گمشدگی کو ایک عام درد کہا جاتا ہے۔ کسی کے گھر سے کوئی جبری لاپتہ کیا گیا ہے تو اس کا ہمسایہ بھی جاکر اس سے نہیں پوچھتا ہے یہ غلام کی نفسیاتی بیماریوں میں سے ایک ہے کہ وہ لاپرواہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے زندگی، اپنے حالت کو اپنی قسمت سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ جو زندگی مجھے ملی ہے اسی طرح زندہ رہونگا اور مر جاؤنگا۔

انہوں نے کہا کہ لاپتہ ہونے اور شہادت میں ایک بڑا فرق ہوتا ہے۔ میرے سامنے دو ‘شیرزال’ مائیں بیٹھے ہیں، وہ میرے لیے لاپتہ افراد کی مائیں تو ہے لیکن وہ خود جہدکار بھی ہے، وہ گمنام ہے لیکن بغیر نام کے وہ اس جہد میں شامل ہیں۔ ان دونوں ماؤں اپنے بچوں کو زمین کیلئے قربان کردی ہے۔ لیکن ان (شہید) بچوں کا غم انہیں نہیں ہے مگر ان بچوں کا درد زیادہ ہے جو لاپتہ ہیں کیونکہ لاپتہ ہونے کا غم ایسا ہے کہ وہ زندہ رہ جانے والے افراد کو بھی زندگی گذارنے نہیں دیتی ہے۔

ماہ رنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ ہمارے یہاں یہ دوسری نسل ہے؛ ایک نسل وہ تھی جو ذاکر مجید کو جانتی تھی، یہ نسل وہ ہے جو آج ذاکر کی والدہ کے باتوں سے ذاکر کو جانتی ہے۔ ہمارے لیئے ذاکر ایک نام ہے لیکن ذاکر کی والدہ کیلئے وہ وہی ہے جو پہلے تھا، وہ جب بھی اپنی باتوں کا آغاز کرتی ہے تو کہتی ہے کہ ذاکر ایک طالب علم تھا، اس سے ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ جبری گمشدگیوں سے متاثرہ خاندانوں کی زندگی وہی تھم چکی ہے، ہم دنوں کو گننا بھول چکے ہیں لیکن وہ آج بھی کہتی ہے کہ ذاکر کے جبری گمشدگی کو 15 سال ہوچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ دکھ، درد ہمیں پیچھے دکھیل نہ دے، اور یہ ایک قومی غداری ہے اگر کوئی بھی ان جذبات کی سوداگری کرتا ہے، لاپتہ افراد کے نام پر سیاست نہیں ہونی چاہیے، جو بھی اس پر سیاست کرتا ہے وہ غلط ہے اور ہمیں غلط کو غلط کہنا چاہیے۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ میں نے نیا طریقہ متعارف کیا ہے تو سب سے پہلے ہمیں احساس ہونا چاہیے یہ کوئی سیاسی چیز نہیں بلکہ انسان ہے اور ان کے درد کو محسوس کرنے کیلئے ہمیں سب کو ایک بار اس درد سے گذرنا ہوگا، ان دنوں اور راتوں سے گذرنا ہوگا کہ مائیں پوری رات بیٹھی رہتی ہے صرف اس لیئے ان راتوں کی نوافل سے وہ شاید خدا کو راضی کرسکیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ نظریے کی جنگ اور قوم دوستی آسان چیز نہں، آج ہمارے سامنے راشد حسین کی والدہ بیٹھی ہے جس کے پورے خاندان نے نظریہ کا انتخاب کیا، نظریہ کے انتخاب میں اس کا پورا خاندان تباہی کے راہ پر گامزن ہوا۔ ان کا خاندان خضدار میں سب سے آسودہ و دولت مند خاندانوں میں شمار ہوتا تھا لیکن جب انہوں نے نظریے کا انتخاب کیا تو اس خاندان کا نہ بزرگ بخشا گیا نہ نوجوان محفوظ رہا۔

ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ جب آپ نظریہ کا انتخاب کرتے ہیں تو اس کی کوئی حدود نہیں ہوتی، نظریے کا انتخاب کیا تو یہ نہیں کہہ سکتے کہ والد نے قربانی دی تو نظریہ مکمل ہوگیا یا چار اچھی باتیں کرکے میری ذمہ داری پوری ہوگئی۔ نظریہ کا جب انتخاب کرتے ہیں تو نسل در نسل قربانی دینی ہوگی، ہر چیز تباہ کرنی ہوگی پھر جاکر آسودگی ملے گی۔

انہوں کہا کہ ہم اس دور میں جی رہے ہیں کہ جہاں کبھی کہا جاتا ہے یا پاکستانی نصاب میں پڑھایا جاتا تھا کہ اب قومی جنگوں کا دور ختم ہوچکا ہے یا قومی جدوجہد نہیں ہوسکتی ہے لیکن دنیا واپس جنگوں کی طرف جارہی ہے کیونکہ امن بغیر جنگ کے نہیں ہوسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور اسرائیل کے نصاب ایک جیسے ہیں۔ اسرائیل بھی اپنے بچوں کو یہی پڑھاتا ہے کہ فلسطین کی جتنے جہدکار ہے وہ دہشت گرد ہیں اسی طرح پاکستان بھی اپنے اسکولوں میں ہمارے بچوں کو پڑھاتا ہے کہ بلوچ دہشت گرد ہیں، بلوچ وحشی ہیں۔ ان سب چیزوں کو ہمیں اور آپ کو دیکھنا ہوگا اس کا مطلب یہ کہ دنیا میں انسانیت، ہمدردی، مذہب یہ سب لوگوں پر حاکمیت کیلئے اوزار ہیں، اصل چیز قومی شناخت کی جنگ اور قومی جدوجہد ہے اور اصل چیز طاقت کی جنگ ہے آپ ایک طاقت بن گئے کسی کو آپ سے ہمدردی کی ضرورت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج حماس نے حملہ کیا اس کو معلوم تھا کہ جتنے بھی اسلامی ممالک ہیں ان کی گٹھ جوڑ امریکہ کیساتھ ہے، ان کو معلوم تھا کہ ہمدردی کے نام پر، مذہب کے نام پر وہ کسی کو اپنے ساتھ نہیں ملاسکتے ہیں اور آج وہ ایک قومی جدوجہد کررہی ہے، آج وہ جو جنگ لڑ رہی ہے وہ فلسطینی قوم کیلئے کررہی ہے۔ یہ ہمارے سامنے آج سب سے بڑی مثال ہے کہ ہم ہمدردی کے نام پر، انسانیت کے نام پر، چار نعروں کے نام پر، کسی کو بھی اس بات پر قائل نہیں کرسکتے ہیں کہ یہ زمین ہماری ہے۔ اس کیلئے ہمیں خود کوطاقتور بنانا ہوگا۔

انہوں نے کہاکہ دنیا کی سیاست بدل رہی ہے، ہمیں دنیا کی سیاست کو پڑھنا ہوگا اور سب سے بڑی چیز ہمیں عمل کرنا ہوگا۔ باتیں بہت ہوگئی، جس بات میں عمل نہیں ہو وہ لفاظی میں شمار ہوتی ہے۔ ہمیں عمل کرنے والے افراد کی ضرورت ہے۔ ہمیں منافق طرز کی سیاست نہیں چاہیے، کسی کے ساتھ بیٹھ کر کردار کشی کرنے والا سیاست دان نہیں ہے اس سے بہتر اپنے گھروں میں جاکر بیٹھیں، اسی لیے سردار عطاء اللہ مینگل نے کہا تھا کہ اپنے ماؤں کو دکھی نہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ دنیا میں بہت سی تبدیلیاں رونماء ہورہی ہے، ان تبدیلیوں کو آج ہم سمجھ نہیں رہے ہیں، آج ہم اس جگہ پر نہیں پہنچے ہیں، ہم جتنی بھی باتیں کریں، ہم جتنی بھی اپنی جدوجہد کی ثناء کریں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ہماری جدوجہد آج دنیا کی جدوجہدوں میں شمار نہیں ہوتی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ ہم خود ہیں، ہم نوجوان یا ہماری مڈل کلاس ہے جو ہر وقت اپنی آنکھیں بند کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج ہمارا یہی کام رہ گیا ہے کہ جب بیٹھتے ہیں تو ایک دوسرے کیخلاف باتیں کریں، ایک دوسرے کے قد کو چھوٹا کریں۔ ہم میں اور پاکستان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ پاکستان میں اگر کام چلانا ہے تو خود کو طاقتور طبقے کا دوست کہا جاتا ہے کہ میرا تعلق فلاح طاقتور طبقے سے ہیں پھر اس کا کام ہوتا ہے

انہوں نے کہا کہ یہاں بلوچ کے بیچ میں ایک ایسی روایت ہے کہ اگر سامنے کے شخص کو چھوٹا دکھانا ہو تو کہہ دو کہ وہ ریاست کا بندہ ہے۔ اگر تم اپنے لوگوں کو اپنا نہیں کرسکے تو یہ تنظیم کاری، یہ پارٹی، یہ جدوجہد وغیرہ یہ سب کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر یہ تمہیں آج خبر نہیں کہ جس نفرت کا تم شکار ہو تو پانچ، چھ سال بعد خبر ہوگی کہ یہ سب کچھ ضائع ہوگیا۔ ماضی میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جن کے نام پر بلوچ قوم خود کو قربانی کرتی تھی، جن کے مجالس میں آنے پر سب احتراماً کھڑے ہوجاتے تھے لیکن آج ان کو تیسری نسل کوئی نہیں جانتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر سیاسی جہدکار اپنے اندر انقلابی بدلاؤ نہیں لاتا ہے وہ کچھ نہیں کرسکتا ہے، اتحاد و جدوجہد کی محض باتیں ہے ان میں عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ جو مائیں یہاں جمع ہوتی ہے ان کے آنسوں آپ کو شرمندہ کریں، غمگین ہونے سے زیادہ شرمندہ کریں کہ آج آپ ان آنسو کے بدلے کچھ کررہے ہیں کہ نہیں۔ آج آپ کچھ نہیں کررہے ہو، جس جگہ کو آپ کو منظم کرنا تھا اس کو سب سے زیادہ منتشر کردیا ہے اور منتشر ہونے کی وجہ ہم سب ہیں۔

ماہ رنگ نے کہاکہ ان ماؤں کو ایک امید ہے کہ وہ یہاں آتے ہیں، یوں تو دیگر پارٹیاں بھی ہے یہ مائیں اگر ان کے پاس جائیں تو بڑے بڑے حال بھر دیں لیکن یہ مائیں آکر ہمیں کہتے ہیں، ان کا ماننا ہے کہ جس نظریے سے ان کے لاپتہ بیٹوں کا تعلق تھا ہم اسی نظریے کے ماننے والے ہیں۔ سوال یہ کہ کیا ہم واقعی اسی نظریے کہ پیروکار ہے۔