جھل مگسی میں نوابوں نے اپنی الگ ریاست قائم کر رکھی ہے – لواحقین امداد جویا

480

کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کسان امداد جویا کی بیٹی ارباب جویا کا کہنا تھا کہ ہماری زمین ریونیو کارڈ کے مطابق موضع کرمانی میں بابا کے نام پر ہیں جو کہ 2017 سے پہلے ہماری زمین جھل مگسی کے نوابوں کے ایما پر ان کے قبیلے سے تعلق رکھنے والے راہیجہ مگسی قابض ہوچکے ہیں ۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم متعلقہ افسران اسٹنٹ کمشنرڈ پٹی کمشنر جھل مگسی سے متعدد بار ملے قبضہ چھڑانے کے لیے درخواستیں دیں، 30 نومبر 2017 میں ہمیں زمین کا قبضہ واپس ملا لیکن قبضہ مافیا کو زمین سے اٹھایا نہیں گیا۔ اس ضمن میں ہم نے افسران اسٹنٹ کمشنر ڈپٹی کمشنر، جھل مگسی سے متعدد بار ملے۔ قبضہ چھڑانے کیلئے درخواستیں دیں، احتجاج کرتے رہیں لیکن ہماری دادرسی نہ ہوسکی تو ہم مجبور ہو کر پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد پریس کلب کے سامنے تین ماہ تک بیٹھے رہے مگر وہاں پر بھی کسی ذمہ دار شخص نے ملنے کی زحمت نہ کی۔

ان کا کہنا تھا کہ سلطنت جھل مگسی میں نوابوں نے اپنا ہی ریاست قائم کر رکھا ہے وہاں غریبوں کی زمینوں پر ناجائز قبضے کراتے ہیں کسانوں سے ناجائز بٹائی کے نام پر بھتہ لیتے ہیں جو دینے سے انکار کرے اسے قتل کروایا جاتا ہے اور باعث افسوس یہ ہے کہ ان تمام غیر قانونی عمل کی تکمیل کیلئے ان کے غنڈے اور وہاں کی ضلعی انتظامیہ نوابوں کی سہولت کاری کا کردار ادا کرتی ہے۔ اسلام آباد کے بعد کمشنر نصیر آباد کوئٹہ پریس کلب کے سامنے بھی احتجاج کی شکل میں رونا روتے رہے ہیں لیکن ریاستی اداروں میں سے کسی نے ہماری مدد نہیں کی۔ ہم مجبور ہوکر جب اپنے زمینوں پر جا بیٹھے تو ہمیں بے دخل کرنے کے لیے آئے روز مسلح افراد حملے کرتے رہے۔ ضلعی انتظامیہ ہمیں تحفظ دینے میں بھی مکمل ناکام رہی ایک حملے میں میری بہن خیر النسا بھی شدید زخمی ہوئی تھی جو اب تک زیر اعلاج ہے۔ کچھ عرصہ بعد پھر ہمارے گھر پر نواب خالد خان مگسی نوابزادہ طارق خان مگسی کے ایما پر 4 اگست 2023 کو علی گل ولد فقیر محمد، ہزار خان ولد علی گل سلیم، ہدایت اللہ دین محمد ولد حمد نواز قوم را ہیجہ مگسی، جہان خان قوم بگٹی بختیار ولد بالاچ خان و دیگر تین نے مسلح حملہ کر کے میرے بابا امداد فقیر جویا کو قتل کر دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ظلم نا انصافی یہاں ختم نہیں ہوتی جب ہم اپنے بابا کی لاش لے کر نصیر آباد ریجن کے ڈویژن ہیڈ کوارٹر ڈیرہ مراد جمالی کی جانب احتجاج کے لئے پر امن آئی حق کا استعمال کرنے کے لیے رخ کرتے ہیں تو ہمیں ڈپٹی کمشنر جھل مگسی ڈیرہ مراد جمالی جانے سے روک دیتا ہے اور پولیس کر نڈی میں ہمیں لاش سمیت صیف آباد جو کہ پر خطر اور کچھ راستہ ہے اس کے ذریعے لاش اوستہ محمد بھجوایا جاتا ہے جہاں دو گھنٹے کا سفر ہے وہاں 8 گھنٹے کا سفر بن جاتا ہے، جب ایک بار پھر ہم اوستہ محمد سے بابا کی ڈیڈ باڈی لے کر اگلی صبح احتجاج کیلئے ڈیرہ مراد جمالی کا رخ کرتے ہیں تو جعفر آباد پولیس ہمیں ڈیرہ مراد جمالی کے جانب روکنے کے لیے کشتی سے بالان شاخ کے مقام پر ڈپٹی کمشنر ایس ایس پی جعفر آباد بذات خود موجود پائے گئے پوچھنے پر پتہ چلا کہ انھیں بالا افسران کی جانب سے احکامات ملے ہیں۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر تھا کہ وہ ایسی کونسی قوت تھی جوڈیرہ مراد جمالی کوجانے والی تمام روٹس ہمارے لئے بند کر دیے گئے۔ لہذا میرے بابا کے لاش کی بے حرمتی کی گئی ہم سب پر ایس ایچ اوسٹی ڈیرہ اللہ یارکی سربراہی میں لاٹھی چارج کی گئی نہ ہی لاش کی حرمت کا خیال رکھا گیا نہ ہےخواتین کی عزت و آبرو کا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے حالات میں جہاں جھل مگسی کے سابق ایم این اے نواب خالد خان مگسی ایم پی اے طارق گی میرے بابا کے قتل کے بعد بھی ان کے لاش کو احتجاج کے حق نہیں دیا ڈویژن بھر کو انھوں نے یر غمال بنا رکھا تو ہم جیسے مظلوم و محکوم طبقہ کس سے انصاف کی امید رکھیں ۔کیا ریاست حقیقی ماں ہونے کا حق ادا کر رہی ہے؟ 22 دن ہو گئے درج بالا نام جو بابا کے قتل کیس میں نامزد کئے جاچکے ہیں انھیں آج تک گرفتار نہ کیا جاسکا اور نہ ہی گرفتاری کی کوشش کی جارہی ہے لہذا چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان چیف جسٹس ہائی کورٹ آف بلوچستان اس ظلم و بربریت کا نوٹس لیں۔ مجھے اور میرے اہل خانہ کو تحفظ فراہم کی جائے اور میری کیس سیشن کورٹ گندہ واہ سے کوئٹہ کی طرف سے ٹرانسفر کی جائے اور میں نگران وزیر اعظم پاکستان نگران وزیراعلی بلوچستان ڈی جی لیویز سے پرزور اپیل کرتی ہوں کہ قاتلوں کی گرفتاری کیلئے سخت احکامات صادر فرما ئیں۔