کریمہ بلوچ: بلوچ سیاسی تاریخ کا ایک روشن باب – فاطمہ بلوچ

473

کریمہ بلوچ: بلوچ سیاسی تاریخ کا ایک روشن باب

فاطمہ بلوچ

جب سرزمین پر نوآبادیات کا گھیراؤ ہو جائے تو وہاں کے باشندوں کو اپنی پہچان واپس پانے کیلئے صدیاں لگ جاتی ہیں  کیونکہ انکیپہچان دنیا کہ اس خطے سے جڑی ہوتی ہے ، جس نے اب تک وہاں کے باشندوں کو ایک قوم کی حیثیت سے جوڑ ے رکھا تھا لیکن ابوہ انمول خطہ کسی طاقتور وحشی کہ ہاتھوں لگ چکی ہے ، پہلے تو وہ اس سرزمین کا گھیراؤ کر یگی پھر یہاں کہ باشندوں کو مذہب،ذات،زبان اور نئے روایتوں سے جکڑ لے گی اور ان معاملات سے خود کو چھڑانا کسی کمزور قوم کیلئے مشکل تو بعض اوقات نہ ممکننظر آتا ہے۔

کئی قومیں جو نوآبادیتی دور سے نکل کر اپنی شناخت بچانے میں کامیاب رہی ہیں ان کو ایسے فرسودہ روایتوں کو مات دینے میں یقیناًدشواریوں کا سامنا رہا ہوگا اسی طرح بلوچ قوم کے باشندوں کو نوآبادیتی ذہنیت اور فرسودہ روایتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہایک ہی قوم کے مختلف افراد میں ان دشواریوں کا سامناکرنا ان کی قابلیت پر انحصار کرتا ہے اور انہی افراد کی قابلیت کو ایک تنظیماجتماعی صورت میں تراش کر  بروِئے کار لاتی ہے اور نوآبادیت کہ خلاف استعمال کرتی ہے جبکہ اسی قوم کی  خواتین ان فرسودہروایتوں ؤ ذہنیت کو ختم کرنے میں کئی عرصہ لگتا ہے۔

بلوچ قوم کو بھی ان دشواریوں کا سامنا ہے اور وطن کے باشندے اپنی شناخت کو برقرار رکھنے کیلئے کبھی اپنی زبان کو بچانے کےدوڑ میں تو کبھی مذہبی ذہنیت کی پھیلاؤ کو روکنے میں لگے ہیں، اسی طرح نوآبادیتی دور کے فرسودہ روایتوں نے بلوچ عورت کا بھیسیاسی حوالے سے نکلنا نہ ممکن بنا دیا تھا لیکن بلوچستان کی سرزمین ہمیشہ سے ہی زرخیز رہی ہےاس کا ثبوت بانک کریمہ بلوچکہ شکل میں نمودار ہوئی جو ان سب فرسودہ روایتوں کا سامنا کرنے میں کامیاب رہی اور بلوچ عورتوں کیلئے سیاست کو ممکن بنانےمیں کامیاب رہی ،وہ تھی تو تمپ کی ایک انجان علاقے سے مگراس کی بہادری ،نعروں کی گونج ،جلسوں اور تقریروں سے مکران توآشنا تھا ہی مگر وہ بلوچستان کہ کونے کونے میں ایک غلام قوم کی عورتوں کی پہچان بن گئی تھیں ۔

کریمہ بلوچ کی قابلیت اور بہادری کو تراشنے میں بی ایس او آزاد کا کردار ہمیشہ سے نمایاں رہا اور اسی طرح کریمہ بلوچ کی بدولتہی بی ایس او اور بلوچ تحریک میں عورتوں کا کردار نمایاں نظر آتا ہے یعنی کہ بلوچ قوم کی جدوجہد کیلئے دونوں عناصر لازمی ہیںایک فرد کی بہادری اور قابلیت کہ ساتھ ساتھ ایک مضبوط تنظیم جو  ان افراد کی قابلیت کا مجموعہ لیکر چلے اور منزل تک پہنچا دے۔

کریمہ بلوچ ایک مضبوط آواز تھی جو غلامی کی زنجیروں کو ہلا دیتی تاکہ ان کی آواز سے سرزمین کہ باشندے کبھی اپنی  غلامیبھولنے نہ پائیں اور بلوچ عورتیں بھی ان زنجیروں سے چھٹکارا  پانے کیلئے جدوجہد کا حصہ رہیں۔

کریمہ بلوچ تب بھی مظبوطی سے کھڑی رہی جب تنظیم ریاستی کریک ڈاؤں کا شکار ہوگئی اور تنظیم کہ جنرل سیکریٹری کو شہیدکر دیا گیا جبکہ چئیرمین زاہد بلوچ کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا، انہوں نے اس بحران کے دور میں وائس چئیرپرسن کی زمہداریوں کوبخوبی نبھایا اور اپنے ممبروں کا حوصلہ بنی رہی ۔ ریاستی دھمکیوں کے باوجود ان کی زیر نگرانی میں بی ایس او آزاد کی جانبسے  چالیس دن تادم بھوک ہڑتالی کیمپ لگائی گئی تاکہ تنظیمی چئیرمین اور لاپتہ سیاسی لیڈران کا مسئلہ دنیا کے سامنے اجاگرہوسکے۔

کریمہ بلوچ 2015 میں بی ایس او  کی اور خطے میں طلباء آرگنائزیشن کی پہلی خاتون چئیرپرسن منتخب ہوئی جو بلوچ قوم کی اعزازاور ان کو جدوجہد میں  متحرک کرنے کا باعث بنی ،تنظیمی فیصلے کی پابندی کرتے ہوئے  وہ اپنی سرزمین جس کیلئے پوری زندگی لڑرہی تھی چھوڑنا پڑا اور کینڈا جاکر بلوچستان کے حالات کو اجاگر کرتی رہی ۔

کریمہ بلوچ  اپنی جدوجہد کی وجہ سے بی بی سی کی سو بااثر خواتین میں سے ایک تھیں۔ طلباء تنظیم سے فارغ ہوکر انہوں نےپارٹی پالیٹکس کو منتخب کیا کیونکہ وہ اپنے بعد آنے والوں  کیلئے راہیں متعین کرنا چاہتی تھی وہ سب کو ساتھ لیکرچلنے والوں میںسے تھی وہ ایک روشنی تھی جو پھیلتی چلی جارہی تھی ، وہ دریا تھی جو کہیں سے بھی راستہ بنا دیتی تاکہ وہ راستے پیچھےآنے والوں کے کام آئیں یہی تو وجہ تھی کہ نوآبادیت کبھی اس روشن وجود کو برداشت نہ کرسکی اور اسکی وجود کو سمندر میں بہاناچاہا تاکہ وہ مزید مشعلِ راہ نہ بن سکے۔

مگر استعمار بھول گئی کہ جس دریا میں ایک وجود کو بہا دیا گیا وہ دریا تو کہیں سے بھی اپنا راستہ نکال دیتی ہے اور جن راستوںسے یہ پانی  بہتا جائے گا اس وجود کہ ساتھ جڑے نظریے کو پھیلاتا جائے گا یہی وجہ ہے کہ کریمہ کو بلوچ قوم سے جسمانی طور پرالگ ہوئے دو سال تو پورے ہوگئے مگر آج بھی انُ کا نظریہ کہیں آبشار بن کر بہہ رہا ہے تو کہیں بوند بن کر ٹپک جاتی ہیں اور یہینظریہ بلوچوں کو ایک قوم کی طرح زندہ رکھے ہوئے ہیں ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں