ملتان: نشتر اسپتال کی چھت پر لاشیں برآمد

782

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے علاقے ملتان میں نشتر اسپتال کی چھت پر لاشیں برآمد ہوئی ہیں، لاشیں نشتر اسپتال کے ڈیڈ ہاؤس کیچھت پر ملی ہیں۔

سوشل میڈیا پر وائرل تصاویر میں لاشوں کو پڑے دیکھا جاسکتا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ لاشوں کی تعداد پانچ سو زیادہ ہیں جبکہہستپال انتظامیہ اس تعداد کو رد کرچکی ہے۔

دوسری جانب بلوچ سیاسی و سماجی حلقے خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ یہ لاشیں لاپتہ بلوچوں کے ہو سکتے ہیں۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بلوچ صحافی کیّا بلوچ نے لکھا کہ جمعرات کو ملتان کے نشتر ہسپتال کی چھت پر کئی لاوارثلاشیں پائی گئی۔  تحقیقاتی ٹیم جانچ کر رہی ہے لیکن اتنی لاشیں کون لایا ہسپتال میں، کیا کسی نے نوٹس نہیں کیا؟ کیا ہسپتال میںCCTV کیمرے نہیں لگے ہیں؟ بعض لاشوں کے کپڑوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے کپڑے بلوچ پہنتے ہیں۔

تاہم اسپتال انتظامیہ ان دعووں کی تردید کررہی ہیں۔نشتر اسپتال ملتان کے  ترجمان  ڈاکٹر سجاد کا کہنا ہے کہ اسپتال کی چھت پرلاوارث لاشوں  کی تعداد 4 تھی۔ ترجمان کے مطابق قدرتی طور پر خشک  کی گئی لاشیں طلبہ کی پڑھائی کے لیے  ہوتی ہیں۔

دوسری طرف لاوارث انسانی لاشوں کی برآمدگی پر ہسپتال کے شعبہ اناٹومی کے سربراہ کا موقف سامنے آیا ہے کہ لاوارث انسانیلاشوں کو پیوری فیکیشن کے عمل سے گزارا جاتا ہے جس کیلئے انہیں چھت پر رکھا جاتا ہے۔

سربراہ شعبہ اناٹومی ڈاکٹر مریم اشرف نے تحریری طور پر وائس چانسلر نشتر میڈیکل یونیورسٹی کو تحریری طو ر پر بتایا کہ پولیسکی طرف سے پوسٹ مارٹم کیلئے لائی گئی لاوارث لاشوں کو فریز کرنا ناممکن ہوتا ہے جبکہ ان کو ٹیچنگ کے لیے بھی استعمال نہیںکیا جاسکتا۔ پیوری فیکیشن کے عمل کے بعد لاش کی ہڈیوں کو طلباء وطالبات کو سکھانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور ہڈیاں نکالنےکے بعد ہی لاشوں کی تدفین ایس او پیز کے مطابق کی جاتی ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب کے نوٹس لینے کے بعد نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مہناز خاکوانی نے بھی 3 رکنی انکوائری کمیٹی قائم کر دی ہے جس میں ڈاکٹر غلام مصطفیٰ، ڈاکٹر طارق پیرزادہ اور پروفیسر ڈاکٹر عباس نقوی شامل ہیں۔

نشترمیڈیکل یونیورسٹی کے ترجمان کے مطابق لاوارث انسانی لاشوں کو جالی سے بند کمروں میں چھت پر رکھا جاتا ہے جبکہ ٹیچنگمقاصد کیلئے حاصل کی گئی ہڈیاں بھی قانون کارروائی کے بعد لی جاتی ہیں اور لاشوں کی تدفین متعلقہ پولیس سٹیشن کے ذریعےہی کی جاتی ہے۔

دوسری جانب ان بیانات پر بھی کئی افراد سوالات اٹھا رہے ہیں، لوگوں کا کہنا پڑھانے کے لیے جو لاشیں لائی جاتی ہیں ان میں مرداور خواتین دونوں کی لاشیں ہوتی ہیں تاہم یہاں صرف مردوں کی لاشیں ہیں۔

خیال رہے کہ اس سے قبل لاہور میں بھی پچاس سے زیادہ لاوارث لاشیں لائی گئی تھیں جنکی بھی شناخت نہیں ہوسکی، ان جیسےواقعات کے حوالے سے بلوچوں کا موقف ہے کہ اس طرح کی لاشیں زیادہ تر لاپتہ بلوچوں کے ہوتے ہیں جنہیں پاکستانی فورسز اپنےٹارچر سیلوں میں مارکر لاشیں بلوچستان سے دور پھینکتا ہے تاکہ انکی شناخت ممکن نہیں ہو۔