قائداعظم یونیورسٹی بلوچ طلبہ پر حملہ ایک سوچھی سمجھی پالیسی ہے ۔ بی ایس سی

426

بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل سرگودھا کے ترجمان نے اپنے جارہ کردہ بیان میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 1947 سے لے کر آج تک بلوچ قوم پر اور ان کے جوانوں کو روز ایک نئے ظلم کی آغوش میں ان پر تشد کرنا کبھی لاٹھیاں ان پر برسانا، کبھی ان کی پروفائلنگ اور تعلیمی اداروں میں ہراساں کرنا ہم سمجھتے ہیں ان کو تعلیم سے دور رکھنے کا ایک پری پلان سازش ہے۔

“جس کی حالیہ مثال ملک کی کیپیٹل سٹی کے واقعہ کا رونما ہونا اور پشتون کونسل کے غنڈہ گرد لڑکوں کی اپنی سپورٹ کے لیئے کرایہ کے لوگوں کو جمع کرکے یونیورسٹی میں نہتے بلوچ طلبہ پر بزدلانہ حرکت نے اس بات کا واضح ثبوت دیا ہے کہ ریاست ہر روز ایک پالیسی کے تحت بلوچ نوجوانوں کو تعلیم سے دور رہنے کی سازش کرتا ہے اور یہ بات حیران کن ہے کہ 2000 کے قریب غنڈے دارالحکومت میں گھس کر ایک یونیورسٹی کی باؤنڈری کے اندر تک پہنچ جائیں اور انٹیلی جنس کو اس کی خبر تک نہ ہو اس سے صاف ظاہر ہے کہ اسلام آباد پولیس بھی ان کے ساتھ شامل ہوئی ہے۔”

ترجمان نے مزید کہا کہ ہم پشتونوں کی اس عمل کی سخت مذمت کرتے ہیں اور ان سے ہم مخاطب ہوکے کہیں گے آخر آپ لوگ کب تک اس سازش کا حصہ بنیں گے اور اس طرح کے پری پلان سازش کے سات مدد گار اور پیش رفت ہوں گے۔ کب تک استعمال ہوتے رہیں گے۔ باچا خان کے پیروکار خود کو سمجھتے ہوئے وہ کیسے ایسے گھنوانے حرکت کرسکتے ہیں۔

ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ بلوچ وہ قوم ہے کہ صدیوں تک اپنا بدلا نہیں بھولتا۔ بلوچ ہر طاقت کا مقابلہ کرسکتا ہے اور بلوچ قوم چاہیے وہ سْیاسی میدان ہو یا جنگی لیکن بلوچ صبر کا دامن لیتا ہے ترجمان نے مخاطب ہوکر اپنے بلوچ بھائیوں سے گزارش کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس طرح کی انسرجنسی میں اکھٹا ہوکر مقابلہ کریں تاکہ ہماری اپنے دشمنوں کو بلوچ کا تاریخی حیثیت یاد رہے انہیں بلوچ کا ماضی بھی یاد رہے اگر ہم اتحاد کے دامن پکڑیں۔