تشدد محض ایک ہتھکنڈا ہے – زویا بلوچ

377

تشدد محض ایک ہتھکنڈا ہے

تحریر: زویا بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

تشدد محض جسمانی ایزا رسانی کا نام نہیں بلکہ اسکی کئی صورتیں ہوتی ہیں سب سے خطرناک تشدد ” زہنی تشدد” کی صورت میں موجود ہے.

پاؤلو فریرے کے بقول محکوم حاکم کا تشدد سہہ کر اتنا نفسیاتی مریض بن جاتا ہے کہ جیسے ہی اسکو موقع ملا وہ اپنے سے کمزور پر تشدد کا رخ موڑنے میں دیر نہیں لگاتا، محکوم اگر تشدد کے محرکات کی باریک بینیوں کو سمجھ کر شعوری بنیادوں پر تشدد برائے عدم تشدد کی راہ اختیار کرے تو نوآبادکار کی جڑیں جلد ہی اکھڑ جاتی ہیں اور یہی چیز فرانز فینن کی” نو آبادیاتی نفسیات” کا نچوڑ بھی ہے.

اسکول کے زمانے میں ہمارے اساتذہ مخصوص رنگ کے کپڑے نہ پہننے کو وجہ جرم قرار دیکر متشدد رویہ اپنانے میں دیر نہیں لگاتے تھے، وجہ ڈسپلن میں بگاڑ کو قرار دیتے حالانکہ وہی لوگ خود سالہ سال اکثر و بیشتر مضامین کی کلاسز لینا تو درکنار سوچنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے، چپڑاسیوں کے ہوتے ہوئے بچوں کو کئی کئی گھنٹے ادارے کی صفائی ستھرائی اور زاتی کاموں کے نام پر جبری مشقت کرواتے وقت، اداروں میں پارلیمانی پارٹیوں کی جانب سے غیر ضروری تقاریب منعقد کروا کر، ملٹری بیسڈ تقاریب جبراً منعقد کراوتے وقت ڈسپلن گھاس چرنے نکل پڑتا تھا، قبل از اسکول مدرسہ میں معلم محض اس بات پر لوہے کے پائپ پر چمڑا لگا کے معصوم بچوں کا پچھواڑا لال کر رہا ہوتا تھا کہ مدرسہ کا مالک دیکھ لے کہ وہ کتنا تشدد پسند ہے اور یہی متشدد نفسیاتی رویہ ہی قابلیت کی کسوٹی پر پرکھنے کا رواج رائج ہے.

میکسم گورکی کے ناول ” ماں” میں، ماں نامی کردار کے بقول اسکا مرحوم شوہر کئی دہائیوں تک بلاوجہ اس پر اتنا جسمانی و زہنی تشدد کرتا تھا کہ ہر وقت ” حال” کو زہن میں رکھ کر “مستقبل” کے تشدد کا سوچ کر ” ماضی” بھول چکا ہے اسکو اور کوشش کے باوجود ماضی کی یاداشتیں شعور کی تختی پر دوبارہ آنے پر راضی نہیں ہیں.

اگر نو آبادیاتی نفسیات کا ہم بغور مطالعہ کریں تو نوآبادکار کی وجہ سے نو آبادی میں کئی نفسیاتی بیماریاں انہی متشدد رویوں کی وجہ سے جنم لیتی ہیں جیسے کہ تعلیمی اداروں کا فقدان، گنے چنے اداروں میں بنکاری نظام تعلیم، اداروں میں اکثر متشدد زہنیت کے حامل افراد کی بھرتی، سہولیات کا فقدان، بنکاری نظام تعلیم میں سوچ و سوال پر قدغن، زریعہ معاش کے مواقع کم کرنا (جیسے حالیہ بارڈر بندش و وسائل کو غیر بلوچ علاقوں میں منتقل کرکے انڈسٹریئلائزیشن کو دیگر علاقوں میں فروغ دیکر کاروبار و روزگار کے مواقع بلوچ کے لئے بند کرنا) اور دیگر سینکڑوں اس طرح کے سماجی مسائل اور ان سے جنم لینے والی معاشرتی برائیاں و نفسیاتی امراض ہیں جو نوآبادکار کی دین ہیں اس پر مزید ستم یہ ہے کہ نوآبادکار طرح طرح کے ہتھکنڈے بشمول مزہب، میڈیا اور نصاب کے نام پر نئی نسلوں کے ازہان میں یہ باتیں ٹھونسنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے کہ یہ سب کچھ قدرتی آفات ہیں جن کا زمہ دار نوآبادی ہے، کیونکہ وہ ( نو آبادی) کم فہم ہے، پسماندہ ہے، سست اور کاہل ہے اور خدا کا پسندیدہ نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ قدرتی آفات( نو آبادکار کی جانب سے پیدا کردہ مصنوعی آفات) کے زیر عتاب رہتا ہے.

فرانز فینن، پاؤلو فرارے و دیگر محقیقین کے بقول اس تمام صورتحال سے نکلنے کا واحد حل ” شعوری بیداری” ہے اور اس شعوری بیداری کا حصول نوآبادیاتی نظام تعلیم میں ممکن قرار نہیں ہے۔ اس کے لئے نوآبادی کے دانشوروں کو سر دھڑ کی بازی لگاکر لٹریچر ترتیب دینا ہوگا، بنکاری نظام تعلیم کی ہتھکڑیوں کو توڑ کر مباحثوں کو فروغ دینا، مثبت کتابوں کا مطالعہ، پیداواری علمی سرگرمیوں کو فروغ دینا ہوگا، بچوں کو سوال کرنا سکھانا ہوگا تبھی جاکر محکوم نوآبادکار کی جانب سے پیدا کردہ مصیبتوں، زہنی امراض، معاشرتی برائیوں سے چھٹکارا حاصل کرکے دنیا میں ایک آزاد قوم کی حیثیت سے سر اٹھا کر جی سکتا ہے، آزادی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک محکوم شعوری بنیادوں میں تشدد کا فلسفہ سمجھ کر ” تشدد برائے عدم تشدد کا فلسفہ اختیار کرکے” تشدد کا رخ اپنے سے کمزور کی بجائے نوآبادکار کی جانب موڑ لے یقین مانیے نوآبادکار سب سے زیادہ خوفزدہ بھی تشدد سے ہی ہوتا ہے، بقول چیئرمین ماوزے تنگ ” نوآبادکار محض ایک کاغی شیر کی منند ہوتا ہے” اور جوابی تشدد سے جلد ہی اسکی ہوا نکل جاتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں