تحریک آزادی بلوچستان ۔ سنگت مہروان خارانی

491

تحریک آزادی بلوچستان 

تحریر: سنگت مہروان خارانی 

دی بلوچستان پوسٹ

لفظ آزاد اک سوچ وفکر کا نام ہے، جو اپنی زندگی کے مقاصد سے بالاتر اور اپنی قوم و دھرتی کے لیئے آزاد خیالی کا حامل رہتا ہے۔ مطلب یہ کہ وہ اپنا نظریہ رکھتا ہے اپنے جوانوں کے لیئے، بلوچستان میں آزادی کی تحریک کئی عرصوں سے چلتی آرہی ہیں اور اس تحریک میں کئی نوجوان قربان ہوچکے ہیں، آزادی کی راہ میں قربانی دینے والے نوجوانوں کا لہو وہ آسماں ہے جس کے سائے میں سنور جاتی ہیں تاریخیں، نکھر جاتی ہیں تہذیبیں۔

بلوچستان اس وقت حالاتِ جنگ میں ہیں، بلوچستان میں کئی دہائیوں سے آزادی کی تحریک چل رہی ہیں، کئی روشن چہرے بلوچ وطن کی آزادی کے لیے خاک ہوگئے اُن کی جدائی کا درد آج بھی ہم سب محسوس کرتے ہیں، اُن کے حسین چہرے آج بھی ہمارے قومی چہرے کا حسن ہیں اُنہی کی مثالوں، یادوں، تصویروں اور نشانیوں کی بدولت ہمارا قومی سفر جاری ہے، بہت سے گمنام، آزادی کے حصول میں جانیں گنوا بیٹھے مگر وہ زندہ ہیں، شاد ہیں اسی طرح آج بھی آزادی کی تحریک کی شمع روشن ہے، حقیقتاً یہ ہے کہ انہی شہدا کی بدولت ہم آج دنیا میں اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں، قوموں کو اُن کا قربانی ہی زندہ رکھتی ہے تحریک آزادی کی جنگ میں کتنی قربانیاں دی گئیں ان کا شمار نہیں، آج اگر آزادی کی تحریک زندہ ہیں تو یہ انہی شہداء کی مرہون منت ہی۔

بلوچ قوم کو اس جنگ کو قومی جنگ سمجھ کر اس جنگ میں اپنا کردار نبھانا ہوگا کیونکہ یہ جنگ آزادی اور بلوچ قوم کی بقاء کی جنگ ہے، بلوچ قوم اس وقت غلام اور محکوم قوم ہیں، بلوچ قوم کے وطن اور وسائل پر پنجابی فوج قابض ہیں اور جو تمہارے وطن اور اسکے وسائل پر قابض ھوتا ھے، وہ تمہارے اور تمہاری نسلوں کے ذھنوں پر بھی قابض ھوتا ھے، حب فیصلہ تمہیں کرنا ہے کہ قابض کا غلامی قبول کرکے تاریخ میں غلام قوم کی حیثیت سے جانے جاہوں یا تو قابض فوج کا مقابلہ کرکے اپنی آنے والی نسلوں کو اس غلامی سے نجات دلاؤں کیونکہ وہ گروہ یا قوم کہ جنکا وطن اور اسکے وسائل انکے اپنے ہی دسترس میں ہیں وہ محبت میں زندگی ڈونڈے اور وہ قوم جنکا وطن اور اسکے وسائل پر دوسرے قابض ہیں تو وہ مزاحمت میں زندگی تلاش کریں۔

آج بلوچستان میں نوجوان بجائے کہ قومی آزادی کی جنگ میں شریک ہوں بلکہ خود کو اس جنگ سے بے خبر کرتے ہوئے کنارا کرلیتے ہیں کیونکہ قابض فوج نے اُن کے دلوں میں خوف اور دہشت بیٹھا لیا ہے کیونکہ ایک غلام اور قابض خطے میں جنم لینے والے قلم کا سب سے پہلا اور آخری فرض یہی ھوتا ھے کہ اسکی روشنائی وھاں غلام بنائی گئی نسل کے نوجوانوں کے ذھنوں میں قابض گروہ کی طرف سے ٹھونسی گئی خوف کو زائل کریں، بلوچ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی خوف کو ختم کرکے آزادی کی جنگ میں اپنا حصہ ڈالیں اپنی زنجیروں کو توڑنے کی ہمت کریں اور اپنی وجود کو پہچانے، میکسم گورکی کہتا ہے کہ انسان کہلانے کے قابل صرف وہ لوگ ہیں، جو اپنی زندگی انسانی زہن کو زنجیروں سے آزاد کرانے کےلئے وقف کر دیتے ہیں۔

آج پنجابی فوج بلوچ وطن پر بلوچ قوم ہی سے اس کی شناخت پوچھتا ہے، موجودا حالات میں بلوچ قوم کی ننگ و عزت محفوظ نہیں، ہماری چادر و چار دیواری کا پامالی کرتے ہوئے ہماری گھروں میں گھس کر ہماری بلوچ جوانوں کو اغواء کر کے اُنہیں پے حملہ کرکے پھر اُنہیں کو حملہ آور بتاکر شہید کرنا جن میں خاران سے شہید قدرت اللّٰہ ملازئی، خضدار سے شہید تابش وسیم، قلات سے شہید شہزاد دہوار اور کئی بلوچ نوجوان واضح ثبوت ہیں۔

بلوچ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ قومی جنگ میں شریک ہوکر اپنی حصے کی کردار نبھائے اگر آپ پہاڑوں میں نہیں جاسکتے تو شہر میں رہ کر قومی جنگ میں اپنا حصہ ڈالیں کیونکہ یہ جنگ محض پہاڑوں تک نہیں یہ جنگ حب شہروں تک آگئی ہے آپ شہر میں عوام کے بیچ راہ کر دشمن پر گوریلا طرز کے حملے کرسکتے ہیں بس آپ اپنی اندر اس بات کا عزم پیدا کریں کہ قابض پنجابی فوج کا غلام بننے سے بہتر ہے کہ ہم قابض فوج کا مقابلہ کریں اور اگے بڑے اور دشمن پر وار کرتے رہے، ہر طرز اپنا کر دشمن کو شدید نقصان سے دو چار کرتے رہے دشمن کے آلہ کاروں کو موت کے گھاٹ اتار تھے رہے دشمن کے تنصیبات کو نشانے بناتے رہے کیونکہ دشمن حب اس جنگ کو ہار چکی ہے دشمن نے نفسیاتی طور پر اور جنگی معاز پر شکست کھالی ہیں بس اور بھی تیزی سے اسی طرز کے دشمن پر حملے کرتے رہے، آزادی کی سورج خود دیکھائی دے رہا ہے، ممکن ھے کہ آپ کو اپنے اھم آزادی کی مقصد کیلئے حالات انتہائی ناسازگار دکھائی دیتا ھو اور مطلوبہ نتائج مشکل دکھائی دیتا ھو، لیکن پھر بھی آپ ھمت کریں، آگے بڑھے اور پہلا قدم اٹھا ہی لیں تب وہی ھوکے ہی رھے گا کہ جسکا تعلق آپکے مطلوبہ نتائج سے ہیں، بقولِ بھگت سنگھ کہ غلامی میں راحت کی زندگی بسر کرنے سے بہتر ہے کہ دشمن سے لڑتے ہوئے پر خار زندگی اپنائی جائے اور آنے والی نسلوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کیلئے اپنی جان قربان کی جائے۔

کچھ بلوچ نوجوان کنفیوژن میں مبتلا ہیں کہ انہیں کس پلیٹ فارم سے کردار نبھانی ہوگی انہیں کس کی نگرانی میں کام کرنی ہوگی، ان جوانوں کو چاہیے کہ وہ اس بات کو سمجھے کہ یہ بلوچ قوم کی آزادی کی جنگ ہے یہ جنگ کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہے اور ناہی یہ جنگ کسی سردار کے ماتحت ہے اور ناہی یہ جنگ کسی کیلئے روکی گی یہ جنگ قابض فوج کی آخری سپاہی کی انخلا تک اور بلوچ سرمچاروں کی آخری گولی اور آخری سانس تک لڑا جائیگا اگر آپ بلوچ جہد کار بننا چاہتے ہیں تو آپ کی توجہ صرف یہی ہونی چاہیے ہے کہ آپ کو قابض فوج کو شدید نقصان دینا ہوگا چاہے آپ کی وابستگی کسی بھی تنظیم سے ہوں آپ کو اپنی کمانڈر کی ہر اس بات کو ماننا ہوگا جس سے آپ جانتے ہیں کہ قابض فوج کو نقصان پہنچ سکتا ہیں، آپ کسی بھی تنظیم سے آزادی کی جنگ میں اپنی کردار نبھا سکتے ہوں بلوچستان کی آزادی کی راہ میں ایسے بے شمار قربانیاں ہیں جن میں شہید طارق کریم کی فیملی کی بات کی جائے جن میں ان کی خاندان کی پانچ نوجوانوں نے آزادی کی راہ میں اپنی جانوں کی نذرانے پیش کی، چونکہ شہید طارق کریم بلوچ، بلوچ لبریشن فرنٹ، شہید عاصم کریم بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آزاد)، شہید ثاقب کریم (ایف بی ایم) جبکہ شہید ظفر بلوچ اور شہید یوسف بلوچ، بلوچ ریپبلیکن آرمی سے، ایک ہی خاندان کے پانچ جوانوں نے مختلف تنظیموں سے اپنی خدمات سرنجام دیں، آپ کسی بھی تنظیم سے قابض فوج اور ہر اس عمل کے خلاف مزاحمت کرسکتے ہوں جو بلوچستان کی آزادی کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔

وہ دن دور نہیں جب دشمن کو شکست ہوگی جب ہم آزاد اور خودمختار وطن کے مالک ہونگے پھر شرمندگی اور عبرت کا نشان وہ بنے گے جنہوں نے اِس جنگ کو قومی جنگ نہیں سمجھا، جو اِس قومی جنگ کے حصہ نہیں بنے، جو چُپ ہوکر کر دیکھتے رہے کہ قابض فوج نے کراچی، اسلام آباد، کوہٹہ میں بلوچ بہنوں کی بلوچی چادر کی پامالی کرتے ہوئے بلوچ ماؤں کو رلایا، جو بلوچی غیرت کو بھول کر خاموش دیکھتے رہے کہ قابض فوج نے بلوچ نوجوانوں کے گھروں میں گُھس عورتوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے بلوچ نوجوانوں کو شہید کیا ، جو دیکھتے رہے کہ قابض پنجابی فوج نے مکران، آواران اور بولان میں بلوچ گھروں کو نذر آتش کر کے اُنہیں بے گھر کردیا، جو دیکھتے رہے کہ قابض فوج نے اپنے شراکت دار چین کو خوش کرنے کے لیے بلوچ ماں ماھل بلوچ پر جھوٹے الزامات لگا کر اسے ٹرچر کیا، جو دیکھتے رہے کہ قابض فوج نے بلوچ وطن کے وسائل لوٹ کر پنجاب اور بیرونی ممالک بھیجے مگر بلوچستان کو محروم رکھا لیکن یاد انہیں کیا جائے گا جنہوں نے اِن تمام ظلم کا جواب مزاحمت سے دیا اور یہ میرا ایمان ہیں مجھے یقین ہے کہ میں رہوں یا نہ رہوں مگر اِس جنگ کو جاری رکھنے کے لیے بلوچ نوجوان بہت آئینگے مجھے امید ہے کہ وہ ورنا اس جنگ کو ضرور آگے بڑھائیں گے اور اس جنگ کو مزید تیز، شدیدتِر اور دشمن کو کاری ضرب لگا کر رہینگے اور مظلوم بلوچ بہنوں، ماؤں اور شہیدوں کا بدلہ دشمن کے کیمپوں میں گھس کر اُنہیں نیست ونابود کرکے لینگے اور خود کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے تاریخ کے حوالے کرینگے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں