بلوچستان اور شورش کی پانچ لہریں ۔ شےحق صالح

635

بلوچستان اور شورش کی پانچ لہریں

تحریر: شےحق صالح

دی بلوچستان پوسٹ

پاکستان میں آمریت کے ساتھ سیاسی عدم استحکام نے امن و امان کی صورتحال کو براہ راست متاثر کیا ہے۔ ملک کی معیشت کو بہت نقصان پہنچا ہے۔

پاکستان اور اس کے مشترکہ سرحدی ممالک کے سرحدی علاقوں کو ہمیشہ سے جنگی علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ اور یہ خطہ جنگ اور جھگڑوں سے انتہائی متاثر ہوا ہے۔

روس کے حملے، افغانستان میں امریکی راج، سیاست میں ڈرامائی تبدیلی، طالبان کا عروج، مختلف شورشوں کا عروج اور بیس سٹیشن کا کردار ادا کرنے نے اس خطے کو مختلف حالات میں الجھا کر رکھ دیا ہے جس کا براہ راست امن و امان پر اثر پڑا ہے۔

مختلف سیاسی، جیو پولیٹیکل، اور جنگ کا احاطہ کرنے والے تجزیہ کار تجزیہ کرتے ہیں کہ پاکستان میں شورشیں ان غیر یقینی صورتحال کے دوران شروع ہوئیں۔ بلوچستان میں مختلف ادوار میں مختلف شورشیں شروع ہوئیں اور ختم ہوئیں۔

مختلف شورشوں کی مختلف حکمت عملی، شکایات اور اہداف تھے۔

بلوچستان میں پہلی شورش

بلوچستان میں پہلی شورش کی قیادت آغا عبدالکریم نے کی۔

وہ خان آف قلات کے چھوٹے بھائی اور مکران کے گورنر تھے۔

پہلی شورش 1948 میں اس وقت شروع ہوئی جب خان آف قلات میر احمد یار خان کے ساتھ الحاق کے معاہدے کے ذریعے ریاست قلات کو پاکستان میں شامل یا ملایا گیا (تاریخ میں الحاق کا معاہدہ ابھی تک ایک تنازعہ ہے)

تو آغا اس کے خلاف کھڑے ہوگئے۔ برصغیر میں برطانوی دور میں آغا ایک عظیم سیاسی کارکن بھی تھے اور برصغیر میں برطانوی راج کے خلاف مزاحمتی سیاست میں بھی سرگرم رہتے تھے۔

مختصر عرصے میں اس نے افغانستان میں گوریلا اڈہ قائم کیا اور پہلی ڈیمانڈ لسٹ نوزائیدہ ملک کی حکومت کو بھیج دی۔

اس شورش کی بنیادی وجہ ریاست کی اعلیٰ ترین طاقت اور خودمختاری کا کھو جانا تھا۔ میجر جنرل اکبر خان، ایک فوجی افسر کو ان سے مذاکرات کا ٹاسک ملا۔

باغیوں نے قلات میں ڈیرے ڈالے اور پرامن مذاکرات کا انتظار کر رہے تھے لیکن حکومت نے اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے آغا کو اپنے 142 ساتھوں کے ساتھ گرفتار کر لیا۔ حکومت نے ان سے مذاکرات کا جھوٹا وعدہ کیا تھا۔

ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے اس وقت کے گرینڈ جرگے کی پیش کردہ رائے کو مسترد کرتے ہوئے آغا کو 10 سال قید اور بھاری جرمانے کی سزا سنائی۔ آغا کے گرفتار پیروکاروں کو بھی جیل میں ڈال دیا گیا۔

مذاکرات کے نام پر انہیں ہتھیار ڈالنا حکومت کے لیے ایک آسان کام تھا لیکن یہ بہت بڑی غلطیوں میں سے ایک تھا۔ شکایتوں کی کہانی یہاں سے شروع ہوئی۔

بلوچستان میں دوسری شورش

بلوچستان میں دوسری شورش کی قیادت نواب نوروز خان نے 1958 سے 1959 تک کی۔ یہ ایک خونریز تصادم تھا۔ اس شورش کی بنیادی وجہ ون یونٹ پالیسی کا نفاذ تھا جس کی پاکستان میں تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے مخالف کی تھی۔

خان آف قلات نے اسکندر مرزا کی جانب سے کراچی میں بلائے گئے وضاحتی اجلاس سے انکار کر دیا۔

انکار کے بعد خان آف قلات کو گرفتار کر کے قید کے لیے لاہور لے جایا گیا۔ اور اس کی گرفتاری کے تنازعہ میں اس کے بہت سے ساتھی مارے گئے۔ اسی دوران ملک میں مارشل لاء لگا۔ اسمبلیاں تحلیل کر دی گئیں اور پاکستان کا پہلا آئین منسوخ کر دیا گیا۔

ان حالات میں نواب نوروز خان نے ریاست قلات کی بحالی کے لیے مسلح جدوجہد شروع کی اور ون یونٹ پالیسی کی مخالفت کی۔

ایک بار پھر مذاکرات کے نام پر ملاقات کے دوران نواب اور ان کے بیٹوں اور پیروکاروں کو حراست میں لے لیا گیا۔

1960 میں نواب کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا۔ چار سال کوہلو جیل میں رہنے کے بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ یہ ایک دور کا خاتمہ تھا لیکن بلوچستان میں شورشوں کا نہیں۔

بلوچستان میں تیسری شورش

بلوچستان میں تیسری شورش کی قیادت شیر ​​محمد مری نے 1962 سے 1969 تک کی۔ اس بار باغیوں نے براہ راست مرکزی حکومت اور فوجی دستوں کا مقابلہ کیا۔

اس کی قیادت کرنے والے شخص کو شیرو کے نام سے بھی جانا جاتا تھا اور وہ ایک ادیب، دانشور اور سیاسی کارکن تھا۔ اس عرصے کے دوران باغیوں نے بلوچستان بھر میں ریلوے ٹریکس اور چیک پوسٹوں پر حملہ کیا۔

مری قبیلے کے سربراہ خیر بخش مری نے بھی اس شورش کے دوران ایک مسلح عسکریت پسند گروپ کو اکٹھا کرکے شیرو کی مدد کی۔

شورش اس وقت بڑھی جب مرکزی حکومت نے قبائلی سربراہوں کے سرداری اختیارات چھین لیا جس میں مینگل، بگٹی اور مری قبائل شامل تھے۔ مسلح حکمت عملی نے مرکزی حکومت کو الجھا دیا۔

مرکزی حکومت نے بلوچ سیاسی قیدیوں کو رہا کیا اور باغیوں سے ہتھیار ڈالنے کی تقریب کا مطالبہ کیا۔

اس درخواست کو مسترد کر دیا گیا اور ایک اعتماد جو باغیوں اور ریاست کے درمیان قائم کرنا تھا ناکام ہو گیا۔ مرکزی حکومت کے حکم پر ایک بار پھر ممتاز بلوچ سیاسی رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا۔

یہ جنرل یحییٰ خان کا دور تھا۔ آخر کار وان یونٹ پالیسی ختم کر دی گئی اور 1970 میں بلوچستان کو صوبے کا درجہ مل گیا۔

بالآخر باغی جنگ بندی پر راضی ہوگئے اور بلوچستان میں تیسری شورش کا خاتمہ ہوگیا۔

بلوچستان میں چوتھی شورش

بلوچستان میں چوتھی شورش کی قیادت ہزار خان اور اس کے ساتھی نے 1972 سے 1977 تک کی۔ یہ وہی دور تھا جب بنگلہ دیش کی پاکستان سے علیحدہ ہوگیا تھا اور 1971 کا حادثہ ابھی کافی تازہ تھا۔

معیشت اور سیاسی عدم استحکام کو بھی چوتھی شورش کے پیچھے اہم عوامل سمجھا جاتا ہے۔ اسی شورش کے دوران نواب خیر بخش مری نے ایک مسلح تنظیم بنائی اور گوریلا جنگ شروع کی۔

بلوچستان میں پانچویں شورش

2004 سے اب تک بلوچستان میں پانچویں شورش کی قیادت نواب اکبر بگٹی اور میر بالاچ مری نے کی۔ بلوچستان میں یہ شورش بدستور جاری ہے۔

جنرل پرویز مشرف نے مارشل لاء اور مختلف سیاسی جماعتوں اور قیادتوں پر پابندی اور اسی دور میں نواب اکبر خان بگٹی نے بلوچستان میں معدنیات، تیل اور گیس کے مسئلے پر مزاحمتی تحریک شروع کی جس کی وجہ صوبے کو مکمل طور پر نظر انداز کرنا تھا۔

دونوں طرف کی طاقت نے شورش کو بڑھاوا دیا اور اسی دوران باغیوں کے نظریات اور پالیسیوں میں تبدیلی بھی ریکارڈ کی گئی۔

نواب کی موت کے حادثے نے شورش کو بڑھا کر کے ڈرامائی تبدیلی لا کر رکھ دی ہے۔ کئی بار مرکزی حکومت نے مذاکرات کے لیے کمیٹیاں بنائی لیکن دونوں طرف سے کسی نے دلچسپی نہیں دکھائی اور بلوچستان میں ابھی تک جنگ جاری ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں