بلوچ قوم کا اصل مسئلہ اور اس کا مستقل حل ۔ سفرخان بلوچ (آسگال)

1103

بلوچ قوم کا اصل مسئلہ اور اس کا مستقل حل 

تحریر: سفرخان بلوچ (آسگال) 

دی بلوچستان پوسٹ

ہمارے ہاں تواتر سے یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ بلوچ قومی مسائل کو حل کئے بغیر بلوچستان میں امن ممکن نہیں ہے۔ لوگوں کے زہنوں میں تواتر سے یہ سوال ابھرتے ہیں کہ بلوچ قومی مسائل کیا ہیں؟

کیا بلوچ قوم کا سب سے بڑا مسئلہ ساحل وسائل ہیں؟ کیا قوم کا مسئلہ اس وقت بلوچستان میں فوجی چوکیاں ہیں؟ یا بلوچوں کا مسئلہ بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہیں؟ کیا جبری گمشدہ افراد کے بازیابی سے بلوچ مسئلہ حل ہوجائے گا ؟ کیا بلوچ قوم کی اکثریت پارلیمانی بالادستی چاہتے ہیں ؟

دیکھنے میں آیا ہے کہ بلوچستان کے کچھ سیاسی اور طلبہ تنظیمیں سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کے دگرگوں حالات کے وجہ یہی مسائل ہیں اور بلوچستان سے وابستہ کچھ دانشور اور صاحب علم لکھاری بلوچوں کے مسائل کا لفظ ایک گہری اصطلاح کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ عام لوگوں کی اکثریت بلوچستان کے اصل مسئلہ سے واقفیت ہی نہیں رکھتے اور تنظیموں یا پارٹیوں کی دی ہوئی پالیسیوں کے مطابق اُن کے ہمنوا ہیں۔

تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر اور ان پر سنجیدگی سے سمجھنے سے ہمیں علم ہوگا کہ واقعی یہ مسائل بلوچ قوم کے مسائل ہیں لیکن سب سے بڑا یا مرکزی مسئلہ یہ نہیں بلکہ یہ مسائل مرکزی مسئلہ حل نہ ہونے کے وجہ سے موجود ہیں۔

چیئرمین ماوزے تنگ کہتے ہیں کہ اگر کسی عمل میں متعدد تضادات ہوں ان میں سے ایک تضاد لازمی طور پر اصل تضاد ہوتا ہے جو رہنماء اور فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے جبکہ دوسرے تضادات کی حیثیت ثانوی اور ذیلی ہوتی ہے چنانچہ کسی ایسے پیچیدہ عمل کا جدلیاتی سطح پر مطالعہ کرتے وقت جس میں دو یا دو سے ذیادہ تضادات ہوں ہمیں اس کا اصل تضاد معلوم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے ایک مرتبہ اصل تضاد گرفت میں آجائے تو تمام مسائل آسانی سے حل ہوسکتے ہیں۔ اور آج بلوچ اسی مرحلے سے گزررہے ہیں۔

جہاں تک بلوچوں کا اصل مسئلہ اور تضاد کا سوال ہے اس کو سادہ یا آسان لفظوں میں کہیں تو وہ بلوچ کی قومی شناخت کا مسئلہ ہے اور جتنے بھی دیگر مسائل ہیں اُن سب کا حل قومی شناخت اور آزادی وطن حاصل کرنے سے ہی ممکن ہوگا۔

اس وقت جتنے بھی مسائل ہم دیکھ رہے ہیں وہ اس لئے رونما ہورہے ہیں کیونکہ اس وقت بلوچ اپنی قومی شناخت ؤ آزادی کے لئے لڑ رہا ہے، جب تک بلوچ ایک آزاد ؤ خودمختار وطن حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے یہ ثانوی مسائل حل نہیں ہوں گے ۔

بلوچستان میں لوگوں کی بڑی اکثریت دیکھا گیا ہے کہ جہد آزادی سے منسلک کچھ لوگ ( قطع نظر کہ وہ آزادی کی جدوجہد سے وابستہ ہیں ) بلوچ وطن کا سب سے بڑا مسئلہ جبری گمشدگیوں کو گردانتے ہیں اور وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ جبری گمشدہ افراد کی بازیابی سے بلوچ مسئلہ حل کی طرف بڑے گا لیکن وہ تجزیہ کرتے وقت اِس بات کو نظر انداز کر جاتے ہیں کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کی اصل وجہ کیا ہے؟

بلوچستان میں لوگوں کو اس وجہ سے جبری گمشدگی کا شکار بنایا جارہا ہے کہ بلوچستان میں قومی شناخت کی جنگ کو کاؤنٹر کیا جاسکے ۔ اگر بلوچ آزادی کی جنگ نہ لڑیں تو ناہی لوگ جبری گمشدہ ہونگے اور ناہی بلوچستان میں فوجی آپریشن ہوں گے۔

اگر بلوچ مسلح تنظیمیں بلوچ قومی شناخت کی جنگ کو ختم کر دیں اور پاکستان کے آئین کو قبول کریں تو یہ جبری گمشدگیاں بھی ختم ہوں گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ بلوچ قوم کے ساحل و وسائل پہ بھی انکی اپنی بالادستی ہو مگر یہاں اہم ترین سوال یہی ہے کہ کیا بلوچ قومی آزادی سے وابستہ پارٹیاں اور تنظیمیں قومی آزادی کی تحریک سے دستبردار ہوں گے؟

اکیسوی صدی میں بلوچ قومی آزادی کی تحریک شروع ہونے سے پہلے بلوچستان کے حالات آج سے بہت مختلف تھے ۔ اُس دور میں نہ جبری گمشدگیوں کا مسئلہ موجود تھا اور نہ ہی بلوچستان میں فوجی چوکیاں ؤ کیمپس موجود تھے۔ جبری گمشدگیوں کے شروعات نورا مری کے جبری گمشدگی سے شروع ہوئی اور اُنہیں اس لیے جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا کیونکہ وہ بلوچ وطن کی آزادی کے جہد سے وابستہ تھے۔ آج بلوچستان فوجی آپریشنوں کے زد میں ہے بلوچ قوم کی نسل کشی کی جارہی ہے اُس کی بنیادی وجہ بلوچ قومی آزادی کی جاری جنگ ہے۔ اگر بلوچ بندوق پھینک دیں اور بلوچ وطن کی آزادی کی جنگ کو ختم کردیں تو میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ بلوچستان میں نہ ہی کوئی جبری گمشدہ ہوگا اور نہ ہی کوئی فوجی آپریشن ہوگا۔ جنگ کے خاتمے کے ساتھ ہی بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ختم ہو جائیں گے۔

بلوچستان کے دگرگوں حالات کی وجہ بلوچ انسرجنسی ہے اور جب تک دونوں فریقین ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل نہیں ہونگے دونوں فریقین میں ایک کو شکست اور دوسرا کامیاب نہیں ہوگا تب تک تسلسل اسی رفتار سے یا ہوسکتا ہے آنے والے دنوں میں زیادہ شدت کے ساتھ جاری رہے۔

ہم کتابوں میں پڑھتے ہیں اور اپنے سرکلز میں یہ کہتے ہیں کہ پاکستانی فوج نے بنگلہ دیش میں بڑے ظلم کئے ہیں اور ہمیں اِن مظالم کے لیے تیار رہنا ہوگا اور آج بلوچستان میں بلوچ قوم کے ساتھ جو ہورہا ہے کل حالات اس سے بھی بدتر ہوں گے۔

ان تمام حالات کا مقابلہ اگر کوئی کرنا چاہتا ہے تو اس کو بلوچ مزاحمتی تحریک میں شامل ہونا ہوگا ۔ بلوچ مزاحمتی تحریک جتنی زیادہ مضبوط ہوگی وہ ریاستی جبر کے شدت کو روکنے میں کامیاب ہونگے اور ہماری مزاحمتی تحریک کی کمزوری ریاستی جبر کی شدت بڑھائے گی کیونکہ ایک فیصلہ کُن قوت کے بغیر ہم ریاستی مظالم کو روک نہیں پائیں گے ۔

ریاست ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر شدت سے ہماری تحریک کو کاونٹر کرنے کی کوشش کرے گا۔ آج بلوچستان میں آزادی سے وابستہ سیاسی پارٹیوں کی کمزوریوں کی وجہ سے وہ بلوچستان میں ظلم ؤ جبر کے خلاف قوم کو منظم نہیں کر پا رہے ہیں اور بلوچستان میں ریاست دیدہ دلیری سے اپنے مظالم جاری رکھے ہوئے ہے لیکن اُن کے خلاف منظم سیاسی جدوجہد موجود نہیں ہے۔ بلوچستان میں کچھ سیاسی شخصیات ؤ ادارے سیاسی مزاحمت کے بیرک کو بلند کرنے کی مقدور بر کوشش کررہے ہیں لیکن ہمیں ریاستی جبر کو روکنے کے لئے سیاسی مزاحمت کو منظم کرنا ہوگا ۔ جس دن بلوچ سیاسی اور مزاحمتی تحریک مضبوط اور شدت کے ساتھ آگے بڑے گا تو ریاست بلوچوں پر ظلم کرنے سے پہلے ضرور سوچے گا۔

بلوچ سیاسی اور مزاحمتی تحریک کو ریاستی ظلم کے خلاف جس شدت کے ساتھ ردعمل دینے کی ضرورت ہے وہ اُس شدت سے ردعمل دینے میں کامیاب نہیں ہوپارہے ہیں جس کی ایک وجہ یہی ہے کہ ہم نے خود کو بلاجواز کئی الجھنوں میں پھنسا کر رکھا ہے۔

دنیا میں جہاں بھی جنگیں ہوئی ہیں یا ہورہے ہیں یہ ایک تلخ حقیقت ہے وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوئیں ہیں، اس سے کوئی زی شعور انکار نہیں کرے گا۔ دنیا میں جتنے بھی انسانی حقوق کے علمبرداری کے دعویدار ہیں وہ خود دنیا کے مختلف خطوں میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں میں ملوث ہیں۔

آج یوکرین میں جنگ جاری ہے، یہ طاقت کی جنگ ہے جہاں ایک طرف مغربی ممالک ؤ امریکہ یوکرین کی پشت پناہی کررہے ہیں اور روس پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگا رہے لیکن یہی مغربی ممالک افغانستان، عراق اور لیبیا میں روس سے زیادہ انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں میں ملوث رہے ہیں ۔جنگوں میں فیصلہ کُن قوت طاقت ہے اور انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کو صرف طاقت سے روکا جاسکتا ہے۔

حالیہ دنوں شائع ہونے والی برطانوی شہزادہ ہیری کے کتاب میں وہ خود اس بات کا اعتراف کررہے ہیں کہ اس نے کتنے بے گناہ افغانوں کا قتل کیا ہے لیکن اُسے پوچھنے کی جسارت کوئی نہیں کررہا ہے کیونکہ ایک یورپی شہزادے کے لئے مظلوم افغان کے جان کی کوئی قیمت نہیں ہے اور انسانی حقوق صرف یورپیوں، امریکیوں یا طاقت ور ممالک کے لوگوں کو حاصل ہیں اور اقوام متحدہ اِن طاقت ور ممالک کے سامنے بے بس ہے۔

افغان رہنما مولانا عبدالسلام ضعیف اپنے کتاب میں لکھتے ہیں جب میں گوانتاموبے میں قید تھا تو میں ہر وقت امریکی فوجیوں کو جنیوا کنونشن کے بارے میں یاد دلاتا تھا تو وہ کہتے تھے کہ یہ امریکہ ہے جنیوا کنونشن کی باتیں جنیوا میں جاکر کریں۔ کہنے کا مقصد یہی ہے کہ جو ہم دیکھتے ہیں وہ حقیقت نہیں اور حقیقت وہی ہے جس کو ہم دیکھنا نہیں چاہتے ہیں۔ حقیقی دنیا میں مظلوم قوم صرف طاقت کے ذریعے ہی ظلم کو روک سکتا ہے ۔

آج بلوچوں کے سامنے صرف دو ہی راستے ہیں، اگر بلوچ قوم اپنے شہداء کے قربانیوں کو فراموش کرکے پاکستان کے آئین کو قبول کریں تو اُن کی شناخت ختم ہوگی اور بلوچستان کے مالک باہر سے آنے والے لوگ ہوں گے اور اگر ہمیں بلوچ شناخت ؤ وطن کی حفاظت کرنا ہے تو پاکستان کے خلاف سیاسی اور مزاحمتی قوتوں کو منظم کرنا ہوگا اور فیصلہ کُن جنگ کے لئے اپنی قوت کا بڑھانا ہوگا ۔ مضبوط سیاسی اور مزاحمتی ادارے ہماری کامیابی کی ضامن ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں