تعلیمی اداروں کو بچانا ہے ۔ شھناز شبیر

161

تعلیمی اداروں کو بچانا ہے
تحریر: شھناز شبیر
دی بلوچستان پوسٹ

بات وہاں سے شروع ہوئی جب 2018 کے 29 اکتوبر کو میں نے سنگانی سر تربت کے عبدالسلام محلہ کے نام سے چوگان کنڈ کے ایک مری کے گھر میں ایک اسکول کو فنکشنل کرنے کے لئے آستین اٹھا لئے لیکن وائے رے قسمت جب میں وہاں پہنچی تو بچوں کی تعداد کے ساتھ ایک مری قبیلے کے آدمی کو دیکھا جو کہ وہاں ایسے کھڑا تھا جیسے کہ اسکول کا مالک ہو خیر جب بچوں سے تعارفی سیشن شروع کیا تو معلوم ہوا کہ واقعی وہ آدمی اس اسکول کا مالک تھا یعنی کہ اسکول نام کا وہ ایک ٹوٹا ہوا بیھٹک تھا جہاں ان کے پرانے بستر ٹوٹا ہوا سامان کسی دکان کا سولر وغیرہ پڑے ہوئے تھے ، خیر میں نے سوچا اب جب اسکول کا نام آیا ہے تو ظاہر ہے کہ اسکول کی طرح ہی یہاں سب چلے گا لیکن وہ صرف میرا خیال تھا۔ اس طرح اکیلے میں اس گھر میں روز جاتی جہاں میرے داخل ہوتے ہی اس بیھٹک سے ایک دو آدمی بنیان کے ساتھ اپنے بستر سے اٹھ جاتے اور ایک دروازے پر جہاں پردہ لگا ہوا تھا گھس جاتے اور تب جا کر میں اس جگہ جا کر کھڑی ہوتی کہ اب بچے آئیں اور یہ بستر وغیرہ اٹھا دیں تا کہ میں بیٹھ کر ان کو کچھ سکھا سکوں لیکن بدقسمتی یہ کہ نا مجھے ڈپارٹمنٹ آف ایجوکیشن کی طرف سے کوئی کرسی نا ہی بچوں کے لئے کوئی ٹاٹ ملا تھا، سو جناب اب وہی بستر ہی ہماری پناہ تھے مردوں کے اٹھنے کے بعد میں ایک مسلمان ہو کر نا محرم کے استعمال کئیے ہوئے بستر پر بیٹھنے پر مجبور تھی کبھی کمبل پر کبھی کسی رلی جو ایک بلوچی یا مری بستر کی پتلی سی قسم ہے اس پر بیٹھ جاتی اور بچے بھی مزے سے بیٹھ جاتے تھے کہ ان کا تو گھر تھا۔

آتے جاتے ان کے والد صاحب ان کے بھائی مجھے سلام دعا بھی کرتے تھے اور کبھی کبھی پانچ دس منٹ کھڑے ہو کر باتیں بھی کر لیتے تھے اور میری مجال جو میں کچھ کہہ پاتی کہ بھئی میں ایک عورت ہوں جو پردہ دار اور اسلام کے قانون کی پاسدار ہوں بھلے ہی میں سوشل ورکر ہوں لیکن میں ہمیشہ احترام کی مالک رہی ہوں۔

خیر وقت گزرتا رہا سردی گرمی اور وہ بیھٹک تو اسکول کھلنے کے کچھ ماہ بعد ہی ٹوٹ گیا تھا اس کے بعد کی ساری کہانی اس بیر کے نیچے کی ہے جو کہ مری صاحب کے گھر کے گیٹ کے پاس تھا اس لیے تو آتے جاتے سب کے سلام دعا کی میں خواستگار تھی ، ہاں ایک پیارے بوڑھے بابا اور ان کی بیوی جن کو میں اماں کہتی تھی وہ دونوں ہمیشہ میرے پاس آ کر مجھ سے باتیں کرتے تھے اور دعائیں دے کر جاتے تھے ان کا انتظار رہتا تھا مجھے ہر روز۔ لیکن وہ جو آدمی ہر روز اس بیر کے درخت کے نیچے سے بنیان کے ساتھ اٹھ کر جاتے تھے تب میں وہاں جاتی تھی اس بات نے مجھے بہت ڈپریشن کا شکار کر دیا تھا۔

مری لوگوں کی اس بات کو میں سلام کرتی ہوں کہ بھئی مجھے تو روز سلام دعا کر کے ہی نکل جاتے تھے لیکن ان کی جو بیٹیاں 11 سال یا اس سے کچھ بڑی تھیں ان کو اجازت نہیں تھی کہ میرے پاس بیٹھے رہیں جب تک میری گاڈی آ جائے بلکہ جس دن میں کہتی بیٹھ جاو تو جیسے ہی میرا شوہر آ جاتا مجھے لینے تو پہلے وہ بھاگ کر اندر جاتے اور تب کوئی چھوٹا بچہ گیٹ کھول دیتا ۔

خیر وہ تو بہت پردے دار تھے ایک بے پردہ میں ہی تھی۔ جب ڈپارٹمنٹ میں شکایت کی کہ کوئی اسکول ہی بنا کر دیں یا کوئی استانی کا آسرا ہو کم سے کم کہ میں تنہا نہیں ہوں تو جناب معلوم ہوا کہ دفتر سے کہا گیا ہے کہ یہ استانی سوشل ورکر ہے باقی کام بھی کرتی ہے تو اب یہ اس کے لئے سزا ہے کہ اسی بیر کے درخت کے نیچے زندگی گزار لے خیر میں نے کہا ٹھیک ہے کالا پانی کی سزا ہے تو خیر ہے ۔۔۔

وقت گزرتا گیا اور کبھی سانپ کبھی بچو ان سب جانوروں کے ساتھ کبھی ڈر اور کبھی ہنسی میں بیر کے درخت کے نیچے گزارا کر لیا تھا بس اس بات نے بہت تکلیف دی آخر میں کہ اگر ایک دن بھی میری کسی بیماری یا کسی کام کی وجہ سے میں نا جا پاتی تو میری تنخواہ کاٹ دی جاتی تھی جیسے اب کاٹی گئی ہے ،،،خیر یہ بعد کا قصہ ہے ابھی تو یہ بات ختم نہیں ہوئی ہے ۔ تو جناب ایک تو تنخواہ کی کٹوتی دوسری میری عزت کہ میں آخر کس قسم کی نوکری کر رہی ہوں کہ جس میں میری کوئی سلف رسپکٹ ہی نہیں ہے کہ میں ہر روز غیر مردوں کے آگے کھڑے ہو کر انتظار کرتی ہوں کہ وہ بنیان پہن کر اپنے گھر میں داخل ہوں اور تب میں اسی جگہ جا کر بیٹھ جاؤں۔ تو میں نے اپنے گھر میں صاف کہہ دیا مجھے نہیں کرنی نوکری اس طرح اور میری تنخواہ کٹتی رہی پھر مجھے مجبور کیا سب نے کہ نوکری ایسے نہیں ملتی جاو اور میں مجبور ہو کر واپس ڈیوٹی دینے گئی۔

لیکن اب قصہ بدل گیا تھا اسکول کے بلکل دوسری طرف ایک مسجد کا حجرہ تھا وہ بھی مری قبیلے کے لوگ ہیں چیر دفتر میں میں نے بتا دیا کی یہ اب کیا ہے ایک گلی ہے مسجد ہے اور مسجد کا حجرہ ہے جو کہ گلی میں ہے اب میں یہاں محفوظ محسوس نہیں کرتی اور ایک عورت ہونے کے ناطے میں نہیں جا سکتی لیکن اے ڈی او صاحبہ نے آ کر دیکھا اور کہا ڈیوٹی دینی ہے جو بھی ہو ورنہ تنخواہ بند کر دینگے خیر تو میں غریب مجبور ہو گئی اور ڈیوٹی دینے لگی خدا کا کرنا کہ ایک سال بعد وہاں اسکول بننے لگا اور میں بہت خوش ہوئی کہ چلو اب آرام ملے گا کسی محفوظ جگہ پر جہاں یہ غم نہیں کہ گلی میں گزرنے والا ہر آدمی میری آواز سن رہا ہے مجھے کھڑے ہو کر دیکھ رہا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اسکول کی بلڈنگ بن گئی لیکن آج تک پوری نہیں ہے بیٹھنے کے قابل تو ہے برامدہ لیکن واشروم وغیرہ کا انتظام یہ سب کچھ بھی نہیں ہے نا پانی وغیرہ کا انتظام ہے ، اب میں ہر روز بچوں کے گھر نہیں جا سکتی پانی پینے یا رفع حاجت کی کبھی ضرورت پیش آئے انسان ہوں آخر فرشتہ تو ہوں نہیں۔ تو اسی سلسلے میں آج ٹھیکدار کا نمبر اس اسکول کے بچوں کے والدین سے لے کر ان کو کال کیا کہ اسکول کب تک مکمل ہوگا تو ان کا کہنا تھا کہ پیسے نہیں ہیں جتنا حکومت نے دیا ہے وہ ختم ہو گئے ہیں۔ اب ہم اپنی جیب سے تو اتنا بڑا کام پورا نہیں کر سکتے ناں اس لئے جون تک شاید حکومت کوئی اقدام لے تب ہم کام کر سکتے ہیں ورنہ ممکن نہیں ہے۔۔۔ تو میں حیران رہ گئی کہ وہ بندہ یہ بھی کہہ رہا تھا کہ جو چیز پہلے اگر سو روپے کی تھی تو اب پانچ سو کی ہے۔ اس لیے مہنگائی کی وجہ سے اب دوبارا حکومت کو بجٹ دینا ہوگا وغیرہ۔

لیکن کیا یہ بات ایک سمجھدار انسان کو مطمئن کر سکتی ہے کہ حکومت نے جو کام سو روپے کے وقت میں دیا تھا وہی کام آپ نے اس وقت پورا نہیں کیا اور اب پانچ سو کے دور میں جب آپ سے پوچھا جا رہا ہے تو کیسے آپ یہ بات کر سکتے ہیں زرا ہمیں سمجھائیں خدا را کیونکہ ہماری سمجھ سے بالا تر ہو گئی ہے یہ بات۔

خیر ، اب بھی نا کوئی کرسی ٹیبل نا کوئی بھی ضرورت کا سامان ہے اسکول میں کچھ بھی نہیں ہے ، اسکول میں بس صرف ایک سایہ ملا ہے وہ بھی کافی ہے لیکن کلسٹر سے حکومت وقت سے اس ٹھیکدار سے بہت دل سے گزارش ہے کہ اسکول کو جلد از جلد مکمل کیا جائے اور کلسٹر مجھے اسکول کی ضرورت کا سامان مہیا کرے جلد از جلد اور حکومت برائے مہربانی صرف مجھ غریب کی تنخواہ کو نا کاٹے بلکہ کچھ کرے اس اسکول کے لئے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں