ہم کامیاب ہونگے۔ تحریر: درناز رحیم، ترجمہ: یونس بروہی

534

ہم کامیاب ہونگے

تحریر: درناز رحیم
ترجمہ: یونس بروہی

دی بلوچستان پوسٹ 

مجھے لیٹ ہورہا تھا،آج اکیڈمی کا پہلا دن تھا، میں نہیں چاہتی تھی آج کے دن میں لیٹ ہو جاؤں۔ میں نے جلدی جلدی اپنی جوتیاں پہن لی، چادر کو اوڑھتی ہوئی کتابوں کو اُٹھا کر نکل گئی، دروازہ بند کررہی تھی کہ میری بہن نے آواز دی “تھوڑا رکو سعیدہ” میں نے جلدی میں گردن موڑا اور بیزار سی انداز میں بولی “کیا ہے نازی؟ مجھے لیٹ ہورہا ہے” نازی ہاتھ میں کچھ لیتے ہوئی میرے پاس آئی، “اپنی موبائل تو لے جاؤ، انجان شہر ہے یہاں ٹھیک سے واقف نہیں ہو، خدا نہ کرے اگر کچھ ہوجائے تو کام آئیگی آپکو۔”
میں نے شکر گزاری میں مسکراتے ہوئے اُس کی ہاتھ سے فون لے لی، “شکریہ نازی میں جلدی میں فون بھول گئی تھی۔”
فون کو جلدی سے کندھے پر لٹکائی ہوئی چھوٹی پرس میں رکھ دیا اور چل دی۔ ہاسٹل کے گیٹ سے نکلتے ہی مجھے رکشہ مل گیا، میں دل میں خدا کا شکر گزار ہوئی کہ رکشہ ڈھونڈنا نہ پڑا نہ تو آج مجھے یقیناً لیٹ ہوجاتا، آج میں خوشی سے مچل رہی تھی کوئٹہ شہر میں پہلی دفعہ اپنے خوابوں/منزل کی طرف پہلی قدم اُٹھانے والی تھی، خوشی کی ایک لہر تھی جس میں،پروں کو کھول کر میں اُڑنا چاہتی تھی۔

میرے دماغ میں بار بار مختلف قسم کی نظارے آرہے تھے، ڈرامائی طرز کے مختلف مناظر میری آنکھوں سے گزر رہی تھیں، میں ان نظاروں کو کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی کہ میں کیسے اکیڈمی میں داخل ہونگی؟ کلاس میں کیسے بیٹھونگی؟ کیسے اساتذہ سے سوال کرونگی اور کیسے اُسکے سوالوں کا جواب دونگی؟اور آنے والے سال تک میڈیکل کالج میں داخلہ لونگی،اور ساتھ ساتھ دل میں انشاءاللہ انشاءاللہ بول رہی تھی۔

میں ایک چھوٹے سے علاقے/قصبہ سے تعلق رکھتی ہوں، اور یہ میرے لئے بڑی بات ہے مجھے اپنے خوابوں کو پورا کرنے کا موقع ہاتھ لگا تھا، کہ اب میں اپنے خوابوں کی پورا کروں۔ کیسی خوبصورت تھی یہ گمان!
کتنے لوگوں کی خواب اُنکے زہنوں/دماغوں میں نا مکمل مرتے ہیں، اُنکو اس طرح کے مواقع نہیں ملتے وہ اپنی خوابوں کو پورا کر سکیں. میں اسی طرح اپنے خیالوں میں گم جانے کیا کیا سوچ رہی تھی،کتنی حسین تھی اپنی منزل کی طرف جانے کا سفر۔

میں اسی طرح اپنے خیالوں میں گم تھی کہ میری کانوں میں ایک آواز گونجی جس نے مجھے ایک دم سے میری خیالوں کی دنیا سے نکال دیا۔ایک ہجوم کی آواز تھی، نعروں کی آواز و شور تھی، میں اپنے خیالوں کی دنیا سے ایک ہی سیکنڈ میں نکل گئی اور آگے راستے کو دیکھنے لگی،اگے مرد،عورت بچے ہاتھوں میں تصویر و بینر لئے روڈ پے پیدل مارچ کر رہے تھے،ایک بڑا بینر لئے آگے ایک قطار جارہا تھا اور پیھچے باقی لوگ ہاتھوں میں تصویر لئے قطار میں تھے، عورت اور بچے مردوں کے بہ نسبت زیادہ تھیں۔

ادھر اُدھر دیکھی تو روڈ کے کناروں پہ لوگ کھڑے تھے ایسا لگتا تھا کہ کوئی تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ کچھ جوان عمر لڑکیاں بھی مجمع میں شامل تھیں اُن میں سے ایک ہاتھ میں مائک لئے نعرہ لگا رہی تھی، باقی لوگ نعروں کے جواب دے رہے تھے،اور ایک ایک کا نام لے رہی تھیں اور باقی سب ہم آواز بول رہی تھیں “رہا کرو رہا کرو” میں نے جلدی سے رکشہ والے کو رکنے کا کہا “لیکن باجی یہ وہ جگہ نہیں ہے جس کا آپ نے بتایا تھا” رکشے والا بولا۔

میں نے اُسے آگے بات کرنے کی موقع دئے بغیر کہنے لگی”ہاں بھائی پتہ ہے،ابھی مجھے یہاں جانا ہے، یہیں رُکو” رکشہ رُکا کرایہ کا پوچھ کر ادا کرکے اُتر کر روڈ کنارے کھڑی ہوگئی، مجھے اتنا تو پتہ چلا یہ مجمع لاپتہ افراد کیلئے مظاہرہ کررہا ہے۔

میں مجمع کو غور سے دیکھنے لگی جن میں کچھ جان پہچان کے لوگ لگ رہے تھے جن کو میں نے فیسبک پہ دیکھا تھا،جو لاپتہ افراد کے لواحقین تھے، فیسبک پہ میں انکی احتجاج/مظاہروں کی تصاویر و وڈیوز دیکھ کر افسوس کرتی تھی اور فخر کی ایک احساس میرے دل میں پیدا ہوتی کہ ہماری مائیں بہنیں کتنی دلیر(بہادر) ہیں،کسی بھی صورت میں اس جد و جہد سے پیچھے نہیں ہٹتیں اور ایک ریاست کے سامنے کامیابی سے ڈٹے ہوئے ہیں،اور پتہ نہیں دنیا کس بنیاد پر عورت کو کمزور سمجھتی ہے، ہماری یہ عورتیں کسی بھی پہلو کمزور نہیں ہیں۔

یہ وہ مائیں بہنیں ہیں جو کسی کی جھوٹی تسلیوں اور خوف کی پرواہ کئے بغیر مسلسل جہد کررہی ہیں۔

سڑک کنارے کھڑی میں مظاہرین کے نعروں کو غور سے سن رہی تھی، ہاتھ میں مائک لئے ایک نو عمر لڑکی لگ بھگ وہ میٹرک یا انٹر کی طالبعلم تھی،ایک ایک کرکے نام لے رہی تھی اور جواب میں مظاہرین رہا کرو رہا کرو کہتی تھیں، میں یوں سڑک کنارے کھڑی اس منظر کو دیکھ رہی تھی،میں اُن تصاویر کو غور سے دیکھ رہی تھی، وہ تصاویر میری دماغ میں نقش ہوئے۔

ہجوم میرے سامنے سے گزر رہا تھا اور میں ایک بے جان سی مورتی کی طرح کھڑی دیکھ رہی تھی کہ اچانک مظاہرین میں سے ایک نیم عمر ماں راستے میں بے ہوش ہوتے گِر گئی، میں کچھ محسوس کئے بغیر لمبی لمبی ڈھگ بھرتی ہوئی یوں سمجھیں دوڑتی ہوئی ماں کی طرف بھاگی،لیکن مجھ سے پہلے اُس کی پاس کھڑی عورتوں نے سنبھال لیا،ایک نو عمر لڑکی چارزانوں بیٹھ کر ماں کی سر کو اپنے ران پہ رکھ دیا،ایک اور عورت نے ایک لڑکے کو پانی کیلئے آواز دیا،”جلدی پانی لاؤ” لڑکا جانے کو تھا کہ اُس سے پہلے کسی لڑکی نے اپنے پرس سے پانی کی ایک بوتل نکال کر آگے بڑھا دی۔

ماں کی سر کو ران پہ رکھی لڑکی نے بوتل کو پکڑ کر چُلو میں پانی بھر کے اُسکے منہ پہ چھٹک دی، دو سے تین مرتبہ اُس نے ایسا کیا اور ماں نے ہوش میں آکر آنکھیں کھول لی۔ لڑکی نے بوتل کی بچی ہوئی پانی ماں کو پلانے کی کوشش کی لیکن نانی باربار ایک نام لے رہی تھی، وہاں موجود سارے لوگ نانی کو حوصلہ دے رہی تھیں۔

میں نے اپنے پاس کھڑی ایک لڑکی سے پوچھا”یہ نانی کس کا نام لے رہی ہیں،لڑکا لاپتہ ہے اسکا؟” لڑکی اُداس آواز کے ساتھ بولی “یہ نانی اپنے بیٹے کا نام لے رہی ہیں، دو ماہ پہلے لڑکے کو گھر سے جبری طور پہ لاپتہ کیا گیا تھا۔”

میں نے ایک نظر نانی کو دیکھتے ہوئے لڑکی سے دریافت کیا “اسکا گھر یہاں کوئٹہ میں ہے؟” لڑکی کی آنکھوں میں ایک دم میں نے دُکھ کی ایک داستان دیکھی، وہ اُداس سی لہجے میں بولی “نہیں مستونگ سے ہیں، یہاں رشتہ دار بھی نہیں ہیں،دل کی مریض بھی ہیں اس وجہ سے زیادہ چل نہیں سکتی ہیں،اب ہم پیدل مارچ کررے تھے اس کی طبیعت کافی خراب ہوگئی، اس بیماری میں بھی آج نانی مظاہرے میں شامل ہونے آئی ہیں کہ شاید یہ جہد اُسکی لڑکے کیلئے آذادی کا رستہ کھول دے۔

کچھ سمجھ نہیں رہی تھی کیا کہوں،کیا پوچھوں،کیا جواب دوں۔ یوں ساکت کھڑی نانی کو دیکھ کر کہنے لگی اس ماں کی ہمت اور جہد کو سلام۔

لڑکی سمجھ گئی کہ پہلے دفعہ میں کسی مظاہرے میں ہوں، میں گھبرائی ہوئی مظاہرین اور نانی کو دیکھ رہی تھی،اور وہاں موجود سارے لوگوں سے بزدل دکھ رہی تھی، میرے سوا سارے دلیر اور مضبوط/بلند حوصلہ اور ہمت ظاہر کررہی تھیں۔

سب محبت کے ساتھ ماں کو سنبھال کر حوصلہ دے رہی تھیں، وہاں سب سے زیادہ میں گھبرائی ہوئی اور پریشان تھی،انکھیں میری نکلی ہوئی تھی اور مورتی کی طرح کھڑی بس دیکھ رہی تھی۔

لڑکی نے میری ہاتھ میں کتابوں کو دیکھ کر دریافت کیا، “آپ کہیں کلاس لینے یا لے کر چھٹی کرکے آرہی ہو؟” میں چونکتی ہوئی ایک نظر لڑکی پہ دوڑا کر اپنی کتابوں کو دیکھ لیا،اور گھبراتی ہوئی بولی “ہاں جی ہو۔،،میں اکیڈمی جارہی تھی،آج میری پہلی کلاس تھی۔ لڑکی مسکان کے ساتھ دریافت کرنے لگی “کیا آپ کو لیٹ نہیں ہورہا؟” میں مُرجھاتی مسکراہٹ ہونٹوں پہ لاتے ہوئے بولی”ہاں! میرے خیال میں میری پہلی کلاس رہ گئی”۔

لڑکی کی ہونٹوں پہ مسکراہٹ برقرار تھی اور مجھے بولی”تو ہماری وجہ سے آپکی آج کا کلاس رہ گئی،ہماری زندگی میں بہت سے چیزیں رہ گئی ہیں،ایک تو یہ جہد ہے جسے ہم چھوڑ نہیں سکتے،اور پیچھے نہیں ہٹ سکتے،آپکو اگر زیادہ دیر نہیں ہوئی ہے تو آپ جا کے اپنی کلاس لو” میں نے لمبی مسکراہٹ ہونٹوں پہ سجاتے ہوئے سر نیچے کر لی۔ میں آنکھیں اُٹھا نہیں پارہی تھی میں صرف کلاس سے نہیں رہ گئی،آج تو کلاس رہ گئی لیکن شاید اُس کلاس کی سبق سے کوئی اور سبق لازمی تھی، مجھے نہیں لگتا مرا نقصان ہوا، اللہ خیر کرے کل سے متواتر اکیڈمی جاؤنگی۔

مظاہرین نانی کو سنبھالتے ہوئے سایہ میں بِیٹھ گئے اور اب مظاہرین بھی روڈ پر بیٹھ گئے۔ پہلی والی لڑکی جس کے ہاتھ میں مائک تھی کہنے لگی “اب پیدل مارچ کو یہیں ختم کرینگے،اور یہاں سے مظاہرین(لاپتہ افراد کے لواحقین) ایک ایک آکر اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ لاپتہ افراد کے عزیز و اقارب جو مظاہرے میں شریک تھے ایک ایک میں آکر مائک لے کر اپنے دکھ و درد کو اظہار کررہی تھیں۔

“اگر تمھیں جلدی نہیں ہے تو آ کے بیٹھ جائیں ہمارے ساتھ” لڑکی خود بیٹھ گئی اور ہاتھ کے اشارے سے مجھے اپنے پاس بیٹھنے کو کہہ گئی, سب کے ہاتھوں میں تصاویر تھے جن پہ نام کے ساتھ لاپتہ ہونے کا تاریخ و مقام درج تھے، میں نے دائیں بائیں دیکھا،لوگ اپنے روزمرہ کی کاموں میں مشغول تھے, موٹر سائیکل والے، پیدل والے لوگ سب ایک نظر مظاہرین پہ دوڑا کر گزر جاتے تھے، دونوں اطراف کے دکاندار ایک نظر مظاہرین کو دیکھ کہ اپنی کام میں مشغول رہتے تھے۔۔۔

یہی لڑکی مجھے یوں ادھر اُدھر غور سے لوگوں کو دیکھتے ہوئے کہنے لگی، “آپکو پتہ ہے ایک مردہ قوم کی نشانی ہے جو اپنے آنکھوں کے سامنے ظلم کو دیکھتا ہے مگر اُس کے خلاف بات نہیں کرتا ہے،اور اپنی باری کا انتظار کرتا ہے،خدا نہ کرے اُن کو یہ دن دیکھنے کو ملے اور وہ اس درد کو دیکھ لیں جس سے ہم گزر رہی ہیں، لیکن یہ عذاب پورے قوم پہ نازل ہوئی ہے،اس سے بچنے کا اکیلا راستہ اسکے خلاف اُٹھنا اور مزاحمت کرنا ہے، خدا کرے ہم اس جہد میں کامیاب ہوجائیں،اس آگ کو بُجھا دیں،اور پھر کبھی کسی کی آنکھوں کا نور اذیت خانوں کی نظر نہ ہوجائے،اور مجھے یقین ہے ہم کامیاب ہوجائیں گے”۔

میں کچھ بتائے بغیر اسے دیکھنے لگی اور دائیں بائیں لوگوں کو دیکھنے لگی جو اپنی روزمرہ کے کاموں میں مصروف تھے، میری دماغ میں لڑکی کا آخری جملہ چکر کاٹنا شروع کر گئی۔۔”مجھے یقین ہے ہم کامیاب ہونگے، ہم کامیاب ہونگے۔۔۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں