بلوچستان: اگست کے مہینے میں مسلح کاروائیوں میں اضافہ

583
فائل فوٹو: پنجگور میں بی ایل اے - مجید بریگیڈ کا حملہ

پاکستان میں اس سال جولائی کے مقابلے میں اگست کے مہینے میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں معمولی کمی ریکارڈ کی گئی ہے لیکن بلوچستان میں اگست کے مہینے سب سے زیادہ کاروائیاں رپورٹ ہوئی ہیں۔

اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کی یکم ستمبر کو جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق اگست میں صوبہ خیبر پختونخوا میں تشدد کے واقعات میں نمایاں کمی ہوئی ہے لیکن دوسری جانب بلوچستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

رپورٹ کے مطابق جولائی کے مقابلے میں اگست میں پاکستان بھر میں ہونے حملوں میں مجموعی طور پر کمی آئی ہے۔ اس ماہ عسکریت پسندوں نے 31 حملے کیے جن میں پاکستانی فورسز کے 18 اہلکاروں سمیت 37 افراد ہلاک جبکہ 55 افراد زخمی ہوئے جن میں  فورسز کے 9 اہلکار بھی شامل ہیں۔ اس کے مقابلے میں اسی سال جولائی میں عسکریت پسندوں نے پاکستان بھر میں 33 حملے کیے، جن میں 34 افراد ہلاک اور 46 زخمی ہوئے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگست 2022 کے دوران عسکریت پسندوں کے حملوں میں معمولی کمی دیکھی گئی تاہم ہلاکتوں میں قدرے اضافہ ہوا ہے۔ اس دوران صوبہ خبیر پختونخوا کے قبائلی اضلاع میں تشدد میں نمایاں کمی آئی جبکہ بلوچستان میں مسلح کاروائیوں میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔ فورسز کی جانب سے کلین اپ آپریشنز کے نتیجے میں پاکستان بھر میں آٹھ مبینہ عسکریت پسند بھی مارے گئے۔

بلوچستان

رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں جولائی 2022 کے مقابلے میں اگست میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں 71 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اگست میں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ہونے والے حملوں میں پاکستانی فورسز کے اہلکاروں سمیت 9 افراد ہلاک ہوئے، جبکہ 36 دیگر افراد زخمی ہوئے۔ ان میں سے بعض حملوں کی ذمہ داری بلوچ گروپ بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ نے قبول کی ہے۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کے تحقیق کار عبداللہ خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگست میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں معمولی کمی کے باوجود ملک کے مختلف علاقوں میں تشدد کے واقعات کے نوعیت میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ صوبہ خبیر پختونخوا میں صورتحال بہتر ہوئی ہے لیکن بلوچستان میں عسکریت پسندی کی کارروائیو ں میں تیزی دیکھی گئی۔ عبداللہ خان کہتے ہیں کہ بلوچستان میں بلوچ انتہاء پسندوں کی کارروائیاں زیادہ منظم انداز میں ہورہی ہیں اور اب وہ شہری علاقوں میں بھی سرکاری اہداف کو نشانہ بنارہے ہیں۔

اگرچہ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ حالیہ مہینوں میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں ہونے والی بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے شاید عسکریت پسندوں کے حملوں میں کمی آئے گی لیکن عبداللہ خان کہتے ہیں کہ سیلاب کی وجہ سے خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع اور دیگر علاقوں میں تشدد کے واقعات میں کمی تو ضرور آئی ہے لیکن ان کےبقول دوسر ی طرف بارشوں اور سیلاب کے باوجود بلوچستان میں عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔

جبکہ ٹی بی پی مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق بلوچستان میں اگست کے مہینے میں مختلف نوعیت کے پچاس کے قریب حملے کیے گئے جن میں پاکستانی فورسز کے مرکزی کیمپ، چوکیاں اور چودہ اگست کی تقریبات کو نشانہ بنایا گیا۔ ان حملوں کی ذمہ داری مختلف بلوچ آزادی پسند تنظیموں نے قبول کی جن بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ نمایاں ہیں۔

خیبر پختونخوا

خیبر پختونخوا میں جولائی کے مقابلے میں اگست میں تشدد کے واقعات میں 33 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے اور اس دوران عسکریت پسندوں نے صوبے کے مختلف علاقوں میں آٹھ حملے کیے جن میں سیکورٹی فورسز کے آٹھ اہلکاروں سمیت نو افراد ہلاک ہوئے۔

خیبر پختونخوا میں ہونے والے زیادہ تر حملے صوبے کے قبائلی اضلاع میں ہوئے جن میں فورسز و دیگر کو نشانہ بنایا گیا۔ ان میں سے ایک حملے کی ذمہ داری حافظ گل بہادر کے شدت پسند گروپ نے قبول کی تھی جبکہ تحریک طالبان پاکستان ‘ ٹی ٹی پی’ نے قبائلی اضلاع میں ہونے والے کسی بھی حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔

سلامتی کے امور کےتجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ سید نذیر کہتے ہیں کہ جب سیکورٹی فورسز اور انتظامیہ کی توجہ سیلاب کے متعلق ریلیف ورک پر ہے اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ بعض شدت پسند عناصر نرم ا ہداف کو نشانہ بناسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو سیلاب کے دوران امدادی کاروائیوں کے ساتھ ساتھ سیکورٹی کو بھی یقینی بنانا ہوگا تاکہ شدت پسند عناصر اس صورتحال کا فائد ہ نہ اٹھا سکیں۔

رواں سال مئی میں حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان افغان طالبان کے وساطت سے شروع ہونی والی امن بات چیت کے نتیجے میں ٹی ٹی پی نے جنگ بندی کا اعلان کر رکھا ہے لیکن اس کے باوجود صوبہ خیبر پختونخوا میں عسکریت پسندی اور ہدف بنا ک ہونے والے ہلاکتوں کے واقعات کے بارے میں تجزیہ کار سید نذیر کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی جنگ بندی پر قائم ہے اور ایسے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں کہ ٹی ٹی پی حالیہ واقعات میں ملوث ہے۔

انھوں نے کہاکہ ہدف بناکر ہلاک کرنے کے واقعات کا بظاہر مقصد، ٹی ٹی پی اور حکومت کے درمیان جاری امن مذکرات کو ناکام بنانا ہے تاکہ عام لوگوں میں اس بات چیت کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کیے جائیں۔

بریگیڈئیر سید نذیرکہتے ہیں حال ہی میں سرحد پار افغانستان میں ہونے کے والے کئی حملوں میں دہشت پسند گروپ داعش ملوث پایا گیا ہے جو نہ صرف خطے بلکہ خطے کے باہر ممالک کے لیے بھی باعث تشویش ہے۔

سید نذیر کہتے ہیں کہ سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے باوجود بلوچستان میں شدت پسندی اور ان قوم پرست عناصر کی کارروائیوں میں کمی نہیں آئی ہے جو بعض اوقات مقامی بلوچ عناصر کی محرومی کو ہو ا دے کر امن وامان کے مسائل پید اکرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں حکومت نے متعدد بار بلوچ عوام کی محرومیوں کو دور کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ان کے خیال میں سیاسی عزم کی کمی کی وجہ سے یہ کوششیں کامیاب نہیں ہوسکی ہیں۔